میں
السلام علیکم
عرب معاشرہ میں عورت کو نوازے جانے پر سنی سنائی نہیں بلکہ اپنے ذاتی تجربہ سے تھوڑی روشنی ڈالیں، مجھے آپکی اس رائے سے اتفاق نہیں۔
والدین کا لڑکی کو سمجھداری کی باتیں بتانا جاہلانہ نہیں بلکہ فائدہ مند ہوتا ھے۔
جب آپ اس عمر کو پہنچیں گے تو اس کا جواب خود سے لے لیں۔
والسلام
میں ایک عربی ملک میں کئ سالوں سے رہ رہا ہوں اور یہاں کئ عربوں سے میرے تعلقات ہیں۔ عربوں کے ہاں مہر میں عورت کو بہت کچھ نوازا جاتا ہے۔ اور یہ اب سے نہیں بلکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور سے ہی معاملہ چل رہا ہے جبکہ آپ نے مہر کی مقدار کو محدود کرنا چاہا اور ایک عورت نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے قرآن مجید کی یہ آیت سنائ:
وإن أردتم استبدال زوج مكان زوج وآتيتم إحداهن قنطارا فلا تأخذوا منه شيئا۔۔۔ الآية (النساء)
اس واقعہ کا پسِ منظر یہی تھا کہ صحابہ عورتوں کو حق مہر کی ایک بڑی مقدار دیا کرتے تھے۔
اسی طرح عرب ممالک اپنے وطنیوں کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت اچھی ملازمت دیتے ہیں اور اسکے ساتھ بعض کے لیے مہانہ وظیفے مقرر ہوتے ہیں۔ اسی لیے عورت کی عام طور پر وہی مالی پوزیشن ہوتی ہے جوکہ مرد کی ہوتی ہے۔ اور یہاں کچھ عرصہ پہلے ایک سروے میں اس بات کو خوب نوٹ کیا گیا کہ یہاں مردوں کے لیے شادی کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے چونکہ شادی کے لیے لڑکی کو کم از کم اپنے سٹیٹس کا لڑکا درکار ہوتا ہے جوکہ بعض اوقات ملنا مشکل ہوتا ہے۔
رہی بات والدین کا لڑکی کو سمجھانا تو میں نے کب اسکی مخالفت کی ہے؟ اگر عورت کے جنازے والی بات کی طرف آپکا اشارہ ہے تو معذرت کے ساتھ یہ سمجھانا نہیں بلکہ پرلے درجے کی جہالت ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی ایک صورت ہے۔
اسلام ایک بڑا ہی فطری دین ہے۔ یہاں مرد کی زیادتی پر اسکو سزا ہے اور اسی طرح عورت کی زیادتی پر اسکو سزا ہے۔ کبھی یہ بات ماں باپ نے اپنے بیٹے کو نہیں سمجھائ کہ بیٹا جو مرضی ہو جائے اپنی بیوی کو کبھی چھوڑنا مت، بلکہ عام طور پر ساس صاحبہ سب سے آگے ہوتی ہیں بیٹوں کی طلاقیں دلانے میں۔
رہی بات عمر کی تو پیارے بھائ آپ کہاں مجھے جانتے ہیں! جو ان حالات سے گزرا ہوتا ہے اسکو ہی صرف اسکی کڑواہٹ کا علم ہے۔