محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
-4 غیر اسلامی تعزیرات کا نفوذ
اسلامی تعزیرات اور اسلامی قوانین کے مقابلے میں اس ملک کے اپنے قوانین ہیں۔ قانون بنانے، سکھانے ، اس کی تشریح کرنے اور تمام معاملات میں اس کے ساتھ فیصلہ کرنے اور اسے فیصل منوانے کے لیے کئی ادارے قائم ہیں۔ علماء اسلام کے مقابلے میں ان کے قانون کے ماہرین کے لیے ترقی، اقتدار ، اور دولت و عزت کے دروازے کھلے ہیں۔ دین اسلام کو زندگی کے اجتماعی گوشوں سے دھکیل کر نجی زندگی کے چند معاشرتی معاملات تک محدود کر دیا گیا ہے، اس ملک کی وزیر اعظم نے اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہا، قاتل، چور، زانی اور شرابی کے لیے اس ملک میں اسلامی سزائیں نافذ نہیں ہیں۔ عورت کے لئے سزائے موت منسوخ کر دی گئی ہے۔ پھر یہاں اگر کسی واضح مشرک (ایسا کھلا مشرک جس کے بارے میں عالم ربانی فتویٰ صادر کردے)شخص کی بے دین بیوی کسی توحیدی عالم دین کے درسِ توحید سے متاثر ہو کر توحید قبول کرلے اور اِستبراء بطن (یعنی پیٹ صاف ہونے) کے بعد شریعت کے مطابق بغیر طلاق لئے کسی موحِّد شخص سے نکاح کرلے تو قانونِ پاکستان کی رُو سے ایسی عورت یقیناً ''نکاح پر نکاح'' کی مجرمہ ٹھہرے گی اور واپس اُسی مشرک کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کردی جائے گی۔ نیز اِس نیک عورت کے ساتھ عظیم نیکی یعنی نکاح کرکے اِسے تحفظ دینے والا اسکا موحِّد خاوند ''زنا کا مجرم'' قرار دے کر سزا بھگتنے پر مجبور کیاجائیگا۔الغرض عدالتوں کے لئے قانون وہ نہیں جو رب العلمین نے نازل فرمایا۔ یوں اﷲ کے دین حقہ کو دین نصاریٰ کی طرح ریاست سے جدا کرنے کے باوجود کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا؟ اگر ایک مسلمان بصیرت سے کام لے تو اُسے قدم قدم پر ایسے قوانین دیکھنے کو ملیں گے جو پکار پکار کر کہہ رہے ہونگے کہ ہم قرآن و سنت کے پابند نہیں ہیں۔