ایک بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے جس کے لیے اس کی پہلی بیوی بھی راضی ہے۔ لیکن نکاح کے وقت نکاح خواں کو وہ اپنا اصل نام نہیں بتائے گا بلکہ اس کی جگہ دوسرا نام بتائے گا۔اس کے بعد وہ اپنی دوسری بیوی کو اپنا اصل نام ہی بتائے گا۔ دوسری بیوی کو اصل نام کا بھی پتہ ہے۔ کیا اس طرح نکاح ہوجائے گا؟ علما کرام کے فتوی سے اگر کوئی بھائی واقف ہوتو راہنمائی فرمائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عقد نکاح کے صحیح ہونے کیلئے دیگر شرائط کے ساتھ ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ زوجین ایک دوسرے کیلئے " متعین " ہوں، یعنی ان کی تعیین ہو ،
واما شروط صحة النكاح فهي :
صحت نکاح کی شروط :
أولا : تعيين كل من الزوجين بالإشارة أو التسمية أو الوصف ونحو ذلك .
زوجین کی تعیین : چاہے یہ تعیین اشارہ یا نام یا پھر صفت بیان کرکے کی جائے ۔
يشترط لصحة النكاح تعيين الزوجين ، والمرأة تتعين بذكر اسمها أو صفتها كالصغرى أو الكبرى أو بالإشارة إليها ، إذا كانت حاضرة للعقد ، فإذا قال وليها : زوجتك هذه ، وأشار إليها ، صح العقد .
صحت نکاح کیلئے یہ شرط ہے کہ زوجین کی تعیین ہو ،اور عورت کی تعیین اس کے نام یو صفت سے ہوگی ، جیسے صغریٰ، کبریٰ ، یا اگر مجلس نکاح میں موجود ہے تواس کی طرف اشارہ سےبھی ہوسکتی ہے ، مثلاً اگر ولی اس کی طرف اشارہ کرکے کہے کہ میں " اس " کو تمہارے نکاح میں دیا (تو ایسا کرنا صحت نکاح کیلئے کافی ہوگا )
امام ابن قدامہؒ المغنی میں فرماتے ہیں :
[فصل من شرط صحة النكاح تعيين الزوجين]
قال ابن قدامة رحمه الله في "المغني" (7/96) : " مِن شرط صحة النكاح تعيين الزوجين ; لأن كل عاقد ومعقود عليه يجب تعيينهما ، كالمشتري والمبيع , ثم ينظر ، فإن كانت المرأة حاضرة ، فقال : زوجتك هذه صح ، فإن الإشارة تكفي في التعيين ، فإن زاد على ذلك ، فقال : بنتي هذه ، أو هذه فلانة كان تأكيدا .
وإن كانت غائبة فقال : زوجتك بنتي وليس له سواها جاز ، فإن سماها باسمها مع ذلك ، كان تأكيدا .
فإن كان له ابنتان أو أكثر ، فقال : زوجتك ابنتي لم يصح حتى يضم إلى ذلك ما تتميز به ، من اسم أو صفة ، فيقول : زوجتك ابنتي الكبرى أو الوسطى أو الصغرى فإن سماها مع ذلك كان تأكيدا " انتهى
امام أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة المتوفی 620ھ فرماتے ہیں :
صحت نکاح کیلئے یہ شرط ہے کہ زوجین کی تعیین ہو ،کیونکہ شرعاً عاقد و معقود دونوں کا ایک دوسرے کیلئے متعین ہونا واجب ہے ، جیسے خریدار اور فروخت کنندہ کیلئے متعین ہوتا ہے ، اور پھر ایک صورت یہ بھی ہے کہ
عورت وہاں موجود ہے اور (ولی شرعی ) کہے کہ میں نے ۔۔ اس کو ۔۔ تیری زوجیت میں دے دیا تو اس طرح بھی نکاح صحیح ہوگا ،کیونکہ تعیین کیلئے اشارہ کافی ہے (اگر اشارہ واضح سمجھ آرہاہو )
اور اگر اشارہ کے ساتھ مزید کہے مثلاً (( میری بیٹی ) یا اس طرح کی اور کوئی قابل فہم نشاندہی تاکیداً۔
اور اگر بیٹی دینے والا اپنی اکلوتی بیٹی کے متعلق عقد نکاح میں کہے کہ میں نے اپنی بیٹی تیری زوجیت میں دی تو یہ بھی جائز و صحیح ہے ،اور اگر اس کے ساتھ اس کا نام بھی بتائے تو یہ تاکیداً ہوگا ۔
اور اگر اسکی دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں تو ایجاب میں صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ " میں نے اپنی بیٹی تیری زوجیت میں دی ، جب تک اپنی بیٹیوں میں کسی ایک کی (نام کے ساتھ یا اس کی کسی صفت سے تمییز نہیں کرتا "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تو جس طرح شادی کرنے والے مرد کیلئے اس کی دلہن کی تعیین ضروری ہے ، اسی طرح دلہن کیلئے دولہا کا تعین ضروری ہے ،
اور ولی اور گواہوں کیلئے بھی دونوں متعین ہونا لازم ہیں ،
لڑکی کا ولی ایجاب میں کہہ رہا ہو کہ میں اپنی بیٹی محمد عبداللہ کی زوجیت میں دی ، جبکہ حقیقت میں وہ محمد افضل کو اپنی بیٹی دے رہا ہے !
اسی طرح گواہوں کا معاملہ ہے ۔
اس لیئے نام اور دیگر ضروری شناخت چھپانا بالکل جائز نہیں ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ