- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 12994
بیعت کی شرعی حیثیت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 24 August 2014 11:07 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(الف) بیعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟(ب) کیا کسی عالم دین کے ہاتھ پر بیعت ضروری ہے کہ مسائل دین ودنیا سے واقفیت رہے؟(ج) بیعت کو تقلید سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف) بیعت حاکم وقت خلیفہ سے شریعت کی پیروی کے عہد کا نام ہے جو ہاتھ پر ہاتھ رکھنے اور زبانی کلامی عہد وپیمان سے بھی ہوسکتی ہے۔
(ب) کسی عالم دین کے ہاتھ پر شریعت میں بیعت کا تصور نہیں۔کیونکہ بیعت کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہوتا ہے یا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہو۔جیسے خلیفہ حاکم دین ودنیا کے مسائل میں کسی بھی صاحب علم سے راہنمائی حاصل ہوسکتی ہے بیعت شرط نہیں۔
(ج) بیعت کو تقلید سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بیعت اطاعت شریعت کے عہد کا نام ہے جب کہ تقلید کا مفہوم یہ ہے کہ غیر کے قول کوبلا دلیل قبول کرلینا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ
ج1ص497
فتویٰ نمبر : 12994
بیعت کی شرعی حیثیت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 24 August 2014 11:07 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(الف) بیعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟(ب) کیا کسی عالم دین کے ہاتھ پر بیعت ضروری ہے کہ مسائل دین ودنیا سے واقفیت رہے؟(ج) بیعت کو تقلید سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف) بیعت حاکم وقت خلیفہ سے شریعت کی پیروی کے عہد کا نام ہے جو ہاتھ پر ہاتھ رکھنے اور زبانی کلامی عہد وپیمان سے بھی ہوسکتی ہے۔
(ب) کسی عالم دین کے ہاتھ پر شریعت میں بیعت کا تصور نہیں۔کیونکہ بیعت کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہوتا ہے یا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہو۔جیسے خلیفہ حاکم دین ودنیا کے مسائل میں کسی بھی صاحب علم سے راہنمائی حاصل ہوسکتی ہے بیعت شرط نہیں۔
(ج) بیعت کو تقلید سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بیعت اطاعت شریعت کے عہد کا نام ہے جب کہ تقلید کا مفہوم یہ ہے کہ غیر کے قول کوبلا دلیل قبول کرلینا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ
ج1ص497