• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ابوبکررضی اللہ عنہ کی تدفین کے وقت قبرنبوی سے اجازت طلب کی گئی؟؟

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
ایک بریلوی دوست نے تفسیر کبیر (ج5ص465) کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کی وصیت کے مطابق دفن کرتے وقت پہلے قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اجازت طلب کی گئی۔ اس واقعہ یا اس سے ملتے جلتے واقعہ کی تحقیق و تخریج مطلوب جلد از جلد ہے۔ شیخ رفیق طاہر اور شیخ کفایت اللہ سے خصوصی تعاون کی گزارش ہے کہ جلد از جلد اس سلسلے میں تعاون فرمائیں۔ والسلام
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بھائی تفسیر کبیر امام رازی کی تفسیر کوکہاجاتا ہے ۔
ہمارے پاس تفسیر کبیرکا جونسخہ ہے اس میں ہمیں مذکورہ صفحہ پرایسی کوئی بات نہیں ملی ، ہم نے شاملہ میں سرچ کیا تو درج ذیل نتائج ملے:

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (10/ 135)
وَلَمَّا تُوُفِّيَ رِضْوَانُ اللَّه عَلَيْهِ دَفَنُوهُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا ذَاكَ إِلَّا أَنَّ اللَّه تَعَالَى رَفَعَ الْوَاسِطَةَ بَيْنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ،

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (16/ 51)
وَلَمَّا تُوُفِّيَ دُفِنَ بِجَنْبِهِ، فَكَانَ ثَانِيَ اثْنَيْنِ هُنَاكَ أَيْضًا

ان دونوں مقامات پرابوبکررضی اللہ عنہ کے فضائل میں تفصیلی بحث موجود ہے لیکن یہاں پر مذکورہ روایت نہیں ہے۔


ممکن ہے آپ کے بریلوی دوست کی مراد یہ بات ہو :

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (21/ 433)
«أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ

عرض ہے کہ یہ اثر یا کرامت بے سند ہے ، امام رازی نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا لہذا غیرمسموع ہے۔
نیزاس میں وصیت ابوبکررضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی نہیں ہے ۔

الغرض یہ کہ تفسیر رازی میں مذکورہ بات مکمل ہمین نہیں مل سکی بعض دوسری کتب میں یہ روایت ملتی ہے اس کی حقیقت آگے ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أنبأنا أبو علي محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق[تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 436 واخرجہ ایضا أبو الفرج عبد المنعم بن كليب الحراني من طریق ابی علی فی مشيخة ابن كليب رقم 18 ترقیم جوامع الکلم]۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا:
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]۔

عرض ہے کہ ہماری نظر میں یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں موجود ابو طاہر المقدسی یہ موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ ہے جیساکہ خود امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کردی ہے ۔

یہ شخص کذاب ہے ۔

امام موسى بن سهل رحمه الله (المتوفى262)نے کہا:
أشهد عليه أنه كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161 واسنادہ صحیح]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
يكذب وياتى بالا باطل[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
يُحَدِّثُ عَنِ الثِّقَاتِ، بِالْبَوَاطِيلِ فِي الْمَوْضُوعَاتِ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 169]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سارے ائمہ نے اس پرجرح کی ہے۔

نیز سند میں اوربھی علتیں ہیں۔
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
با عرض سلام
میرے ذھن میں اسی موضوع سے متعلق ایک سوال ہے کہ حضرت ابوبکر زمین کے جس ٹکڑے میں دفن ہوئے وہ کس کی ملکیت تھا؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
با عرض سلام
میرے ذھن میں اسی موضوع سے متعلق ایک سوال ہے کہ حضرت ابوبکر زمین کے جس ٹکڑے میں دفن ہوئے وہ کس کی ملکیت تھا؟
انتظامیہ سے درخواست ہے کے اس سوال کو یہاں سے منتقل کرکے نیا موضوع بنادیں۔۔۔
تاکہ جس کو جو بھی بات کرنی وہ اسی طرف ہو یہ معلومات اور خدمت اختلاف سے پاک رہے۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
شیخ محترم کفایت اللہ بھائی! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ یا دیگر کوئی بھی بھائی جو عربی جانتا ہو، سے گزارش ہے کہ آپ نے جو عبارات عربی میں پیش کی ہیں ان کا صحیح سلیس ترجمہ بھی پیش کر دیا جائے۔ اللہ آپ کو مزید اپنی عنایات و مہربانیوں سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم شَیخ کفایت اللہ صاحب : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جناب جس روایت کے بارے جس دھاگہ میں بھی کوئی تحقیق لکھیں اسے ساتھ ہی اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کریں تاکہ اس دھاگہ میں آنے والے عامی اس سے پورا پورا فائدہ حاصل کر سکیں ۔ اس روایت کے بارے میں جناب نے لکھا کہ "ان کے علاوہ اوربھی بہت سارے ائمہ نے اس پرجرح کی ہے۔نیز سند میں اوربھی علتیں ہیں۔
برائے مہربانی انہیں بھی یہاں نقل کر دیں تاکہ ایک مرتبہ ہی اس روایت کے بارے تمام معلومات ایک جگہ ہی اکھٹی مل جائیں ۔
 

LAEEQ.KHAN

رکن
شمولیت
دسمبر 22، 2012
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
54
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أنبأنا أبو علي محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق[تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 436 واخرجہ ایضا أبو الفرج عبد المنعم بن كليب الحراني من طریق ابی علی فی مشيخة ابن كليب رقم 18 ترقیم جوامع الکلم]۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا:
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]۔

عرض ہے کہ ہماری نظر میں یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں موجود ابو طاہر المقدسی یہ موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ ہے جیساکہ خود امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کردی ہے ۔

یہ شخص کذاب ہے ۔

امام موسى بن سهل رحمه الله (المتوفى262)نے کہا:
أشهد عليه أنه كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161 واسنادہ صحیح]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
يكذب وياتى بالا باطل[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
يُحَدِّثُ عَنِ الثِّقَاتِ، بِالْبَوَاطِيلِ فِي الْمَوْضُوعَاتِ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 169]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سارے ائمہ نے اس پرجرح کی ہے۔

نیز سند میں اوربھی علتیں ہیں۔

جزاک الله خیرا
 
Top