- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
کیا آپ ﷺ کا اجتہاد بھی وحی تھا؟
سوال یہ ہے کہ اگر یہ مانتے ہیں کہ آپ ﷺ کا اجتہاد وحی تھا تو پھر وحی میں خطا ہوگئی اور سنت پر عمل کرنا از خود غلط ثابت ہوگیا۔ اور اگر اجتہادوحی نہیں تو پھر ماننا چاہئے کہ آپ ﷺ انسان ہیں اور مجتہد سے غلطی اور صواب دونوں ہوسکتے ہیں ۔ آپ ﷺ سے بھی ایسی خطأ ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اس لئے آپ ﷺ کا اجتہاد جو دین ودنیاوی امور میں ہے وہ وحی نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اجتہاد کرنا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ علماء میں کچھ اس کے قائل ہیں کہ آپ کو صرف دنیوی امور میں اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا اور کچھ تمام امور میں اجتہاد کی اجازت نہ ہونے کے قائل ہیں۔ اس تمام تر اختلاف کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو دینی ودنیاوی اجتہاد کئے ہیں اگر وہ درست تھے تو وحی نے ان کی تائید کردی جن کا قبول کرنا واجب ٹھہرا اور اگر کہیں خطا ہوبھی گئی تو وحی نے انہیں درست کرکے تصویب فرمادی اور فرض کی مہر ثبت کردی۔اور ہمیں ان کی اتباع کا حکم دیا۔ اب اس تبدیلی پر عمل واجب اور خلاف اولی کا ترک بھی واجب ہو گیا۔ اولی سے امت احتجاج لے سکتی ہے اور خلاف اولی سے نہیں۔ مثلاً:
…آپ ﷺ نے حضرات شیخین سے مشورہ کے بعداساری بدر سے فدیہ لینے کا اجتہادکیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی:
{ وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أنْ یَکُوْنَ لَہُ أَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْأرْضِ، أتُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْآخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ لَوْ لَا کِتَابٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔}(انفال: ۶۷،۶۸، سنن ترمذی: ۱۷۱۴) کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے قیدی ہوں جب تک کہ وہ اچھی طرح زمین میں دشمنوں کا خون نہ بہادے۔کیا تم دنیاوی سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ غالب وحکیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا پہلے سے لکھا نہ ہوتا تو تمہیں ضرور جو کچھ تم نے لیا ہے اس میں بڑی سزا ملتی۔
…لیکن اگر کسی غیر نبی کے اجتہاد میں خطأ ہو جیسا کہ ہوا بھی ہے تو اس کی اصلاح کون کرے گا؟ اور اسے کون باور کرائے گا کہ اس کی یہ خطأ ہے؟ جو بہر حال ہے ۔ یہی تو فرق ہوتا ہے نبی وغیر نبی میں۔جبکہ رسول کی خطأ کی اصلاح ہوتے ہی اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے مگرمجتہد کی خطأ کے باوجود اس کی تقلید بھی لوگ نہیں چھوڑتے۔
…عبد اللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ آپ ﷺ نے اس کے مسلمان بیٹے کا اکرام کرتے ہوئے اوردل رکھنے کے لئے پڑھ لی۔ یہ بیٹا اسلام میں اپنے باپ کی وجہ سے خوب آزمایاگیا۔ فتنہ کو دور کرنے کے لئے اور ابن ابی کے دوستوں کی تالیف قلب کے لئے آپ ﷺ نے یہ سب کچھ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی:
{وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہِ إنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وِمَاتُوْا وَہُمْ فَاسِقُوْنَ}۔(توبہ: ۸۴) ۔ اور آئندہ ان میں جو مرجائے اس کی نماز جنازہ آپ کبھی نہ پڑھئے اور نہ ہی اس کی قبر پر آپ کھڑے ہوئیے۔بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا کفر کیا ہے اور وہ اس حالت میں مرے جب وہ فاسق تھے۔
…نابینا صحابی کی آمد پر آپ ﷺ کا توجہ نہ دینا جب کہ آپ ﷺ صنادید قریش کو اسلام پیش فرما رہے تھے شاید کہ وہ ایمان لے آئیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی:
{عَبَسَ وَتَوَلّٰی أَنْ جَائَ ہُ الْأعْمٰی}(عبس: ۱۔۵) تیوری چڑھائی اور منہ موڑا صرف اس بات پر کہ اس کے پاس ایک نابینا آگیا۔
…رہی حدیث، کھجور کے شگوفوں میں پیوند کاری کی تو آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا: لَا أَظُنُّ أَنَّ ہَذَا یُغْنِیْ شَیْئًا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کرنا انہیں فائدہ دے گا۔ اس جملے کو صحابہ کرام نے غلط سمجھا کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اگلے سال جب پھل نہ نکلا تو آپ ﷺ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا: کُنْتُ ظَنَنْتُ ظَناً ، أَنْتُمْ أعْلَمُ بِأُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ۔ میں نے تو ایک خیال ظاہر کیا تھا باقی دنیا (اس پیوندکاری)کے معاملے میں تم زیادہ مجھ سے بہتر جانتے ہو۔
یہ اجتہاد تو نہیں تھا بلکہ ایک خیال تھا۔اسی طرح آپﷺکے ارشادات و معمولات آپ ﷺکی مخصوص عادات سے وابستہ تھے حتی کہ آپﷺ کھانے ، پینے اور پہننے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ بعض باتیں اورمعاملات، قضاء اور حسن معاشرت کے بارے میں ہوا کرتیں جو محض دنیاوی ہوتیں مگر ان کا دین اور دعوت دین سے گہرا تعلق ہوتا۔ آپ ان کے بارے میں مشورہ بھی فرماتے۔ اپنی رائے بھی دیا کرتے ۔