مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
کیاسعودی عرب کے منطقہ قصیم میں پانی کا چشمہ ابلنا قیامت کی نشانی ہے ؟
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب
محمد ﷺ نے قیامت کی چھوٹی بڑی بہت ساری نشانیاں بیان کی ہیں، چھوٹی نشانیوں میں سے کتنی ظاہر ہوچکی ہیں اور کتنی ظاہر ہونا باقی ہیں۔ قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جزیرۃالعرب کے صحراؤں میں چراہیں اور نہریں ظاہر ہوں گی ۔ صحیح مسلم کی روایت ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ الْمَالُ وَيَفِيضَ حَتَّى يَخْرُجَ الرَّجُلُ بِزَكَاةِ مَالِهِ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهَا مِنْهُ وَحَتَّى تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارًا(صحیح مسلم:2339)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ مال بڑھ جائے گا اور (پانی کی طرح) بہنے لگے گا اور آدمی اپنے مال کی زکاۃ لے کر نکلے گا تو اسے ایک شخص بھی نہیں ملے گا جو اسے اس کی طرف سے قبول کرلے اور یہاں تک کہ عرب کی سرزمین دوبارہ چراگاہوں اور نہروں میں بدل جا ئے گی۔
اس حدیث میں میرا محل شاہد " وَحَتَّى تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارًا" (اور یہاں تک کہ عرب کی سرزمین دوبارہ چراگاہوں اور نہروں میں بدل جا ئے گی) ہے ۔اس ٹکڑےمیں موجود مروج اور انھار دو کلمے کی وضاحت کرتے چلیں ۔
نہر طبعی طور پر پانی کے بہاؤیا دھارا کو کہتے ہیں اور مروج پیڑپودوں کی وسیع وادی یا ہرے بھرے باغات کو کہتے ہیں ۔
حدیث کا مذکورہ ٹکڑا بتا رہا ہے کہ عرب کی سرزمین کبھی ہری بھری ، سرسبزوشاداب اور نہروں والی تھی ۔علم ارضیات کے بعض اہل علم نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زمین کی کھدائی سے ایسے آثار ملتے ہیں جو پہلے کبھی یہاں چراگاہ اور نہروں کے ہونے کی دلیل ہیں ۔شیخ محمدبن صالح المنجد نے پروفیسر فرید کرونیر(مشہورماہرجیولوجی)کے حوالے سے لکھا ہے کہ شیخ عبدالمجید زندانی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس اس بات کے حقائق ہیں کہ جزیرۃ العرب میں پہلے باغات اور نہریں تھیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ، ہمارے یہاں یہ معروف مسئلہ ہے اور ایک علمی حقیقت ہےجسے ہر ماہر جیولوجی جانتے ہیں ۔ اگر آپ نے کسی علاقے میں زمین کی کھدائی کی تو ایسے آثار ملیں گے جو اس بات پر دلالت کریں گے کہ یہ زمین پہلے باغات اور نہروں والی تھی۔
گویا جس طرح قدیم زمانے میں سرزمین عرب نباتات سے بھری اور نہروں والی تھی قیامت کے قریب پھر سے ایسا ہی ہوجائے گی ۔ بالفاظ دیگر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے عرب کی زمین چراگاہوں اور نہروں والی تھی پھر صحراؤں میں تبدیل ہوجائے گی اور دوبارہ یہ سرزمین اپنی پہلی حالت پہ لوٹ جائےگی ۔
عہد رسول میں پانی کے چشمے کا معجزہ ظاہر ہوا تھا اس وقت آپ ﷺنے معاذرضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری زندگی نے وفا کی تو تم یہاں آبادیاں اور باغات دیکھوگے ۔ یہ بات آپ نے سرزمین تبوک کے متعلق فرمائی ، حدیث لمبی ہونے کے سبب صرف اردو ترجمہ ذکر کررہا ہوں ۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک والے سال ہم رسول اللہﷺکے ساتھ جہاد کے سفر ہر تبوک گئے ، آپﷺنمازوں کو جمع کرتے تھے ، او رظہر اورعصر ، اور مغرب اور عشاء ملاکر پڑھتے تھے یہاں تک کہ ایک دن آپﷺنے نمازوں میں تاخیر کردی ، پھر آپﷺ باہر نکلے اور ظہر اور عصر کو ملاکر پڑھا ، پھر آپﷺاندر تشریف لے گئے اس کے بعد پھر آپﷺباہر نکلے اور مغرب اور عشاء کو ملاکر پڑھا ، پھر آپﷺنے فرمایا: کل تم ان شاء اللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤگے اور تم سورج بلند ہونے سے قبل نہیں پہنچوگے ، تم میں سے جو آدمی بھی اس چشمہ کے پاس جائے وہ میرے پہنچنے سے پہلے اس کےپانی کو ہاتھ نہ لگائے ، اس چشمہ پر ہم میں سے دو آدمی پہلے پہنچے ، چشمہ میں پانی زیادہ سے زیادہ جوتی کے تسمہ جتنا تھا اور وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا ، رسو ل اللہﷺنے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا: کیا تم نے اس کے پانی کو چھوا ہے انہوں نے کہا: ہاں ! نبی ﷺ نے ان دونوں پر بہت ناراضگی اور خفگی کا اظہار کیا، لوگوں نے تھوڑا تھوڑا کرکے چلوؤں سے چشمہ کا پانی لیا اور اس کو کسی چیز میں جمع کرلیا ، پھر رسول اللہﷺنے اس برتن میں اپنے دست مبارک اور چہرہ انور کو دھویا اور وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا ،وہ چشمہ پوری قوت سے ابل پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے اس سے پانی (اپنے جانوروں اور ساتھیوں کو) پلایا ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے معاذ! اگر تمہاری زندگی نے وفا کی تو تم عنقریب دیکھوگے کہ یہ سارا علاقہ باغات اور آبادی سے معمور ہوجائےگا۔(صحیح مسلم : 706)
اس وقت ہم جزیرۃ العرب کو صحراء کے طور پر جانتے ہیں کہ اس کا تقریبا ستر فیصدحصہ صحراؤں پر مشتمل ہے اور تھوڑے بہت حصے پر سبزہ وآبادی ہے۔ آج جدید آلات کی ایجاد نے بنجر زمین کو بھی دھیرے دھیرے آباد کرنا شروع کردیا ہے ،عرب کے صحراؤں میں بھی اب سبزے اگائے جانے لگے ، پھلوں کے گھنے باغات موجود ہیں اورکثرت سے گیہوں وغیرہ کی فصلیں اگائی جارہی ہے۔ اکثر جگہوں پہ کنویں بھی پائے جانے لگے ہیں اور صحراؤں میں بھی آلات کے استعمال سے وافر مقدار میں پانی پہنچا دیا گیا ہے۔
ان ساری چیزوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قیامت کی مذکورہ بالا نشانی ظاہر ہوچکی ہے، ابھی بھی عرب کے بیشتر حصے غیرآباد صحراؤں پر مشتمل ہیں اور صحراؤں میں جو پانی پایا جاتا ہے وہ نہر کا پانی نہیں ہے ، ہاتھوں سے، کنواں کے ذریعہ یا مشینی آلات سے پانی نکالا جاتا ہے ۔ اس صاف مطلب یہ ہوا کہ عرب میں ابھی نہروں کا ظہور نہیں ہوا ہے۔
ایک ویڈیو کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے منطقہ قصیم میں (بریدہ شہر سے تقریبا تیس کلو میٹردور) ریاض کے راستے میں 15/ربیع الآخر 1440 موافق 22/ دسمبر 2018 ہفتہ کے دن مغرب سے پہلے صحراء میں زمین سے آپ خود پانی کا ایک چشمہ ابل پڑتا ہے جو ویڈیو سوشل میڈیا پہ کافی وائرل ہوئی تو میڈیا والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس پہ سرخی لگائی "قیامت کی ایک اور نشانی پوری ہوگئی، سعودی عرب میں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا"۔
حیرت کی بات ہے کہ اخبار والوں اور نیوز چینل والوں کو دینی امور پہ بطور خاص پیشین گوئیوں پہ بغیر اہل علم سے رجوع کئے قیامت کی نشانی پوری ہوگئی کہنا کتنی بڑی حیرت کی بات ہے ۔ان لوگوں کی اس جھوٹی بات سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہوگئی ہےاسی کے ازالہ کے لئے مجھے یہ مضمون لکھنا پڑا۔ اگر اس بات کو بحیثت خبر نشر کی جائے کہ فلاں مقام پر ایسا واقعہ پیش آیا تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن اپنی جانب سے قیامت کی نشانی ظاہر ہوگئی کہہ دینا دینی امور میں حد سے گزرجاناہے ۔ سعودی عرب میں سیکڑوں علماء ، فقہاء اور مفتیان موجود ہیں کسی نے اس بات پہ ایک لفظ تک نہیں بولا اور پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا والے قیامت کی نشانی کے طور پر شور مچارہے ہیں۔
جب اس واقعہ کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس راستے میں ریاض سے ہوکر منطقہ قصیم کی طرف پانی کا پائپ بچھا ہے جس کے پھٹ جانے سے پانی نکلا تھا گویا یہ چشمہ ہے ہی نہیں ، بلاتحقیق جھوٹی بات کو چینل والے مشہور کررہے ہیں ۔
اوپر میں نے اس سے متعلق دو احادیث پیش کی ہے ، ایک میں تبوک سے متعلق معجزہ کے ساتھ پیشین گوئی ہے تو دوسری میں جزیرۃ العرب میں زمانہ قدیم کی طرح پھر سے یہاں چراگاہوں اور نہروں کے ظہور کی پیشین گوئی ہے ۔قصیم میں جو واقعہ پیش آیا ہے اولا وہ چشمہ ہے ہی نہیں اور اگر جزیرۃ العرب میں کوئی چشمہ پھوٹ بھی پڑے تو اسے قیامت کی نشانی نہیں کہیں گے کیونکہ حدیث میں نہروں کے ظہور کی بات ہے یعنی ایک نہر بھی نہیں متعدد نہریں ۔ معجزہ کے طور پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہی تبوک میں ایک چشمہ پوری قوت کے ساتھ ابل پڑا تھا مگر اس چشمے کو رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانی نہیں بتلائی ۔ قصیم کے شمال بریدہ میں جبل وطاۃ نامی پہاڑ سےایک چشمہ سیکڑوں سال سےبغیر انقطاع کے مسلسل جاری ہے اسے عین القویطیر کے نام سے جانا جاتا ہے ، آپ بھی اس نام سے یوٹیوب پہ متعدد ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں ۔ اس چشمے کو بھی کسی اہل علم نے قرب قیامت کی نشانی نہیں قرار دی اور نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اور نشانی پوری ہوگئی کیونکہ جزیزۃ العرب میں ایک چشمہ بہتا ہے۔ ماہرین موسمیات کا ماننا ہے کہ ہوا کا ایک مضبوط دباؤ عرب کی سرزمین کی طرف بڑھ رہاہے جو اپنے ساتھ برف اور بارش کو لئے ہوا ہے ،اس سےیہ امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ یہ بکثرت بارش یا عرب کے صحراؤں میں وافر مقدار میں پانی اور ہریالی کی فراوانی پر دلیل ہے۔ المہم چودہ صدیاں گزرچکی ہیں مگر ابھی تک رسول اللہ ﷺ کی سابقہ حدیث میں موجود پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی ہے۔
Last edited: