• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ابن قدامہ نے اہل جمل و صفین کے باغی ہونے پر اجماع ذکر کیا ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا ابن قدامہ نے اہل جمل و صفین کے باغی ہونے پر اجماع ذکر کیا ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم

امام ابن قدامہ مقدسی حنبلی (541 - 620ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہے :

وَأَجْمَعَتْ الصَّحَابَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ -، عَلَى قِتَالِ الْبُغَاةِ، فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَاتَلَ مَانِعِي الزَّكَاةِ، وَعَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَاتَلَ أَهْلَ الْجَمَلِ وَصِفِّينَ وَأَهْلَ النَّهْرَوَانِ

اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے باغیوں سے قتال کرنے پر اجماع کیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ سے قتال کیا اور علی رضی اللہ عنہ نے اہل جمل، اہل صفین اور اہل نہروان سے قتال کیا۔


(المغنی 8/583)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کے اس قول کو دلیل بنا کر سوشل میڈیا پر کچھ جاہل رافضی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ابن قدامہ نے اہل صفین و اہل جمل کے باغی ہونے پر اجماع ذکر کیا ہے! حالانکہ مندرجہ بالا عبارت میں جو اجماع کی بات ہے وہ باغیوں سے قتال کے تعلق سے ہے۔

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ باغیوں سے قتال پر اجماع ہے تو وہ واقعی اجماع ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ جیسے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا، علی رضی اللہ عنہ نے کیا تو یہ مثالیں ہیں، اجماع کا تعلق اس سے نہیں ہے۔

اور اصحاب جمل و صفین کے باغی ہونے اور ان سے قتال پر صحابہ کا اجماع ہونے کا دعویٰ کوئی کر ہی نہیں سکتا کیونکہ جمہور صحابہ نہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ تھے اور نہ اصحاب جمل و صفین کے ساتھ بلکہ ان جنگوں سے توقّف کرتے تھے۔

امام ابن حزم الأندلسي (ت ٤٥٦هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَذهب سعد بن أبي وَقاص وَعبد الله بن عمر وَجُمْهُور الصَّحَابَة إِلَى الْوُقُوف فِي عَليّ وَأهل الْجمل وَأهل صفّين وَبِه يَقُول جُمْهُور أهل السّنة وَأَبُو بكر بن كيسَان

سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا عبداللہ بن عمر اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اہل جمل و صفین کے ساتھ جنگ بارے میں توقّف کرتے ہیں۔ جمھور اہل السنہ اور ابوبکر بن کیسان بھی یہی فرماتے ہیں۔

[الفصل في الملل والأهواء والنحل، ج: ٤، ص: ١١٩]

اب اہل جمل و صفین پر باغی ہونے کی تہمت لگانے والے بلکہ ان کے باغی ہونے پر اجماع کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے بتائیں کہ صحابہ کی اکثریت تو اس سے الگ رہی اور کسی نے بھی بغاوت کے وہ احکام جو کتاب و سنت میں مذکور ہے ان کا اطلاق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ پر نہیں کیا! بلکہ جمہور صحابہ نے توقف اختیار کیا یعنی صراحتًا کسی کو بھی مصیب و مخطئ قرار نہیں دیا۔

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کی عبارت میں اجماع باغیوں سے قتال کرنے پر ہے۔ اسی سے ثابت ہوتا ہے اہل جمل و صفین باغی نہیں تھے ان سے قتال پر صحابہ کا کوئی اجماع نہیں اجماع تو دور انہیں باغی ہی نہیں مانتے اگر باغی سمجھتے تو ان جنگوں سے توقف نہ کرتے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (ت ٧٢٨هـ) رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَأَمَّا الْقِتَالُ بِالْجَمَلِ وَصِفِّينَ فَهُوَ قِتَالُ فِتْنَةٍ، وَلَيْسَ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَا إِجْمَاعٌ مِنَ الصَّحَابَةِ
جہاں تک جمل اور صفین کی جنگ کا تعلق ہے تو یہ فتنوں کی جنگ ہیں اور اس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم نہیں ہے اور نہ ہی صحابہ کرام کا اجماع ہے۔


[منهاج السنة النبوية، ج: ٤، ص: ٥٠١]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فرمان سے یہ واضح ہوا کہ جمل و صفین میں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تو اس جنگ کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہیں دیا تھا اور اس جنگ پر صحابہ کرام کا اجماع و اتفاق بھی نہیں تھا۔

پھر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جمہور اہل حدیث و اہل سنت و ائمہ فقہاء کا موقف بیان فرماتے ہیں:

وَالْقِتَالُ يَوْمَ الْجَمَلِ وَصِفِّينَ فِيهِ نِزَاعٌ: هَلْ هُوَ مِنْ بَابِ قِتَالِ الْبُغَاةِ الْمَأْمُورِ بِهِ فِي الْقُرْآنِ؟ أَوْ هُوَ قِتَالُ فِتْنَةٍ الْقَاعِدُ فِيهِ خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، ؟ فَالْقَاعِدُونَ مِنَ الصَّحَابَةِ وَجُمْهُورِ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالسُّنَّةِ وَأَئِمَّةِ الْفُقَهَاءِ بَعْدَهُمْ يَقُولُونَ: هُوَ قِتَالُ فِتْنَةٍ، لَيْسَ هُوَ قِتَالَ الْبُغَاةِ الْمَأْمُورَ بِهِ فِي الْقُرْآنِ

اور جمل و صفین کی جنگ میں اختلاف ہے: کیا یہ ان باغیوں سے جنگ کے باب میں سے ہے جس کا قرآن میں حکم ہے؟ یا یہ فتنوں کی جنگ ہیں جس میں پیچھے بیٹھے رہنے والے جنگ لڑنے والوں سے بہتر ہے؟ اور بیٹھے رہنے والے اکثر صحابہ ہی تھے۔ اور جمہور اہل حدیث و السنہ اور ان کے بعد کے ائمہ فقہاء کہتے ہیں: یہ فتنوں کی جنگ تھی یہ باغیوں سے قتال نہیں تھا جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔


[منهاج السنة النبوية، ج: ٤، ص: ٥٠٢]

معلوم ہوا کہ اہل جمل و صفین میں علی رضی اللہ عنہ کے مد مقابل گروہ باغی گروہ ہرگز نہیں تھے جس کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے قتال کا حکم دیا ہے۔ وہ صحابہ کرام جو ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے اور ان کے بعد جمہور محدثین و فقہاء کرام کی یہی رائے ہے۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
684
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
ابن قدامہ رحمہ اللہ کے اس قول کو دلیل بنا کر سوشل میڈیا پر کچھ جاہل رافضی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ابن قدامہ نے اہل صفین و اہل جمل کے باغی ہونے پر اجماع ذکر کیا ہے!
قال الله تعالى: فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاءتأويله (آل عمران)
 
Top