الفاظ (وهي واحدة) مرفوع نہیں
لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ الفاظ مرفوع حدیث کا حصہ ہرگز نہیں ہیں ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نافع کے علاوہ اسی حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دس رواۃ نے بیان کی ہے ان دس میں سے کسی نے بھی مرفوع حدیث میں یہ الفاظ بیان نہیں کئے ہیں یہ دس رواۃ یہ ہیں:
(1) سالم بن عبد الله (صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
(2) يونس بن جبير (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333)
(3) أنس بن سيرين (صحيح مسلم 2/ 1097رقم1471)
(4) عبدالله بن دينار (صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
(5) طاوس بن كيسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
(6) سعيد بن جبير (صحيح ابن حبان 10/ 81 رقم 4264 وإسناده صحيح علي شرط مسلم)
(7) محمد بن مسلم أبو الزبير (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 وإسناده صحيح)
(8) شقيق بن سلمة أبو وائل (مصنف ابن بي شيب. سلفية: 5/ 3 وإسناده صحيح)
(9) ميمن بن مهران (السنن الكبري للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 وإسناده صحيح)
(10) مغيرة بن يونس (شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 وإسناده حسن)
اسی طرح نافع سے بھی اس روایت کو گیارہ رواۃ نے نقل کیا ہے ان گیارہ میں سے صرف ابن ذئب نے یہ الفاظ بیان کئے باقی دس راویوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے یہ دس رواۃ درج ذیل ہیں:
(1) الليث بن سعد عن نافع (صحيح البخاري 7/ 58 رقم 5332)
(2) مالک بن انس عن نافع (صحيح مسلم 2/ 1093 رقم 1471)
(3) عبيد الله بن عمر عن نافع (صحيح مسلم 2/ 1094رقم 1471)
(4) یحیی بن سعید عن نافع (سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
(5) موسی بن عقبہ عن نافع(سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
(6) محمدبن اسحاق عن نافع (سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
(7) أيوب السختيانى عن نافع (مصنف عبد الرزاق 6/ 308 واسنادہ صحیح)
(8) إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة عن نافع(سنن الدارقطني 5/ 51 رقم 3968 واسنادہ صحیح)
(9)
صالح بن كيسان عن نافع (سنن الدارقطني 4/ 9 واسنادہ صحیح)
(10) معقل بن عُبيد الله عن نافع (
المعجم الأوسط 2/ 174 واسنادہ صحیح)
تنبیہ بلیغ:
نافع کے ایک اور شاگرد ابن جریج نے بھی یہ روایت بیان کی ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
نا أبو بكر نا عياش بن محمد نا أبو عاصم عن بن جريج عن نافع عن بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : هي واحدة
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ہے
[سنن الدارقطني: 4/ 10]
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ابن جریج نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں دیکھئے : [طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 41]
مزید یہ کہ ابن جریج کے ایک دوسرے شاگرد سفیان ثوری نے ابن جریج سے یہی روایت بیان کی تو هي واحدة(وہ ایک طلاق ہے ) کے الفاظ مرفوعا بیان نہیں کئے بلکہ یہ بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں ایک طلاق دی تھی اور باقی وہی الفاظ بیان کئے جو نافع کے مذکورہ دس شاگردوں نے بیان کئے ہیں چناچہ:
أبو بكر النجاد (المتوفى 348 ) نے کہا:
حدثنا محمد، ثنا سفيان، ثنا ابن جريج، عن نافع، أن عبد الله بن عمر طلق امرأته وهي حائض تطليقة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم «فأمره أن يراجعها، ثم يمسكها حتى تطهر فإن بدا له أن يطلقها قبل أن يجامعها»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لیں اور پھر اسے روکے رکھیں یہاں تک وہ پاک ہوجائے پھر اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں [مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص: 58 ]
یہ روایت معنوی طور پر صحیح ہے جیساکہ نافع کے دیگر شاگردوں سے ثابت ہے لیکن یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں بھی ابن جریج کا عنعنہ ہے ۔
معلوم ہوا کہ ابن ابی ذئب سے اوپر کسی بھی طبقے میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے بلکہ ہر طبقہ کی پوری جماعت نے ابن ابی ذئب کے خلاف یہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)فرماتے ہیں:
وأما حديث ابن أبي ذئب الذي في آخره «وهي واحدة» فهذه لفظة أتى بها ابن أبي ذئب وحده؛ ولا نقطع على أنها من كلام رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم -؛ وممكن أن تكون من قول من دونه - عليه الصلاة والسلام - والشرائع لا تؤخذ بالظنون.
اوررہی ابن ابی ذئب کی حدیث جس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں (وهي واحدة) تو یہ الفاظ صرف ابن ابی ذئب نے ہی تنہا بیان کیا ہے اور ہم اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں مان سکتے۔ بلکہ ممکن ہے کہ یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کا قول ہے اور شریعت کا مسئلہ ظن وتخمین سے اخذ نہیں کیا جاسکتا[المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 380 ، 381]
ابوداؤد الطیالسی کا وہم:
واضح رہے کہ ابن ابی ذئب کے جو الفاظ ان کے شاگرد ابن وہب نے مذکورہ روایت میں بیان کئے ہی ان میں اس بات کی صراحت نہیں کہ یہ الفاظ (وهي واحدة ) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہے ۔
ابن ابی ذئب کے ایک دوسرے شاگرد یزید بن ھارون نے بھی ان سے یہی روایت بیان کررکھی ہے اورانہوں نے بھی ایسی کوئی صراحت نہیں کی ہے ۔دیکھئے: [سنن الدارقطنی 4/ 9 مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص: 47 ]
نیز ابن ابی ذئب کے ایک تیسرے شاگرد أحمد بن منيع نے بھی ان سے یہی روایت بیان کی ہے اور انہوں نے سرے سے یہ الفاظ بیان ہی نہیں کئے بلکہ صرف مرفوع حصہ نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک طلاق والے الفاظ مرفوع حدیث میں شامل نہیں ہیں اسی لئے أحمد بن منيع نے اسے ترک کرکے روایت کیا ہے،دیکھئے:[مسند ابن الجعد ص: 409 ]
ابن ذئب کے مذکورہ تینوں شاگردوں کے خلاف جب ابوداؤد الطیالسی نے اسی روایت کو ابن ابی ذئب سے نقل کیا تو حد درجہ اختصار کرتے ہوئے ایک طلاق والی بات کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صراحتا منسوب کردیا چنانچہ کہا:
حدثنا ابن أبي ذئب، عن نافع، عن ابن عمر، رضي الله عنه، أنه طلق امرأته وهي حائض، فأتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فجعلها واحدة.
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک قرار دیا [مسند أبو داود الطيالسي 1/ 68 ومن طریق ابی داؤد اخرجہ البیھقی فی السنن الكبرى ، ط الهند: 7/ 326 ]
ظاہر ہے کہ یہ ابوداؤد الطیالسی کا وھم ہے انہوں نے اپنے استاذ ابن ابی ذئب سےروایت کرتے ہوئے غلطی سے ایسے الفاظ روایت کردئے جو ابن ذئب کے دیگر تین تلامذہ بیان نہیں کرتے۔
اور ابوداؤد الطیالسی سے اس طرح غلطی ہوجانا معروف بات تھی جیساکہ اہل فن نے صراحت کی ہے چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
وكان كثير الحديث, ثقة، وربما غلط
یہ کثیر الحدیث اور ثقہ تھے اور کبھی کبھار غلطی کرجاتے تھے[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 9/ 299]
امام أبو مسعود أحمد بن الفرات الرازى (المتوفی258) نے کہا:
إنه يخطىء
یہ غلطی کرتے ہیں [طبقات المحدثين بأصبهان 2/ 50 واسنادہ صحیح]
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
محدث صدوق كان كثير الخطأ
یہ محدث اور صدوق ہیں اور بکثرت غلطی کرتے تھے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 112]
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
فكان يغلط
یہ غلطی کرتے تھے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 26]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ غلط في أحاديث
یہ ثقہ اور حافظ ہیں انہوں نے کئی احادیث میں غلطی کی ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2550]
اہل فن کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ ابوداؤد الطیالسی سے متن حدیث وغیرہ میں اس طرح کی چوک ہوجایاکرتی تھی اس لئے ایک جماعت کے خلاف یہ الگ سیاق میں کوئی بات روایت کریں گے تو وہ ناقابل قبول ہوگی ۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ اسی روایت سے متعلق فرماتے ہیں:
والطيالسي إمام حافظ ولكنه كثير الخطأ ۔۔۔۔ ومن قارن الأحاديث التي في مسنده بنظائرها مما يرويه غيره، وجد اختلافًا كثيرًا في المتون، وكأنه كان يروي بالمعنى، فاختصر حديث ابن أبي ذئب، وبنى على ما فهمه فقال: "فجعلها واحدة"
طیالسی امام اورحافظ ہیں لیکن بکثرت غلطی کرنے والے ہیں اور جو بھی ان کی مسند میں موجود احادیث کا موازنہ دیگر رواۃ سے مروی انہیں احادیث سے کرے گا، وہ متون میں بہت سارا اختلاف پائے گا ۔ گویا یہ روایت بالمعنی کیا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے ابن ابی ذئب کی حدیث کو بھی مختصرکیا اور اپنی سمجھ کے مطابق بیان کرتے ہوئے کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق قرار دیا [الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص144۔145، آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 685-686]
معلوم ہوا کہ ابن ابی ذئب سے ابوداؤد الطیالسی کی بیان کردہ روایت کے الفاظ غلط ہیں اور ابن ابی ذئب کے درست الفاظ وہ ہیں جو ابن ابی ذئب کے دیگر اوثق شاگردوں نے نقل کئے ہیں۔
اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ ایک طلاق بتلانے والے الفاظ مرفوع روایت کا حصہ نہیں ہیں لہٰذا یہ الفاظ سرے سے حجت ہی نہیں ہیں ۔