السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیجیئے مکمل مضمون پیش خدمت ہے
::: کھڑے ہو کر کچھ پینے، او رکھانے کا شرعی حُکم،اور اُس کی حِکمت ::: Islamic Rule (Decision) About Eating And Drinking While Standing
::::::: کھڑے ہو کر کچھ پینے، او رکھانے کا شرعی حُکم،اور اُس کی حِکمت :::::::
::: Islamic Rule (Decision) About Eating And Drinking While Standing:::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ، و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ، و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ::: سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر دی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
کھڑے ہو کر کچھ کھانا یا پینا ، ہماری بگڑی ہوئی عادات میں سے ہے ، اور ہم میں اکثر اِسے محض ایک عادت ہی سمجھتے ہیں ، کچھ ایسے بھی ہیں جو اِسے جدید طرز حیات کا ایک انداز سمجھتے ہیں ،
جب کہ نہ تو یہ محض ایک عادت ہے ، اور نہ ہی جدید طر ز حیات کا کوئی انداز ،
یہ ایک ایسا عمل ہے جِس میں شیطان کی شراکت ہو تی ہے ، اوریہ عمل قدیم سے چلتا آ رہا ہے ،
آیے کھڑے ہو کر کچھ پینے یا کھانے کے مسئلے کو اپنے اکیلے خالق و مالک ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے آخری رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی اور فعلی سُنّت شریفہ ، اور اُنکے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
قارئین محترم ، توجہ اور تدبر سے درج ذیل احادیث شریفہ کا مطالعہ فرمایے ، اور اِن کے بعد والے سارے مواد کا بھی ،
:::(1):::ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
﴿ لَا یَشْرَبَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ قَائِمًا، فَمَنْ نَسِىَ فَلْيَسْتَقِئْ:::
تم میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر ہر گِز نہ پیے، لہذا جو کوئی بُھول (کر پی )جائے تو وہ قے(یعنی اُلٹی )کر (کے پیا ہوا باہر نکال)دے﴾
اس روایت کے بارے میں کچھ محدثین نے کہا کہ اِس میں کمزوری ہے ،
اور ، امام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ فَالْحَدِيثُ بِمَجْمُوعِ طُرُقِهِ صَحِيحٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ::: لہذا حدیث اپنی تمام اسناد کے مجموعے کی روشنی میں صحیح ہے""" فتح الباری شرح صحیح البخاری/حدیث/5616کتاب الاشربۃ/باب16الشُّربُ قائماً،کی دُوسری حدیث کی شرح،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ، یہ روایت اِن الفاظ یعنی ، """فَمَنْ نَسِىَ فَلْيَسْتَقِئْ:::
لہذا جو کوئی بھول (کر پی )جائے تو وہ قے(یعنی اُلٹی )کر (کے پیا ہوا باہر نکال)دے"""کے بغیر صحیح ثابت شدہ ہے ، لیکن یہی بات(یعنی اُلٹی کر کے پیا ہوا نکال دینے والی بات) دُوسری روایات میں ثابت ہے ،تفصیل کے لیے دیکھیے ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث رقم 175،
پس اگر ہم یہاں اِس روایت کے آخری حصے کو کمزوری کی وجہ سے نظر انداز بھی کر دیں تو بھی یہ ہی بات دیگر صحیح روایات میں میسر ہے ، اِن شاء اللہ ، ابھی اُن روایات کو بھی ذِکر کرتا ہوں ،
:::(2):::ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے
﴿ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللَّہ علیہِ وسلَّم نَہَی عَن الشُّرْبِ قَائِمًا:::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا﴾
اور اِن ہی کی دُوسری روایت ہے
﴿ أَنَّ النَّبیَّ صلی اللَّہ علیہِ وسلَّم زَجَرَ عن الشُّرْبِ قَائِمًا:::
نبی(اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا﴾
::: (3):::بالکل یہی الفاظ أنس رضی اللہ عنہ ُ نے بھی روایت کیے ہیں،اور،
::: (4):::اِن کی دُوسری روایت کے الفاظ ہیں
﴿ أَنَّہُ نہی أَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا :::
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑا ہو کر پیے﴾
قال قَتَادَۃُ فَقُلْنَا فَالْأَکْلُ ::: قتادہ (أنس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کرنے والے ، تابعی کہتے ہیں ، ہم نے کہا(تو کھڑے ہو کر)کھانے کا کیا حُکم ہے؟،
فقال ذَاکَ أَشَرُّ أو أَخْبَثُ:::
تو أنس رضی اللہ عنہ ُنے کہا،(کھڑے ہو کر)کھانا تو پینے سے زیادہ بڑھ کر شر والا اور گندہ کام ہے،
::: (5) ::: ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِى يَشْرَبُ وَهُوَ قَائِمٌ مَا فِى بَطْنِهِ لاَسْتَقَاءَهُ:::
اگر کھڑے ہو کر پینے والا یہ جان لے کہ (کھڑے ہو کر پینے کی وجہ سے )اُسکے پیٹ میں کیا (گناہ آلود ، اور تکلیف دہ معاملہ ہوا)ہے تو وہ (قے ، یعنی ، اُلٹی کر کے)پیا ہوا باہر نکال دے﴾
::: (6) :::ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تو فرمایا
﴿قِہ:::
قے کرو﴾ ( یعنی جو پیا ہے اُسے اُلٹی کر کے نکال دو)،
مندرجہ بالا تمام احادیث شریفہ میں سے پہلی چار تو صحیح مسلم/کتاب الاشربۃ/باب 14کراھیۃ الشُّربُ قائماً،کی ہیں،
اور پانچویں مُسند احمد/حدیث رقم/8027مُسند ابو ھُریرہ میں سے حدیث رقم709ہے ، اِسے بھی اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/ضمن حدیث 176، میں صحیح قرار دیا،
اور چَھٹی بھی مُسند أحمد/حدیث/8224مُسند ابو ھُریرہ میں سے حدیث رقم 906ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/ضمن حدیث 175، میں صحیح قرار دیا،
اِس آخری حدیث شریف کا باقی حصہ اِن شاء اللہ ابھی آگے پیش کرتا ہوں کیونکہ وہ آخری حصہ ہمارے زیر مطالعہ موضوع،مسئلے کے لیے فیصلہ کُن خبر کا حامل ہے ،
اِن مذکورہ بالا چھ صحیح ثابت شدہ أحادیث مُبارکہ سے جو کہ تین مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے روایت کی ہیں ، اِن احادیث مُبارکہ سے یہ باتیں بڑی وضاحت سےسمجھ میں آتی ہیں وہ یہ کہ:::
:::(1)::: کھڑے ہو کر کچھ بھی پینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور،
:::(2):::اور اِس قدرسختی سے منع فرمایا ہے کہ پی گئی چیز کو قے(یعنی اُلٹی)کر کے جِسم سے نکال دینے کا حُکم فرمایا ہے،
حلق میں ہاتھ ڈال کر وہ چیز باہر نکال دینے کے الفاظ والی کوئی روایت مجھے نہیں ملی،
:::(3):::یہ حُکم پیے جانے والی ہر ایک چیز کے لیے ہیں ، صِرف پانی ہی کے لیے نہیں ،
پس اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن شدید احکام کے مُطابق کھڑے ہو کر کچھ بھی پینا ، اور صحابی رسول أنس رضی اللہ عنہ ُ کے فتوے کے مُطابق ، کھڑے ہو کر کچھ بھی کھانا حرام قرار پاتا ہے ،
لیکن ،،،،، کچھ صاحبان کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا حُکم کراہت کا درجہ رکھتا ہے نہ کہ حرام کا،اُن کا ایسا کہنا دُرُست نہیں،
کیسے دُرُست نہیں اِس کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا،پہلے ہم اُن لوگوں کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں ،
::::: کھڑے ہو کر پینے سے ممانعت کےحُکم کو صِرف کراہت تک محدود رکھنے والوں کے دلائل :::::
::: (1) ::: پہلی دلیل ::: أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں یہ روایت کہ :::
"""""أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ قَعَدَ فِى حَوَائِجِ النَّاسِ فِى رَحَبَةِ الْكُوفَةِ حَتَّى حَضَرَتْ صَلاَةُ الْعَصْرِ ، ثُمَّ أُتِىَ بِمَاءٍ فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهْوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ
إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قَائِمًا﴿وَإِنَّ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ
﴾:::کوفہ میں باب رحبہ والے مُقام پر علی رضی اللہ عنہ ُ نے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر لوگوں کی ضرویارت اور معاملات نمٹانے کے لیے بیٹھے ، یہاں تک عصر کی نماز کا وقت ہو گیا ،
پھر اُن کے پاس پانی لایا گیا ، تو اُنہوں نے پانی پیا اوراپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ (یعنی کہنیوں تک بازو)دھوئے ،اور سر اور دونوں پیروں کا مسح کیا ، اور پھر کھڑے ہوئے ، اور بچا ہوا پانی پیا ،اور (پانی پیتے ہوئے)وہ کھڑےتھے ،
پھر فرمایا ،
لوگ کھڑے ہو کر پینا مکروہ سمجھتے ہیں ،
﴿ اور بے شک نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے وہی کچھ کیا ہے جیسا کہ میں نے(ابھی ابھی)کیا ہے (یعنی کھڑے ہو کر پیا ہے)﴾"""""صحیح بخاری/حدیث/5616کتاب الاشربۃ/باب16الشُّربُ قائماً،
::: (2) ::: دُوسری دلیل :::عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا ہے کہ
﴿سَقَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللَّہُ علیہ و علی آلہ وسلم مِن زَمْزَمَ فَشَرِبَ وھُوَ قَائِمٌ:::
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو زمزم پلایا اور انہوں نے پیا اور وہ کھڑے تھے﴾صحیح البُخاری/حدیث1637/کتاب الحج/باب76،صحیح مسلم/حدیث5399/کتاب الاشربۃ/باب15،
::: (3) ::: تیسری دلیل ::: ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کے طور پر منقول ہے ، جس میں یہ ذِکر ہوا کہ"""فَأُتِىَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ ثُمَّ نَاوَلَ الَّذِى يَلِيهِ عَنْ يَمِينِهِ فَشَرِبَ قَائِماً حَتَّى شَرِبَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ قِيَاماً:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک برتن میں دُودُھ پیش کیا گیا ، اور وہ سواری پر تشریف فرما تھے، اُنہوں نے دُودُھ پیا اور پھر دُودُھ والا برتن اپنے سیدھے ہاتھ والے شخص کو عطاء فرمایا ، تو اُس شخص نے کھڑے (کھڑے ہی)دُودُھ پیا اور (پھر باری باری)سب ہی لوگوں نے کھڑے کھڑے ہی پیا"""،مُسند احمد/حدیث/7744مُسند ابی ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم426،
یہ روایت ضعیف یعنی کمزورہے،ناقابل حُجت ہے، کیونکہ اِس کی سند میں صلت بن غالب، اور مسلم جوھجیمی (قبیلے کے بتائے گئے)ہیں، دونوں ہی مجھول ہیں،
اور اِس کے عِلاوہ اِسےامام بخاری رحمہُ اللہ نے مُرسل کہا ہے اور بتایا ہے کہ صلت بن غالب الھجیمی سے روایت کرنے والے یُونس بن عبید نے مُرسل روایات کی ہیں (یعنی ، یُونس بن عُبید کا اِس صلت الھجیمی سے سماع ہی ثابت نہیں ہوتا)، تاریخ الکبیر/ترجمہ رقم2903،
پس اِس روایت میں کسی کے لیے کھڑے ہو کر کچھ پینے کو جائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں،
:::::کھڑے ہوکر پینے کی اجازت دینے والوں کے دلائل کا جواب :::::
کھڑے ہو کر پینے کی اجازت دینے والے،خواہ مکروہ کہہ کر یا بغیر مکروہ کہے عام اجازت دینے والے اِن مذکورہ بالا احادیث کو، اور اِسی قسم کی کچھ اور روایات کو دلیل بناتے ہیں،
حیرت کی بات ہے کہ پہلی حدیث جو أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے یہ لوگ اُس میں أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے اِلفاظ پر غور کیے بغیر فتویٰ دیے ہوئے ہیں،
اور اُسی پر عمل اور اُسی کو نشر کیے جا رہے ہیں،جبکہ اِس روایت میں أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نے یہ کہا کہ"""
إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قَائِمًا:::
لوگ کھڑے ہوکر پینا مکروہ سمجھتے ہیں"""،
یہ اِلفاظ اس چیز کی واضح دلیل ہیں کہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ تک رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ممانعت کا حکم نہیں پہنچا ، ورنہ کسی ایک عام صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اُن تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کوئی بات پہنچی ہو اور وہ اُس بات کے خلاف کام کریں ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات کو محض لوگوں کی بات کا درجہ دیں!
چہ جائیکہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ جیسے صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں یہ گُمان ہی کیا جائے ،
کوئی اِیمان والا أمیر المؤمنین والا علی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اُن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا کوئی حُکم پہنچا ہو اور وہ اُس پر عمل نہ کریں، اور معاذ اللہ اُسے لوگوں کی بات کہیں ،
لہذا ،أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے مذکورہ بالا اِلفاظ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ اُن تک یہ بات لوگوں کی بات کی حیثیت سے پہنچی ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات کے طور پر،جیسےکہ ابھی ابھی ذِکر کی گئی صحیح بخاری کی روایت میں أمیر المؤمنین کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ """
إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قَائِمًا:::
لوگ کھڑے ہوکر پینا مکروہ سمجھتے ہیں"""،
اور مُسنداحمد/حدیث/982مُسند علی بن ابی طالب میں سے حدیث رقم 410،میں ہےکہ،أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا """
أَيْنَ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قَائِماً:::
کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ کھڑے ہو کرپینے کو مکروہ سمجھتے ہیں"""،
یہ بات میری اِس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نے لوگوں کی بات پر اِنکار کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پانی پیا کیونکہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تھا اور ممانعت کا حُکم اُن تک نہیں پہنچا تھا،
لہذا أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی اِن روایات میں سے أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا کھڑے ہوکر پینے سے ممانعت پر ، اُس ممانعت کو لوگوں کا خیال سمجھ کر اِنکار کرنا، کھڑے ہوکر پینے کی اِجازت دینے والوں کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے،
جی ہاں دلیل کے طور پر أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا یہ قول اِستعمال کِیا جا سکتا ہےکہ
﴿وَإِنَّ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ:::
اور بے شک نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے وہی کچھ کیا ہے جیسا کہ میں نے(ابھی ابھی)کیا ہے (یعنی کھڑے ہو کر پیا ہے)﴾،
اور یہ ہی بات عبداللہ ابن عباس والی دُوسری روایت میں بھی ہے،یہاں تک ہمارے سامنے دو باتیں ظاہر ہوئِیں :::
:::(1):::ایک تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ حُکم کہ کھڑے ہو کر کچھ نہ پیا جائے ، اور ،
:::(2):::دُوسرا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اپنا فعل اپنے اُس حکم کے مُخالف نظر آتا ہے،
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ، کوئی بھی ایسی دو صحیح روایات جو بظاہرایک دُوسرے کے مُخالف نظر آتی ہوں اِن کا اِختلاف تین قِسموں میں ہوتا ہے،
اور اِس کو حل کرنے کے لیے تین ہی قانون بنائے گئے ہیں،
"""عِلم اصول الفقہ""" میں اِس معاملے کی تفصیل أئمہ رحمہم اللہ نے بیان کی ہے،
لیکن اِن قوانین کی طرف اُس وقت جایا جاتا ہے جب حقیقت میں کوئی اِختلاف ہو یعنی کوئی ایسی صحیح حدیث مُیسر نہ ہو جو اِختلاف کی وضاحت کر کے اُس کےلیے کوئی اور حل ظاہر نہ کرتی ہو، (ناسخ و منسوخ کا معاملہ بھی اِسی حل کے ضمن میں آتا ہے)تو ایسی صورت میں اُن قوانین کی طرف جایا جاتا ہے،
یہ چیزیں"""عِلم اصول الفقہ """میں موجود ہیں اور اِس عِلم کے أئمہ رحمہم اللہ کی کتابو ں میں لکھی ہوئی ملتی ہیں،
اِس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے،اگر کوئی اِن معاملات کا کچھ تفصیلی تعارف حاصل کرنا چاہے تو میری کتاب """ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا حُکم"""کے مطالعے سے مدد مل سکتی ہے،اِن شاء اللہ،
ہم اِس وقت جو مسئلہ سمجھ رہے ہیں،یعنی
"""کھڑے ہو کر کچھ پینے کا مسئلہ"""اِس میں نظر آنے والے اِختلاف کا حل، اور کھڑے ہو کر کچھ پینے سے ممانعت کا سبب ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے بتا دیا گیا ہے،
لہذا ہمیں دو صحیح لیکن متضاد روایات کے تضاد کے حل کے مختلف طریقوں کی طرف جانے کی کوئی ضُرورت نہیں ،
اوروہ اِس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کھڑےہو کر پینے کی ممانعت کا سبب بیان فرما دِیا، اور وہ سبب یہ ہے کہ جو کوئی بھی کھڑے ہو کر پیتا ہے شیطان اُسکے پینے میں شامل ہوجاتا ہے،
ملاحظہ فرمایے ، یہ درج ذیل حدیث شریف :
::::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تو فرمایا
﴿قِہ:::
قے کرو( یعنی جو پیا ہے اُسے اُلٹی کر کے نکال دو)
﴾
اُس نے عرض کِیا"""(جی، لیکن ایسا )کیوں؟(کروں )"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
﴿أ یُسُرُّکَ أن یَشرِبَ مَعکَ الھِر؟:::
کیا تُمہیں یہ بات خوشی دے گی کہ تمہارے ساتھ بِلا پیے ؟﴾،
اُس نےکہا """جی نہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا
﴿فإِنَّہ ُ قَد شَرِبَ مَعکَ مَن ھُوَ شَرٌّ مِنہُ ؛ الشِّیطَان:::
بے شک(تمہارے کھڑے ہو کر پینے کی وجہ سے)بِلے سے زیادہ شر والا تمہارے ساتھ پی چُکا ہے ، اور وہ ہے شیطان﴾ مُسند أحمد/حدیث/8224مُسند ابو ھُریرہ میں سے حدیث رقم906ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/ضمن حدیث 175، میں صحیح قرار دیا،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ کھڑے ہو کر پینے والے کے ساتھ اُس کے پینے میں شیطان شامل ہوتا ہے ،
اور اِسی وجہ سے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا اور شدت سے منع فرمایا،
کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا سبب جاننے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جو خُود کھڑے ہو کر پیا ہے تو اِس کی کیا وجہ ہے؟
::: (1) :::عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ:::
تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ جِنّات(جِنوں)میں سے ایک جِنّ نہ لگا دیا گیا ہو﴾
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """وَإِیَّاکَ یا رَسُولَ اللَّہِ ::: اور آپ (کا کیامعاملہ ہے)اے اللہ کے رسول؟"""،
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا
﴿ وَإِيَّاىَ إِلاَّ أَنَّ اللَّهَ أَعَانَنِى عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ فَلاَ يَأْمُرُنِى إِلاَّ بِخَيْرٍ:::
ہاں میں بھی لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے میری مدد کی اور میرے ساتھ جو جِنّ لگا گیاتھا اُس نے اِسلام قُبُول کر لیا لہذا وہ مجھ سے سوائے خیر کے اور کوئی بات نہیں کرتا﴾صحیح مُسلم/حدیث7286/کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار/باب16،
::: (2) :::اِسی باب میں اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُنکے پاس سے کہیں گئے تو(یہ سوچ کر کہ شاید وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کِسی دُوسری بیگم کے پاس گئے ہیں)عائشہ رضی اللہ عنہا کو اِس پرغُصہ آیا،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم واپس تشریف لائے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حالت دیکھ کر اِرشادفرمایا
﴿ مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ أَغِرْتِ:::
کیا ہوا عائشہ کیا تمہیں غُصہ آ رہا ہے؟﴾
عرض کیا ::: میری جیسی کو آپ جیسے پر غُصہ کیوں نہ آئے؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا
﴿ أَقَدْ جَاءَكِ شَيْطَانُكِ:::
کیا تمہارا شیطان آیا ہے؟﴾،
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کِیا ::: کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا
﴿نَعَمْ:::
جی ہاں﴾،
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::: کیا ہر أنسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا
﴿نَعَمْ:::
جی ہاں﴾،
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::: اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا
﴿نَعَمْ وَلَكِنْ رَبِّى أَعَانَنِى عَلَيْهِ حَتَّى أَسْلَمَ:::
جی ہاں میرے ساتھ بھی ، لیکن میرے رب نے میری مدد کی حتیٰ کہ میرے شیطان نے اِسلام قُبُول کر لیا ﴾ صحیح مُسلم/حدیث7288/کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار/باب17،
اِن دو احادیث سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ:::
:::(1)::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک أنسان تھے ، کوئی اور مخلوق نہ تھے ،(جی ہاں اِس میں شک کی کوئی ادنیٰ سی بھی گنجائش نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام تر مخلوق میں سب سے بُلند رُتبے والے وہی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھے اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عِلاوہ کوئی نہ تھا، نہ ہے، نہ ہو سکتا ہے ، لیکن بہرحال وہ اللہ کی مخلوق أنسان تھے ، کوئی روشنی یعنی نور نہ تھے ، اور نہ ہی کوئی مخلوق)
:::(2):::رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ ہر أنسان کی طرح جِنّوں میں سے ایک شیطان جِنّ لگایا گیا تھا لیکن اللہ کی خاص مدد سے جو کِسی بھی اور کے لیے نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم لیے خاص تھی ، اللہ کی اُس خاص مدد سے وہ شیطان مُسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا تابع فرمان ہو گیا،
اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ صِرف خیر والی بات کرتا تھا،اوریہ ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پینے میں شامل نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا تابع فرمان ہو چکا تھا،
جبکہ کوئی بھی دُوسرا اِس بات سےمحفوظ نہیں کہ اُس کا شیطان اُس کے پینے میں شامل نہ ہو،لہذا کِسی بھی دُوسرے کے لیےکھڑے ہو کر پینے کی مُمانعت برقرار رہے گی،
:::::حاصل کلام:::::یہ ہوا کہ کھڑے ہو کر کُچھ بھی پینا ہر اُمتی کے لیے حرام ہے ، اِس کی حِکمت شیطان کی شراکت سے محفوظ رہنا ہے ،
کچھ لوگ اِس معاملے کو طبی فائدے کے ساتھ بیان کر کے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کھڑے ہو کر نہ پیا جائے ،
قطع نظر اِس کے کہ جو فوائد وہ بیان کرتے ہیں وہ فائدے کھڑے ہو کر نہ پینے کی بجائے ایک ہی سأنس میں نہ پینے سے ہی مل سکتے ہیں،بہر حال یہ دُوسرا موضوع ہے پھر کِسی وقت اِن شا اللہ،
فی الوقت تو یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ مُسلمان اگر کوئی کام کِسی دُنیاوی فائدے کے لیے کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ فائدہ اُسے دے دے،لیکن دِینی طور پر وہ کام اُس کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھتا،
اگر کوئی مُسلمان کِسی طبی فائدے کے لیے بیٹھ کر پیے تو اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کا ثواب تو نہیں مِلا، کیونکہ
﴿ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى:::
بے شک عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور بے شک ہر أنسان کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جِس کی اُس نے نیت کی﴾ صحیح البخاری کی پہلی روایت،
پس جو کوئی کسی دُنیاوی فائدے کے لیے کوئی کام کرتا ہے تو ممکن ہے کہ اُسے وہ فائدہ تو مل جائے ، لیکن یہ یقینی ہے کہ اُسے آخرت میں اُس کام کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ وہ کام اُس نے آخرت کے کسی فائدے کی نیت سے کیا ہی نہیں ،
سائنس اور دِین کو ایک دُوسرے کے ہم آہنگ دِکھانے کے چکر میں، اور دینی معاملات پر عمل کروانے کی ترغیب کے چکر میں ہمارے اکثر مُسلمان بھائی دینی کاموں میں دُنیاوی فائدوں کی خبریں سناتے ہیں ، اور کئی مُسلمان اُن دُنیاوی فائدوں کے لالچ میں ہی وہ دینی کام کرتے ہیں ،
مُسلمانوں کو دینی کاموں کی طرف مائل کرنے کے لیے دُنیاوی فوائد کی ترغیب دینا ایسی مُصیبت ہے جِس کا سب سے پہلا نقصان اِیمان کی کمزوری ، اور آخرت کی بجائے دُنیا کا حصول ہو جاتا ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص اور نیت کی درستگی عطاء فرمائے ،
آخر میں اِس مضمون کے موضوع سےمتعلق دو غلط فہمیوں کے بارے میں کچھ گذراش کرنا چاہتا ہوں ، جو اِن شاء اللہ اُن غلط فہمیوں کے ازالے کا سبب ہو سکتی ہے:::
::: (1) :::تمام احادیث مُبارکہ میں کھڑے ہو کر(کُچھ بھی)پینے کی مُمانعت ہے،اور کہیں پانی یا زمزم کا کوئی فرق ذِکر نہیں کیا گیا،
::: (2) :::اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کھڑے ہو کر زمزم پینے میں کِسی کے لیے کھڑے ہو کر زمزم پینے کی کوئی اجازت ملتی ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تو کھڑے ہو کر عام پانی بھی نوش فرمایا ہے، جیسا کہ اُوپر ذِکر کردہ صحیح حدیث شریف میں بیان ہوا ہے،
تو پھر صِرف زمزم کو کیوں چُنا جاتا ہے؟؟؟
جبکہ مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کِسی بھی مُسلمان کے لیے کھڑے ہو کر کُچھ بھی پینے کی مُمانعت ہے اور کھڑے ہو کر کھانے کے بارے میں أنس رضی اللہ عنہ ُ کا فتویٰ آغاز میں نقل کی گئی چوتھی حدیث میں موجود ہے ، کہ ، کھڑے ہو کر کھانا کھڑے ہو کر پینے سے بھی زیادہ شر والا ہے ،
اب میرے وہ مُسلمان بھائی اور بہنیں جو کھڑے ہو کر کھانے پینے میں کچھ قباحت نہیں سمجھتے ، یا کھڑے ہو کر زمزم پینا سُنّت سمجھتے ہیں ، اپنی سوچ و فِکر ، اپنے پسندیدہ ، یا اپنے اختیار کردہ ، یا اپنے لیے دُوسروں کی طرف سے چُنیدہ لوگوں کی باتوں ، آراء ، افکار اور فتاویٰ جات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حکم ، اُن کی سُنّت شریفہ ، اور اُن کے جلیل القدر صحابی أنس رضی اللہ عنہ ُ کے فتوے کے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں کہ کسی کی ماننی ہے ،
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور اُن کے صحابی أنس رضی اللہ عنہ ُ کی ، یا اپنی اپنی سوچ و فِکر ، رائے ، منطق فلسفے ، مذھب مسلک ، جماعت ، حضرت ، پیر ومُرشد ، مفتی و عالم صاحب کی ،
اللہ جلّ جلالہُ ہم سب کو یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم کسی چُون چراں ، کمی بیشی، اور اپنی طرف سے تفسیر و شرح اور معانی و مفاہیم گھڑے بغیر ہی اُس کی ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کر سکیں ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :23/09/1429ہجری، بمُطابق،23/09/2008 عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :27/07/1436ہجری، بمُطابق،16/05/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
http://bit.ly/1WYCNw3
۔۔
بشکریہ محترم شیخ
@عادل سہیل حفظہ اللہ
یہ مضمون
یہاں سے لیا گیا ہے