• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید رحمہ اللہ کو قاتل حسین قراردیا ؟؟؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید رحمہ اللہ کو قاتل حسین قراردیا ؟؟؟

ابن عباس رضی اللہ سے بسندصحیح منقول ہے کہ انہوں نے یزید رحمہ اللہ کو صالح اورنیک قراردیا ہے اوران کے حق میں خیر کے کلمات کہے ہیں لیکن کچھ لوگ بعض جھوٹی اورمن گھڑت روایات پیش کرکے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید رحمہ اللہ کی مذمت کی بلکہ اسے قاتل حسین قراردیا ذیل میں اس روایت کی مفصل حقیقت بیان کی جارہی ہے۔

امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
حَدَّثَنَا عبد الوهاب بن الضحاك قَال : حَدَّثَنَا عيسى بن يونس عن الأعمش عن شقيق بن سلمة قَال : لما قتل الحُسَين بن علي بن أبي طالب ثار عبد الله بن الزبير ، فدعا بن عباس إلى بيعته ، فامتنع بن عباس ، وظن يزيد بن معاوية أن امتناع بن عباس تمسكًا منه ببيعته ، فكتب إليه : أما بعد فقد بلغني أن الملحد بن الزبير دعاك إلى بيعته ، والدخول في طاعته ، لتكون له على الباطل ظهيرًا ، وفي المآثم شريكًا ، وإنك اعتصمت ببيعتنا وفاءً منك لنا وطاعةً لله عز وجل لما عرفك من حقنا فجزاك الله عن ذي رحم خير ما يجزي الواصلين أرحامهم الموفين بعهودهم فما أنس من الأشياء فلست بناس برك وتعجيل صلتك بالذي أنت له أهل من القرابة من الرسول فانظر من طلع عليك من الآفاق ممن سحرهم بن الزبير بلسانه وزخرف قوله فأعلمهم رأيك فإنهم منك أسمع ولك أطوع منهم للمخل المجرم المارق. فكتب إليه بن عباس : أما بعد فقد جاءني كتابك تذكر دعاء بن الزبير إياي إلى بيعته والدخول في طاعته فإن يك ذلك كذلك فإني والله ما أرجو بذلك برك ولا حمدك ، ولكن الله عز وجل بالذي أنوي به عليم ، وزعمت أنك غير ناس بري وتعجيل صلتي ، فاحبس أيها الانسان برك وتعجيل صلتك فإني حابس عنك ودي فلعمري ما تؤتينا مما لنا قبلك من حقنا إلاَّ اليسير ، وإنك لتحبس منه العريض الطويل ، وسألت أن أحث الناس عليك وأن أخذلهم عن ابن الزبير فلا ولا سرورًا ولا حبًا ، إنك تسألني نصرتك وتحثني على ودك وقد قتلت حسينًا رضي الله عنه وفتيان عبد المطلب مصابيح الهدى ونجوم الاعلام غادرتهم خيولك بأمرك في صعيد واحد مزملين بالدماء مسلوبين بالعراء ، لا مكفيين ولا موسدين ، تسفوا عليهم الرياح وتنتابهم عرج الضباع ، حتى أتاحا لله عز وجل لهم بقوم لم يشركوا في دمائهم ، كفنوهم وأجنوهم ، وبي وبهم والله غررت وجلست مجلسك الذي جلست فما أنسى من الأشياء فلست بناس اطرادك حسينًا رضي الله عنه من حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حرم الله عز وجل وتسييرك إليه الرجال لتقتله في الحرم فما زلت بذلك وعلى ذلك حتى أشخصته من مكة إلى العراق ، فخرج خالفًا يترقب ، فتزلزلت به خيلك عداوة منك لله عز وجل ولرسوله ولأهل بيته الذين أذهب الله عنهم الرجس وطهرهم تطهيرًا أولئك لا كآبائك الجلاف الحافة أكباد الحمير ، فطلب إليكم الموادعة وسألكم الرجعة ، فاغتنمتم قلة أنصاره واستئصال أهل بيته فتعاونتم عليه كأنكم قتلتم أهل بيت من الترك ، فلا شَيء أعجب عندي من طلبتك ودي وقد قتلت ولداي وسيفك يقطر من دمي وأنت آخذ ثأري ، فإن شاء الله لا يطل لديك دمي ولا تسبقني بثأري ، وإن سبقتني في الدنيا فقبل ذلك ما قتل النبيون ، وإن النبيين فيطلب الله عز وجل بدمائهم ، فكفى بالله عز وجل للمظلومين ناصرًا ومن الظالمين منتقمًا فلا يعجبنك إن ظفرت بنا اليوم فلنظفرن بك يومًا ، وذكرت وفائي وما عرفتني من حقك فإن يك ذلك كذلك فقد والله بايعتك ومن قبلك ، وإنك لتعلم أبي وولد أبي أحق بهذا الأمر منكم ، ولكنكم معشر قريش كاثرتمونا حتى دفعتمونا عن حقنا ، ووليتم الأمر دوننا ، فبعدًا لمن تجرأ ظلمًا واستغوى السفهاء علينا كما بعدت ثمود وقوم لوط وأصحاب مدين ، ألا وإن من أعجب الأعجايب ، وما عسى أن أعجب ، حملك بنات عبد المطلب وأطفالاً صغارًا من ولده إليك بالشام كالسبي المجلوبين تري الناس أنك قد قهرتنا ، وأنك تمن علينا ، وبنا من الله عز وجل عليك ، ولعمر الله لئن كنت تصبح آمنًا من جراحة يدي إني لأرجوا أن يعظم الله عز وجل جرحك من لساني ونقضي وإبرامي. والله ما أنا بآيس من بعد قتلك ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يأخذك أخذًا أليمًا ، ويخرجك من الدنيا مذمومًا مدحورًا. فعش لا أبا لك ما استطعت فقد والله ازددت عند الله أضعافًا واقترفت مأثمًا والسلام على من اتبع الهدى.[المعرفة والتاريخ للفسوي: 1/ 531 ومن طریق الفسوی اخرجہ الخوارزمی فی مقتل الحسين:ص: 171 ]۔

یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے اس میں کئی علتیں ہیں:

پہلی علت:
امام اعمش رحمہ اللہ مدلس ہیں اور روایت عن سے ہیں۔

امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے انہیں مدلس ماناہے:
قال الامام ابن القيسراني رحمه الله : أخبرنا أحمد بن علي الأديب، أخبرنا الحاكم أبوعبد الله إجازة، حدثنا محمد بن صالح بن هاني، حدثنا إبراهيم بن أبي طالب، حدثنا رجاء الحافظ المروزي، حدثنا النضر بن شميل. قال: سمعت شعبة يقول: كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش، وأبي إسحاق، وقتادة[مسألة التسمية لابن القيسراني: ص: 47 واسنادہ صحیح]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ولعل الأعمش دلسه عن حبيب وأظهر اسمه مرة[علل الدارقطني: 10/ 95]۔

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463)نے کہا:
وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه اذا وقف أحال على غير ملىء يعنون على غير ثقة[التمهيد لابن عبد البر: 1/ 30]۔

صلاح الدين العلائي رحمه الله (المتوفى 761)نے کا:
وسليمان الأعمش والأربعة أئمة كبار مشهورون بالتدليس[جامع التحصيل للعلائي: ص 106]۔

امام أبو زرعة ابن العراقي رحمه الله (المتوفى 826)نے کہا:
سليمان الأعمش مشهور بالتدليس أيضاً [المدلسين لابن العراقي: ص: 55]۔

امام سبط ابن العجمي الحلبي رحمه الله (المتوفى 841)نے کہا:
سليمان بن مهران الأعمش مشهور به[التبيين لأسماء المدلسين للحلبي: ص: 31]۔

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى 911)نے کہا:
سليمان الأعمش مشهور به بالتدليس [أسماء المدلسين للسيوطي: ص: 55]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سے محدثین نے امام اعمش کو مدلس قراردیاہے۔

تنبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے کیونکہ النکت میں آپ نے امام اعمش رحمہ اللہ کو تیسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور تلخیص میں ان کے عنعنہ کی وجہ سے ایک روایت کو ضعیف بھی کہا ہے۔

دکتور عواد الخلف نے صحیحین کے مدلسین پر دو الگ الگ کتاب میں لکھی ہے ان میں دکتور رموصوف نے امام اعمش کے بارے میں یہ تحقیق پیش کی ہے وہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں ، دکتور موصوف نے یہ بھی کہا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے تو یہ ان کا سہہو ہے اور نکت میں انہوں نے درست بات لکھی ہے اوروہی معتبر ہے کیونکہ نکت کو حافظ ابن حجر نے طبقات کے بعد تصنیف کیا ہے۔

دکتور مسفر الدمینی نے بھی مدلسین پر ایک مستقل کتاب لکھ رکھی ہے انہوں نے بھی اعمش کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے اور طبقات میں حافظ ابن حجر کی تقسیم کو غلط قرار دیا ہے۔


دوسری علت:
عبد الوهاب بن الضحاك بن أبان السلمى العرضى۔
یہ کذاب راوی ہے محدثین نے اس پرسخت جرحین کی ہیں جن میں سے بعض حوالے پیش خدمت ہیں:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 74]۔

امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله (المتوفى293)نے کہا:
عامة حديثه كذب [تاريخ دمشق 37/ 325 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يسرق الحديث[المجروحين لابن حبان: 2/ 148]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عبد الوهاب بن الضحاك العرضي، حمصي عن إسماعيل بن أبي عياش له مقلوبات وبواطيل[الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 27]۔

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
عبد الْوَهَّاب بن الضَّحَّاك الْحِمصِي يروي عَن إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش لَا شَيْء[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 109]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبد الوهاب بن الضحاك الحمصي العرضي متهم تركوہ [المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 65]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك كذبه أبو حاتم[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 284]۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى:963)نے کہا:
عبد الوهاب بن الضحاك أبو الحارث السلمى متهم بالوضع والكذب[تنزيه الشريعة لابن العراق: 1/ 82]۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت عبد الوهاب بن الضحاك نامی کذاب راوی کی بیان کردہ ہے لہٰذا یہ موضوع و من گھڑت ہے ، اوردریں صورت اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں یہ کالعدم ہے۔

یادرہے کہ عبد الوهاب بن الضحاك نامی کذاب راوی کی مرویات کو خصوصی طور پر اہل علم نے کالعدم قراردیا ہے ۔

مثلا:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
عبد الْوَهَّاب بن الضَّحَّاك الْحِمصِي يروي عَن إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش لَا شَيْء[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 109]۔

اورامام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے اس کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
هذا شيء يشبه لا شيء لأن عبد الوهاب بن الضحاك واه[الثقات لابن حبان: 7/ 344]۔


تنبیہ:
مذکورہ رویات کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے اس سند سے ذکرکیا ہے:
حدثنا أحمد بن حمدان بن موسى الخلال التستري ثنا علي بن حرب الجنديسابوري ثنا إسحاق بن إبراهيم بن داحة ثنا أبو خداش عبد الرحمن بن طلحة بن يزيد بن عمرو بن الأهتم التميمي ثنا أبان بن الوليد قال :[المعجم الكبير 10/ 241]۔

یہ روایت مسلسل بالعلل ہے ۔
پہلی علت:
امام طبرانی کے شیخ أحمد بن حمدان بن موسى الخلال التستري کو کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا ۔
البتہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کی ایک روایت کوصحیح قراردیا ہے اورراوی کی روایت کو صحیح قرادینا راوی کی ضمنی توثیق ہوتی ہے لیکن ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں یہ اگر توثیق میں منفرد ہوں تو ان کی صریح توثیق بھی قابل قبول نہیں ہوتی تو پھر ضمنی توثیق کیونکر قبول ہوسکتی ہے۔

دوسری علت:
إسحاق بن إبراهيم بن داحة ، یہ راوی مجہول ہے ۔
اس کی توثیق تو درکنار کتب رجال میں اس نام کے کسی راوی کا ذکر ہی نہیں ملتا۔

تیسری علت:
أبو خداش عبد الرحمن بن طلحة بن يزيد بن عمرو بن الأهتم التميمي ، یہ
یہ راوی بھی مجہول ہے اس کی توثیق تو درکنار کتب رجال میں کسی نے اس کاترجمہ پیش نہیں کیا ہے صرف ابن عساکر رحمہ اللہ نے أبان بن الوليد بن عقبة کے شاگردوں میں اسے گنایا ہے[تاريخ دمشق لابن عساكر 6/ 160]۔
لیکن انہوں نے بھی اس کا ترجمہ پیش نہیں کیا ۔

چوتھی علت:
أبان بن الوليد بن عقبة بن أبي معيط ، یہ راوی بھی مجہول ہے ۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے صرف اس کا ترجمہ پیش کیا ہے [تاريخ دمشق لابن عساكر 6/ 160]۔
لیکن نہ تو اس کی توثیق کی اورنہ ہی اس کے بارے میں کوئی توثیق نقل کی۔



نوٹ :
واضح رہے کہ اسی روایت کو بغیرکسی سند کے امام بلاذری نے أنساب الأشراف : 5/ 306 میں ، الیعقوبی نے اپنی تاریخ : ص: 208 میں ، ابن الاثیر نے کامل ج 4 ص 54 میں اور سبط الجوزی نے تذکرۃ الخواص:ص 562 میں اوردیگرکئی لوگوں نے خصوصا رافض نے اپنی اپنی کتابوں میں ذکرکیا ہے مگران سب نے اس روایت کو بغیرسند کے صرف نقل کردیا ہے لہٰذا یہ سب غیرمستندحوالے ہیں۔


الغرض یہ کہ مذکورۃ روایت جھوٹی ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ان باتوں سے بری ہیں۔
یادرہے کہ اگرعبداللہ بن عباس رضی اللہ کی طرف منسوب ہربات کو آنکھ بند کرکے مان لیا جائے تو پھران کے حوالہ سے یزید ہی نہیں بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے عزت بھی تاتار ہوتی نظر آئے گی ۔
مذکورہ روایت کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید کو صرف حسین رضی اللہ عنہ اوران کے چند ساتھیوں کا قاتل قرار دیا ہے لیکن ایک دوسری روایت کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو امت مسلمہ کا قاتل قرار دیا ہے، اوران پر بہت سنگیں الزامات لگائے ، اوران کے خلاف خروج کا بھی ارادہ کرلیا ، اس روایت کی صرف ایک جھلک ملاحظہ ہو، ملاحظہ ہو:

بعض روایت کے مطابق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو امت مسلمہ کا قاتل قراردیا اورکہا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے محض امارت وبادشاہت حاصل کرنے کے لئے امت مسلمہ کا خون بہایا۔


ملاحظہ ہو:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔كتب إِلَيْهِ عَليّ: أما بعد فإنه لا يسعني تركك حَتَّى تعلمني ما أخذت من الجزية؟ ومن أين أخذته وفيما وضعت ما أنفقت منه فاتق الله فيما ائتمنتك عليه واسترعيتك حفظه، فإن المتاع بما أنت رازي منه قليل وتباعة ذلك شديدة والسلام. (قالوا) فلما رأى ابن عباس أَنَّهُ غير مقلع عَنْهُ كتب إِلَيْهِ: أما بعد فقد فهمت تعظيمك علي مرزأة ما بلغك أني رزأته من أهل هذه البلاد، وو الله لأن ألقى الله بما فِي بطن هَذِه الأرض من عقيانها ولجينها، وبطلاع ما عَلَى ظهرها أحب إلي من أن ألقاه وقد سفكت دماء الأمة لأنال بذلك الملك والإمارة (٣) فابعث إلى عملك من أحببت. وأجمع (ابن عباس) عَلَى الخروج. [أنساب الأشراف للبلاذري: 2/ 171 ، العقد الفريد لابن عبد ربه: 5/ 104، بحار الأنوار للمجلسی: 33/ 502 ]۔

یہ ایک طول خط وکتابت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خلاف دولت کے بارے میں شکایت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خط لکھا جس کے جواب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی امانت داری کاحوالہ دیا اور اپنے خلاف پہنچائی گئی بات کو پروپیگنڈہ قراردیا لیکن اس کے بعد پھر علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور ان سے مال ودولت کا حساب طلب کیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
وو الله لأن ألقى الله بما فِي بطن هَذِه الأرض من عقيانها ولجينها، وبطلاع ما عَلَى ظهرها أحب إلي من أن ألقاه وقد سفكت دماء الأمة لأنال بذلك الملك والإمارة
اللہ کی قسم اگر میں( اس قدر دولت پرست ہوجاؤں کہ) زمین کے اندرموجود تمام سونے چاندی کی دولت لے لوں اسی طرح زمین کے اوپر جس قدر ایسی دولت سماسکے اسے بھی لے لوں اوران سب کے ساتھ اللہ سے ملاقات کروں تو یہ میرے لئے اس سے کہیں زیادہ بہترہے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ میں نے محض بادشاہت اور امارت حاصل کرنے کے لئے امت مسلمہ کا خون بہایا۔

أنساب الأشراف للبلاذري جلد دوم کا محقق خط کشیدہ عبارت پر (٣) نمبر لکھ کرحاشیہ میں لکھتا ہے:
(٣) الظاهر ان هذا الكتاب وضعه بعض اتباع الأموية كي يكثروا سواد معاوية وأمثاله ممن باع الآخرة بالدنيا، وأذهب طيباته في نيل الأرذل الأدنى، ويلقوا في روع الناس وأذهانهم أن حروب أمير المؤمنين وقيامه بالأمر، لم تكن دينية، وإنما كانت دنيوية محضة كي يتفرد بالملك وينال السلطة والرئاسة!!!۔۔۔۔۔۔۔۔[أنساب الأشراف للبلاذري: 2/ 171، حاشیہ نمبر 3]۔
ترجمہ: ظاہر ہے کہ اس خط کو بنوامیہ کے بعض پیروکاروں نے گھڑا ہے تاکہ اس کے ذریہ معاویہ اوراسی جیسے ان لوگوں کی تعداد بڑھائی جائے جنہوں نے دنیا کے بدلے آخرت کا سودا کرلیا اورحقیر و کمتر چیزوں کے حصول کے لئے اپنی اچھی چیزیں ضائع کردیں ، اس طرح کی باتیں گھڑنے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھائی جائے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کی جنگ اوران کی امارت دینی نہیں بلکہ صرف دنیاوی تھی ، اس سے علی رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ تھا کہ وہ اکیلے بادشاہ وسلطنت اور رئاست کے مالک ہوجائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غورکریں کہ کس طرح اس محقق نے مذکورہ روایت کونہ صرف من گھڑت کہا بلکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب کو بھی مطعون کرڈالا ، حالانکہ اسی کتاب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بھی ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید کو قاتل حسین قرار دیا اوران کے خلاف وہی لہجہ اختیار کیا جو یہاں علی رضی اللہ عنہ کے خلاف استعمال کیا ، لیکن اس مغالطہ باز اورمتعصب محقق نے وہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ، دراصل اس کتاب کا محقق پکا مغالطہ باز اورمتعصب ہے اس نے اس کتاب کے حواشی میں ایسے گل کھلائے ہیں کہ اللہ کی پناہ ، نہ جانے کتنے مقامات پر اس نے دن کو رات اوررات کو دن ثابت کرنے کے کوشش کی ہے، اہل علم وطلباء سے گذارش ہے کہ اس کتاب کے محقق سے ہوشیار رہیں ۔


الغرض یہ کہ اگرعلی رضی اللہ عنہ سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس طرح کی منکرروایات قابل قبول نہیں ہیں تو پھر یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی اس طرح کی منکرروایات ناقابل قبول ہوں گی، انصاف کا یہی تقاضا ہے۔

یادرہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے یزیدرحمہ اللہ کو نیک اورصالح قراردیا اور برضاء ورغبت ان سے بیعت کی ، چنانچہ:
امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279)اپنے استاذ امام مدائنی سے نقل کرتے ہیں:
الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي: إنا لبمكة إذ مر بنا بريد ينعى مُعَاوِيَة، فنهضنا إلى ابن عباس وهو بمكة وعنده جماعة وقد وضعت المائدة ولم يؤت بالطعام فقلنا له: يا أبا العباس، جاء البريد بموت معاوية فوجم طويلًا ثم قَالَ: اللَّهم أوسع لِمُعَاوِيَةَ، أما واللَّه ما كان مثل من قبله ولا يأتي بعده مثله وإن ابنه يزيد لمن صالحي أهله فالزموا مجالسكم وأعطوا طاعتكم وبيعتكم، هات طعامك يا غلام، قَالَ: فبينا نحن كذلك إذ جاء رسول خالد بْن العاص وهو على مَكَّة يدعوه للبيعة فَقَالَ: قل له اقض حاجتك فيما بينك وبين من حضرك فإذا أمسينا جئتك، فرجع الرسول فَقَالَ: لا بدّ من حضورك فمضى فبايع.[أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔
عامربن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مکہ میں تھے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبردیتے والا ہمارے پاس سے گذرا تو ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس پہونچے وہ بھی مکہ ہی میں تھے ، وہ کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اوردسترخوان لگایا جاچکاتھا لیکن ابھی کھانا نہیں آیاتھا ، تو ہم نے ان سے کہا: اے ابوالعباس ! ایک قاصد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبرلایا ہے ، یہ سن کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کچھ دیرتک خاموش رہے پھرفرمایا: اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ پراپنی رحمت وسیع فرما، یقینا آپ ان لوگوں کے مثل تو نہ تھے جو آپ سے پہلے گذرچکے لیکن آپ کے بعدبھی آپ جیساکوئی نہ دیکھنے کوملے گا اورآپ کے صاحبزادے یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ آپ کے خاندان کے نیک وصالح ترین شخص ہیں،اس لئے اے لوگو! اپنی اپنی جگہوں پر رہو اوران کی مکمل اطاعت کرکے ان کی بیعت کرلو ، (اس کے بعد غلام سے کہا) اے غلام کھانا لیکرآؤ ، عامربن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ خالد بن العاص المخزومی رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا وہ اس وقت مکہ کے عامل تھے ، اس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لئے بلایا ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اس سے کہہ دو کہ پہلے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنا کام ختم کرلے اورشام ہوگی توہم اس کے پاس آجائیں گے ، یہ س کرقاصد لوٹ گیا ، اس کے بعد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کے پاس حاضرہونا لازمی ہے ، پھر آپ گئے اور(یزیدکی) بیعت کرلی۔
اس روایت کی سندحسن ہے ۔
دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 164 ]۔
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
کسی روایت کی ایک سند بیان کر کے اس پر جرح کر کے اسے جھوٹی ثابت کر دینا آپ کی ہی بہادری ہے ۔ دوسری علت کے تحت آپ نے عبد الوھاب بن ضحاک کو کذاب قرار دیا ہے جب کہ زیادہ تر جرح میں محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
کسی روایت کی ایک سند بیان کر کے اس پر جرح کر کے اسے جھوٹی ثابت کر دینا آپ کی ہی بہادری ہے ۔ دوسری علت کے تحت آپ نے عبد الوھاب بن ضحاک کو کذاب قرار دیا ہے جب کہ زیادہ تر جرح میں محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے
کیا ہی بہتر ہوتا کہ بےدلیل تنقید کے بجائے آپ کچھ تحقیق کی محنت بھی کر لیتے اور حوالوں کے ساتھ ان محدثین کے نام پیش فرماتے جنہوں نے عبد الوھاب بن ضحاک کو متروک قرار دیا ہو!
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کسی روایت کی ایک سند بیان کر کے اس پر جرح کر کے اسے جھوٹی ثابت کر دینا آپ کی ہی بہادری ہے ۔ دوسری علت کے تحت آپ نے عبد الوھاب بن ضحاک کو کذاب قرار دیا ہے جب کہ زیادہ تر جرح میں محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے
ؐمحترم کذاب اور متروک میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
متروک جرح مبھم ہے یہ اس روای کے بارے میں کہا جاتا ہے جس کی روایت ترک کے قابل ہوتی ہے لیکن اس کی روایت کیوں ترک کی جاتی ہے اس کی وضاحت لفظ متروک میں نہیں ہے ، اب ایک طرف محدثین اسے متروک کہہ رہے ہیں تو دوسری طرف کئی محدثین اسے جھوٹا و صاحب کذب بتلارہے ہیں جو کہ سخت ترین جرح ہونے کے ساتھ جرح مفسر بھی ہے ۔ ان دونوں طرح کے اقوال سے معلوم ہوا کہ یہ متروک اسی لئے ہے کیونکہ یہ کذاب ہے ۔ایسی صورت میں اس راوی سے متعلق متروک اور کذاب کے اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔
نیز اگر یہ راوی صرف متروک ہی ہوتا یعنی اس پر کذب کی جرح نہ ہوتی کسی اوروجہ سے متروک ہوتا تب بھی یہ سخت جرح ہے ایسی صورت میں بھی اس کی روایت نہ صرف مردود ہوگی بلکہ اس حدتک مردود ہوگی کہ شواہد متابعات میں بھی قابل قبول نہ ہوگی ، کیونکہ اہل فن نے صراحت کی ہے کہ متروک راوی کی روایات شواہد ومتابعات میں بھی ناقابل قبول ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top