• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھانا کھاتے وقت جوتے اتارنا، اور خاموش رہنا : کیا اس طرح کا حکم حدیث میں موجود ہے ؟؟؟

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
میرے پاس صحیح فقہ السنۃ ،اعداد:ابومالک کمال بن السید سالم۔۔ ہے اس میں انہوں نے کہانے کے 13آداب دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن اس میں انھوں نے کہیں یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ کھانا کھاتے وقت جوتے اتاردینا چاہئے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی حدیث مجھے ملی ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آپ کی پیش کردی حدیث سنن الدارمی اور دیگر کتب میں موجود ہے ؛
ہم یہ روایت ’’ سنن الدارمی ‘‘ سے نقل کرتے ہیں :
امام دارمی فرماتے ہیں :
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَ الطَّعَامُ، فَاخْلَعُوا نِعَالَكُمْ، فَإِنَّهُ أَرْوَحُ لِأَقْدَامِكُمْ» (سنن الدارمی حدیث نمبر :2125 )

[تعليق المحقق] في هذا الإسناد علتان موسى بن محمد منكر الحديث ومحمد بن إبراهيم لم يسمع أبا هريرة
جناب انس بن مالک راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
جب کھانا لگادیا جائے ،تو جوتے اتار دیا کرو ، کیونکہ اس طرح تمہارے قدموں کو زیادہ راحت ملتی ہے ‘‘
لیکن یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے
سنن دارمی کے محقق علامہ حسین سلیم اسد اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
اس کی سند میں دو خرابیاں پائی جاتی ہیں :ایک تو یہ کہ اس کا ایک راوی ۔موسى بن محمد ‘‘ منكر الحديث ہے ؛
اور دوسری خرابی یہ کہ محمد بن ابراہیم راوی جو سیدنا ابو ھریرہ سے ناقل ہے اس نے ابو ھریرہ سے نہیں سنا ‘‘
یعنی یہ سند منقطع بھی ہے ؛؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة )
کی دوسری جلد میں اس حدیث کو انتہائی ضعیف قرار دیا ہے، بلکہ قریب قریب موضوع کہا ہے

" إذا أكلتم فاخلعوا نعالكم، فإنه أروح لأقدامكم ".
ضعيف جدا.
رواه الدارمي (2 / 108) وأبو سعيد الأشج في " حديثه " (214 / 1) والحاكم (4 / 119)
وكذا أبو القاسم الصفار في " الأربعين في شعب الإيمان " كما في " المنتقى منه " للضياء المقدسي (48 / 2) و" المنتخب منه
" لأبي الفتح الجويني (74 / 1) والديلمي في " مسند الفردوس " (1 / 1 / 102 - مختصره) عن موسى بن محمد عن أبيه عن أنس مرفوعا.
وقال الحاكم: " حديث صحيح الإسناد! ورده الذهبي بقوله: " قلت أحسبه موضوعا، وإسناده مظلم، وموسى تركه الدارقطني ". وأقول: هو موسى بن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي
أبو محمد المدني، متفق على تضعيفه، وضعفه طائفة تضعيفا شديدا، فقال البخاري: " عنده مناكير ". وقال أبو داود: " لا يكتب حديثه " وقال أبو حاتم: " ضعيف الحديث، منكر الحديث، وأحاديث عقبة بن خالد عنه من جناية موسى، ليس لعقبة فيها جرم ".
قلت: وهذا الحديث من رواية عقبة عنه، فهو من جناية موسى، وفي تعبير أبي حاتم هذا توهين شديد له كما لا يخفى. والحديث أورده الهيثمي في " المجمع " (5 / 23) وقال: " رواه البزار وأبو يعلى والطبراني في " الأوسط "، ورجال الطبراني ثقات إلا أن عقبة بن خالد السكوني لم أجد له من محمد بن الحارث سماعا ". قلت: محمد بن الحارث والد موسى لكنه نسب إلى جده، فإنه محمد بن إبراهيم بن الحارث كما عرفت من ترجمة ابنه، والحديث من رواية الولد عن أبيه، كذلك أخرجه الحاكم وغيره كما تقدم عن عقبة بن خالد عن موسى بن محمد عن أبيه، فالظاهر أنه سقط من إسناد الطبراني أو من ناسخ كتابه قوله " عن أبيه " فصار الحديث منقطعا بين عقبة ومحمد بن الحارث، والله أعلم. ولفظ رواية أبي يعلى وإسناده خلاف ما سبق كما يتبين مما يأتي: " إذا قرب لأحدكم طعامه وفي رجليه نعلان فلينتزع نعليه، فإنه أروح للقدمين، وهو من السنة ".
قال المناوي: " وفيه معاذ بن سعد، قال الذهبي: مجهول، وداود بن الزبرقان، قال أبو داود: متروك، والبخاري: مقارب ".
 
Last edited:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
اسی وجہ سے کہانے کے آداب میں صاحب صحیح فقہ السنہ نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ اعتبار صحیح حدیث کا ہے نہ کہ ضعیف و موضوع کا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
(76) کھانا کھاتے وقت جوتے اتارنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس حدیث کے بارے میں بتائیں جس میں ذکر ہے ’’جب کھانا رکھا جائے تو جزتے اتار لیا کرو اس میں تمہارے قدموں کی راحت ہے ‘‘
کیا یہ حدیث ہے یا مقولا اگر حدیث ہے تو صحیح ہے ؟۔(آپ کا بھائی :ابو سلمان حضرت محمد)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: ولا حولا ولا قوةالاباللہ ۔

یہ حدیث تین صحابہ رسول ﷺسۃ روایت ہے : (1) ابو عبس بن جبیر ﷜
(2)انس بن کالک ﷜۔
(3) جابر ﷜۔

ابو عبس ﷜کی حدیث کو امام حاکم نے نکالا ہے جیسے کنز الخمال رقم :(40725۔15؍335)میں ہے ان لفظوں کے ساتھ ،’’ کھانا کھاتے وقت جوتے اتار لیا کرو یہ اچھا طریقہ ہے ‘‘۔امام البانی نے ضعیف جامع صغیر رقم:(243)میں اسے موضوع کہا ہے ۔ انس ﷜کی حدیث دو سندوں سے مروی ہے :

اول :جسے ابو یعلی (3؍1036)اور بزار(159)میں روایت کیا ہے ،کہتے ہیں ہمیں حدیث سنائی معاذ بن شعبہ نے انہیں حدیث سنائی داؤد بن زبر قان نے ابو الھیثم سے وہ روایت کرتے ہیں ابراہیم التیمی سے وہ انس سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ،جب تم میں سے کسی ایک کے لیے کھانا قریب کر دیا جائے او راس کے پیروں میں جوتے ہوں تو انہیں اتار دے اس میں قدموں کے لیے زیادہ راحت ہے اور سنت ہے ‘‘۔

روایت کیا اس کو ھیثمی نے مجمع الزوائد (5؍23)میں اور سکوت کیا ہے اس پر او رذکر کیا ہے اسے کنز العمال میں رقم : (40727)اور اس میں معاذ بن شعبہ مجہول ہے او رداؤد بن برقان کو امام ابو داؤد نےمتروک او رامام بخاری  نے مقارب کہا ہے ۔

دوسری:وہ حدیث جیسے دارمی نے (2؍32)برقم :(2086)او رحاکم نے (4؍119)میں روایت کیا ہے محمد بن سعید سے وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث سنائی عقبہ ابن خالد نے موسیٰ بن محمد بن ابراہیم سے وہ کہتے ہیں مجھے حدیث سنائی میرے والد انس بن مالک ﷜سے وہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے :

’’جب کھانا رکھ دیا جائے تو جوتے اتار لیا کرو ،تمہارے اقدام کے لیے زیادہ راحت افزا ہے ‘‘۔

او ریہ کنز العمال میں ہے برقم :(40728)ہے او رحدیث بہت ضعیف ہے کیونکہ موسیٰ بن محمد بن ابراہیم الحارث پر اتفاق ہے ،دارقطنی نے اسے متروک کہا ہے ۔

امام بخاری ﷫ نے اسے متروک کہا ہے ۔،’’ اس کےپاس مناکیر ہیں ،‘‘اسی لیے امام ذھبی  نے کہا ہے :

’’میں کہتا ہوں ،میرے خیال میں موضوع ہے ،اس کی سند میں اندھیر ہے او رموسیٰ کو دارقطنی نے متروک کہا ہے ۔

ابو حاتم نے کہا ہے ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے ،اس سے عقبہ بن خالد کی احادیث میں قصور موسیٰ کا ہے :عقبہ کا اس میں کوئی جرم نہیں ۔ ھیثمی نے عقبہ او رمحمد بت حارث جو محمد بن موسیٰ ہے کے درمیان انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ، الخ(5؍23)میں مراجعہ کریں السلسلہ الضعیفہ (2؍411)رقم:(98)اور ضعیف الجامع رقم :(396)۔

جابر کی حدیث کو ابن حجر ﷫ نے المطالب العالیہ(2؍318)رقم (2362)میں ذکرکیا ہے ،جابر ؓ نے اسے مرفوع بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،جب تم کھانا کھاؤ تو حوتے اتار لیا کرو اس میں تمہارے قدموں کی زیادہ راحت ہے ۔
ابو خیثمہ حدثنا عقبہ بہ ،لا بی یعلیٰ محقق حبیب الرحمن کہتے ہیں :شاید ابو یعلی کی سند میں جابر کی اسناد گر گئی ہے یہ وہاں نہیں ہے ،تلخیص کے ساتھ۔

حدیث کی سند کے لحاظ سے یہ حالت ہے لیکن یہ فضائل اعمال و آداب میں ہے او راکثر اہل علم اس میں تسامح کرتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق.

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ الدین الخالص (ج1ص158)
جناب امین اللہ بشاوری
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کھانا کھاتے ہوئے گفتگو کرنا


سوال: کیا کھانا کھاتے ہوئے گفتگو کرنا جائز ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب
الحمد للہ:

سنت نبویہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے کھانے کے دوران بات کرنا منع قرار دیا جائے، اور زبان زد عام یہ بات کہ: "طعام پر نہ سلام نہ کلام" شرعی طور پر بے بنیاد بات ہے۔

بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا کھانے کے دوران گفتگو کرنا ثابت ہے۔

چنانچہ صحیح بخاری: (3340) اور مسلم: (194) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دن گوشت لایا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کاشانہ پیش کیا گیا، آپ کو شانے کا گوشت پسند تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسےاپنے دندانِ مبارک سے کاٹ کر کھانے لگے، اور آپ نے فرمایا: (میں قیامت کے دن لوگوں کا سربراہ ہونگا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کیسے ہوگا۔۔۔) " اس کے بعد آپ نے شفاعت سے متعلق لمبی حدیث نقل کی۔

اور اسی طرح صحیح مسلم : (2052)میں ہے کہ: جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اپنے اہل خانہ سے سالن کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: "ہمارے پاس تو صرف سرکہ ہی ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکہ منگوایا اور آپ اسی کے ساتھ کھانا کھانے لگے، اور کھانے کے دوران آپ فرما رہے تھے: (سرکہ ایک اچھا سالن ہے، سرکہ ایک اچھا سالن ہے)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں کھانا کھانے والوں کو مانوس کرنے کیلئے بات کرنے کا ذکر ہے، جو کہ مستحب ہے"انتہی
"شرح صحيح مسلم"(14/7)


امام نووی رحمہ اللہ نے کھانا کھانے والوں کو مانوس کرنے کا جو تذکرہ کیا ہے، یہ چیز عرب کے ہاں معروف ہے، اور یہ مہمان نوازی کا اہم جزو ہے۔

شاعر کہتا ہے:

وَرُبَّ ضَيْفٍ طَرَقَ الْحَيَّ سُرًى
صَادَفَ زَاداً وَحَدِيْثاً مَا اشْتَهَى
رات کے وقت بہت سے مہمان محلے میں دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں
پھر مرضی کا کھانا اور گفتگو پاتے ہیں

إِنَّ الْحَدِيْثَ طَرَفٌ مِنَ القِرَى
کیونکہ مہمان سےکلام کرنا بھی مہمان نوازی کا حصہ ہے

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، جیسے کہ پہلے سرکہ والی حدیث میں اس بات کا تذکرہ ہے، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سوتیلے بیٹے عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو کھانا کھلاتے ہوئے فرمایا: (بسم اللہ پڑھو، اور اپنے سامنے سے کھاؤ)" انتہی
"زاد المعاد " (2/366)


ان احادیث میں کھانا کھاتے ہوئے بات کرنے کا جواز ملتا ہے، اور کھانے کے دوران جن احادیث میں بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا ممانعت کی گئی ہے، ان میں سے کوئی حدیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔

حافظ سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مجھے کھانا کھانے کے دوران گفتگو کی نفی یا اثبات کے بارے میں کسی حدیث کا علم نہیں ہے"انتہی
"المقاصد الحسنہ " (صفحہ: 510)


شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کھانے پر گفتگو کرنے کا وہی حکم ہے جو عام حالات میں گفتگو کرنے کا ہے، لہذا کھانے کے دوران اچھی بات اچھی اور بری بات بری ہوگی" انتہی
" سلسلہ الهدى والنور " کیسٹ نمبر:(15/1)

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
 
Top