• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیاطلاق واقع ہوگئی؟

شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
54
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ایک شخص ملتان کا رہنے والا تھا۔ اس کی شادی اسلام آبادی کی ایک لڑکی سے ہوئی۔ ایک دفعہ اس کی بیوی اسلام آباد میکے گئی ہوئی تھی۔ وہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے گھر نہ آسکی۔ تو اس کے خاوند نے مذاق میں اس کو ایک مسیج موبائل پہ بھیج دیا کہ میں آپکو ہوش وحواس میں طلاق دیتا ہوں۔ بیوی پریشان ہوگئی اس نے کوئی جواب نہ بھیجا لیکن خاوند نے سمجھا شاید اس نے مسج نہ پڑھا ہو۔ اس لیے ایک اور مسج کردیا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ شاید یہ مسج بھی نہ پڑھا ہو تو اس نے کال کرکے یہ بات کہہ دی۔ تو بیوی بہت پریشان ہوئی اس نے اپنے والدین کو بتایا۔ والدین نے پتا کیا تو لڑکے نے کہا میں تو مذاق کررہا تھا ۔ پھر وہ یہ مسئلہ لال مسجد والوں کے پاس لے گئے تو انہوں نے کہا تین طلاق واقع ہوگئی ہیں۔
میں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب معلوم کرنا تھا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم -

انسان کا عمل اس کی نیت کے ساتھ مربوط ہے - اور خاص کر وہ عمل جس کا شریعت سے براہ راست واسطہ ہو - جیسا کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ :

عن أمير المؤمنين أبي حفص عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إنما الأعمال بالنيات:

ظاہر ہے جب عمل کا دارو مدار انسان کی نیت پر ہے تو اس کا حکم بھی اسی حساب سے ہونا ضروری ہے- جب ایک انسان کی نیت اپنی بیوی سے مذاق کی ہے اور وہ اس مذاق میں اس کو طلاق دیتا ہے - تو وہ طلاق واقعہ ہونا محال ہے- یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی مذاق میں نماز کی نیت باندھ لے - تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں - ہاں یہ ضرور ہے کہ شریعت کے کسی حکم کو مذاق بنانا یقیناً ایک بڑا گناہ ہے اور اس طرح مذاق کرنے ولا گناہ گار تصور کیا جائے گا -لیکن مذاق میں طلاق دینے سے طلاق واقعہ نہیں ہو گی -( واللہ اعلم )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مذاق میں دی گئی طلاق شرعاً واقع ہوگی ،
الشرح الممتع على زاد المستقنع 13ـ63 ) لابن العثيمين
قوله: «جاد أو هازل» يعني أنه يقع من الجاد ومن الهازل، والفرق بينهما أن الجاد قصد اللفظ والحكم،
والهازل قصد اللفظ دون الحكم، فالجاد طلق زوجته قاصداً اللفظ وقاصداً الحكم وهو الفراق، وأما الهازل
فهو قاصد للفظ غير قاصد للحكم، يقول مثلاً: أنا أمزح مع زوجتي، فقلت: أنت طالق، أو ما أشبه ذلك،
وما قصدت أنها تطلق، فنقول: الحكم يترتب عليه؛ لأن الصيغة وجدت منك، وهي أنت طالق، أو زوجتي
مطلقة، أو ما أشبه ذلك، والحكم إلى الله، فما دام وجد لفظ الطلاق من إنسان عاقل، يعقل ويميز ويدري ما
هو، فكونه يقول: أنا ما قصدت أنه يقع، فهذا ليس إليه بل إلى الله، هذا من جهة التعليل والنظر، أما من
جهة الأثر فحديث أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلّى الله عليه وسلّم: «ثلاث جدهن جد وهزلهن
جد: النكاح والطلاق والرجعة» (1) ، وفي رواية: «والعتق» (2)

ترجمہ: شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حقيقت اور مذاق ميں طلاق دينے والے كى طلاق واقع ہو جائيگى، اور ان دونوں ميں فرق يہ ہے
كہ حقيقت ميں طلاق دينے والا شخص الفاظ اور حكم دونوں كا قصد كرتا ہے، ليكن غير حقيقت يعنى
مذاق ميں طلاق دينے والے نے الفاظ كا قصد تو كيا ہے ليكن حكم كا نہيں.
چنانچہ حقيقى طور پر طلاق دينے والا شخص جب اپنى بيوى كو طلاق ديتا ہے تو وہ طلاق كا قصد
كرتا ہے، ليكن غير حقيقى طور پر مذاق ميں طلاق دينے والا شخص صرف الفاظ كا ارادہ ركھتا ہے
حكم كا نہيں، تو مثلا وہ يہ كہےگا ميں تو بيوى سے مذاق كر رہا تھا يا ميں اپنے دوست سے مذاق
كر رہا تھا: كہ ميرى بيوى كو طلاق يا اس طرح كے الفاظ كہے، وہ كہےگا ميں نے بيوى كو طلاق كا
قصد تو نہيں كيا بلكہ صرف الفاظ كا قصد ضرور كيا تھا.
ہم اسے كہيں گے اس پر حكم مرتب ہوتا ہے، كيونكہ الفاظ تو تم نے ادا كيے ہيں، اور حكم اللہ كى
طرف سے ہے.
جب انسان سے معتبر نيت كے ساتھ الفاظ ادا ہوں اور وہ تميز بھى كرنے والا ہو، اور جانتا ہو كہ وہ
كيا كہہ رہا ہے اور الفاظ كے معنى بھى جانتا ہو تو يہ واقع ہو گا، اس كا يہ كہنا كہ: ميرا مقصد واقع
كرنا نہ تھا، يہ اس كے ذمہ نہيں بلكہ يہ تو اللہ كى طرف ہے.
يہ تو نظر اور علت كے اعتبار سے ہے.
ليكن اثر اور حديث كے اعتبار سے يہ ہے كہ ہمارے پاس ايك حديث ہے-جس ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" تين اشياء حقيقت ميں بھى حقيقت ہيں اور ان كا مذاق بھى حقيقت ہے: نكاح اور طلاق اور رجوع اور ایک روایت "آزادی " بھی ہے
(1) أخرجه أبو داود في الطلاق/ باب في الطلاق على الهزل (2194) ، والترمذي في الطلاق/ باب ما
جاء في الجد والهزل والطلاق (1184) ، وابن ماجه في الطلاق/ باب من طلق أو نكح ... (2039) عن
أبي هريرة رضي الله عنه، قال الترمذي: «حسن غريب» ، وحسنه الحافظ في التلخيص (3/210) .
(2) أخرجه الطبراني في الكبير (18/34) .

------------------------------------------
اور تحفۃ الاحوذی میں ہے :
قال القاضي اتفق أهل العلم على أن طلاق الهازل يقع فإذا جرى صريح
لفظة الطلاق على لسان العاقل البالغ لا ينفعه أن يقول كنت فيه لاعبا أو هازلا
لأنه لو قبل ذلك منه لتعطلت الأحكام وقال كل مطلق أو ناكح إني كنت في قولي هازلا فيكون في ذلك إبطال
أحكام الله تعالى
فمن تكلم بشيء مما جاء ذكره في هذا الحديث لزمه حكمه وخص هذه الثلاث لتأكيد أمر الفرج

یعنی قاضی ابن العربی فرماتے ہیں :اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے ،کہ مذاق میں دی گئی طلاق واقع ہوگی ،،اس لئے ایک عاقل ،بالغ کی زبان پر اگر صریح لفظ طلاق جاری ہو ،تو وہ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ میں تو ہنسی مذاق میں ایسا کہہ رہا تھا ،
کیونکہ اگراس کی یہ بات قبول کی جائے تو احکام شرع معطل ہو کر رہ جائیں،،اور ہر طلاق دینے اور نکاح کرنے والا یہی کہتا پھرے ؛
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ایک شخص ملتان کا رہنے والا تھا۔ اس کی شادی اسلام آبادی کی ایک لڑکی سے ہوئی۔ ایک دفعہ اس کی بیوی اسلام آباد میکے گئی ہوئی تھی۔ وہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے گھر نہ آسکی۔ تو اس کے خاوند نے مذاق میں اس کو ایک مسیج موبائل پہ بھیج دیا کہ میں آپکو ہوش وحواس میں طلاق دیتا ہوں۔ بیوی پریشان ہوگئی اس نے کوئی جواب نہ بھیجا لیکن خاوند نے سمجھا شاید اس نے مسج نہ پڑھا ہو۔ اس لیے ایک اور مسج کردیا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ شاید یہ مسج بھی نہ پڑھا ہو تو اس نے کال کرکے یہ بات کہہ دی۔ تو بیوی بہت پریشان ہوئی اس نے اپنے والدین کو بتایا۔ والدین نے پتا کیا تو لڑکے نے کہا میں تو مذاق کررہا تھا ۔ پھر وہ یہ مسئلہ لال مسجد والوں کے پاس لے گئے تو انہوں نے کہا تین طلاق واقع ہوگئی ہیں۔
میں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب معلوم کرنا تھا۔
@کفایت اللہ بھائی اس مسلے میں رہنمائی فرما دے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
طلاق چاہے مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں ، واقع ہوجاتی ہے ۔
اوپر جو صورت حال بیان کی گئی ہے ایسی صورت میں طلاق واقع ہو چکی ہے ۔
ہاں البتہ اہل حدیث کے ہاں ایک طلاق ہی واقع ہوئی ہے ، جبکہ احناف کےنزدیک یہ تینوں واقع ہوگئ ہیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ایک شخص ملتان کا رہنے والا تھا۔ اس کی شادی اسلام آبادی کی ایک لڑکی سے ہوئی۔ ایک دفعہ اس کی بیوی اسلام آباد میکے گئی ہوئی تھی۔ وہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے گھر نہ آسکی۔ تو اس کے خاوند نے مذاق میں اس کو ایک مسیج موبائل پہ بھیج دیا کہ میں آپکو ہوش وحواس میں طلاق دیتا ہوں۔ بیوی پریشان ہوگئی اس نے کوئی جواب نہ بھیجا لیکن خاوند نے سمجھا شاید اس نے مسج نہ پڑھا ہو۔ اس لیے ایک اور مسج کردیا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ شاید یہ مسج بھی نہ پڑھا ہو تو اس نے کال کرکے یہ بات کہہ دی۔ تو بیوی بہت پریشان ہوئی اس نے اپنے والدین کو بتایا۔ والدین نے پتا کیا تو لڑکے نے کہا میں تو مذاق کررہا تھا ۔ پھر وہ یہ مسئلہ لال مسجد والوں کے پاس لے گئے تو انہوں نے کہا تین طلاق واقع ہوگئی ہیں۔
میں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب معلوم کرنا تھا۔
مذاق میں طلاق واقع ہوجاتی ہے جس کی وضاحت بھائیوں نے اوپر کر دی۔ جزاہم اللہ خیرا!

لیکن صورت مسئلہ سے تو یہ کسی صورت مذاق محسوس نہیں ہو رہا۔ محسوس ہوتا ہے کہ جب اس شخص کو بیوی کے واپس نہ آنے پر غصہ آیا تو اس نے طلاق دے دی پھر جب دیکھا کہ اوہو یہ تو گڑبڑ ہوگئی تو اس نے کہا کہ میں نے مذاق سے طلاق دی ہے۔

اگر یہ مذاق تھا کہ تو یہ کہنا
’’میں آپ کو ہوش وحواس میں طلاق دیتا ہوں۔‘‘
چہ معنیٰ دارد؟

اگر یہ مذاق تھا تو دوبارہ میسج کرنے اور پھر سہ بارہ کال کر کے طلاق کہنے کیا مطلب ہے؟؟!

اگر کوئی یہ شخص یہ محسوس کرے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے تو اسے فتویٰ حاصل کرنے کیلئے کسی صورت اپنے سوال کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے وگرنہ اس فتویٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ فتویٰ تو سوال کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اگر سوال کرنے والا سوال ہی تبدیل کر لے تو پھر فتویٰ کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ یہ تو شریعت کے ساتھ مذاق ہے!!!

اگر کوئی شخص سوال تبدیل کرکے اپنے مطلب کا فتویٰ لے لے تو پھر بھی اس کیلئے وہ چیز جائز نہ ہوگی کیونکہ قاضی کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوتا ہے باطنی طور پر نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
صحیح شرعی معنوں میں مسلک اہل حدیث کا موقف یہی ہے کہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے اور اس نے اپنا ایک چانس کھو دیا ہے، اب لڑکی عدت گزارے گی اس عدت میں چاہے تو رجوع کر سکتا ہے لیکن عدت ختم ہونے کے بعد نیا نکاح نیا حق مہر۔ واللہ اعلم

البتہ مذاق میں بھی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے، طلاق تو کسی بے حد مجبوری کے تحت جب کوئی اور راستہ نظر نہ آ رہا ہو تب دینے کی اجازت ہے لیکن طلاق سے پہلے میاں بیوی کی کشیدگی دور کرنے کے لئے دیگر اقدامات جیسے عورت کو سمجھانا، پھر بستر الگ کرنا، پھر ہلکی مار مارنا اور طرفین کے سربراہان کا صلح کے لئے مل بیٹھنا بھی ہے، جب ایک رشتے کو مضبوط کرنے اور اس میں دراڑ پڑنے کی صورت میں اس قدر احکامات ہیں تو یہ کیا بات ہوئی کہ اس قدر اہم رشتے کو یوں گھٹیا اور ذلیل حرکت سے توڑا جائے اور اسے مذاق گردانا جائے۔

مجھے تو یہ شخص کوئی پاگل لگتا ہے، ویسے امیر گھرانے کی فیملیز اکثر ایسی ہوتی ہیں وہ ان احکامات کو مذاق سمجھتے ہیں، بس ایک مرتبہ میسج کر دیا پھر شو بازی دکھانے کے لئے دوبارہ میسج کر دیا پھر کال کر دی، اب اسے کوئی مذاق سمجھے یا بے ہودہ حرکت، بہرحال اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے اور ان کو اسلامی احکامات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
Top