حافظ زبیرعلی زئی کا موقف اور اس کا جائزہ
زیربحث راوی اسحاق کے تعین میں محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے عجیب تسامح ہوا ہے موصوف لکھتے ہیں:
1753-[حسن]اخرجہ الحاکم: 422/1 علی تصحیف فی السند من حدیث الولید بہ ، وصححہ البوصیری ،وقال:'' رجالہ ثقات'' ، وحسنہ الحافظ فی امالی الاذکار ۔ اسحاق بن عبیداللہ المدنی وثقہ ابن حبان والبوصیری ونقل البوصیری عن الذہبی قال: صدوق، ولحدیثہ شاھد عندالضیافی المختارہ وغیرہ۔[سنن ابن ماجہ رقم 1753 مطبوعہ دار السلام]۔
موصوف کی اس عبارت میں درج ذیل چیزیں ہیں:
- امام بوصری نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے۔
- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تحسین کی ہے۔
- اسحاق بن عبیداللہ المدنی کو ابن حبان نے ثقہ کہاہے۔
- بوصیری نے امام ذہبی سے نقل کیا کہ انہوں نے اسحاق کو صدوق کہا ہے۔
- مختارہ میں اس حدیث کا شاہدہے۔
ان تمام باتوں پر ہمارا تبصرہ پیش خدمت ہے۔
امام بوصیری کی توثیق :
گذشتہ سطور میں تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اسحاق کی تعین ابن الحارث سے کی ہے اسی لئے اسے ثقہ کہا اور یہ راوی بے شک ثقہ ہے لیکن اس سند میں موجود اسحاق سے یہ راوی مراد نہیں ہے اس لئے امام بوصیری کی توثیق اس سند میں موجود اصل اسحاق کی توثیق نہیں ہے۔جیساکہ پوری تفصیل سے وضاحت کی جاچکی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین ان کی اصل تحقیق کے خلاف ہے کیونکہ انہوں نے اس سند میں موجود اسحاق کی تعین
’’إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر‘‘سے کی ہے اور اسے خود حافظ موصوف نے مقبول کہا ہے چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
إسحاق بن عبيد الله بن أبي مليكة التيمي مجهول الحال من السادسة وعندي أن الذي أخرج له بن ماجة هو إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر وهو مقبول ق [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 370 ]۔
ایسی صورت میں ان کی تحسین راوی سے متعلق ان کی خصوصی تحقیق کے خلاف ہے اور راوی والی تحقیق ایک خاص تحقیق ہے اور پوری حدیث کو ایک ساتھ حسن کہنا ایک عام بات ہے اس لئے عام بات کے بالمقابل خاص بات کو ترجیح دی جائے گی ۔یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں بھی اس سند میں ایک راوی ضعیف ہے لیکن غالبا اسے حسن کہتے وقت وہ اس بات کو مستحضر نہ رکھ سکے ۔
یہ بات اس صورت میں کہی جائے گی جب یہ فرض کرلیا جائے کہ اس سند میں اسحاق سے مراد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا متعین کردہ راوی
''إسحاق بن عبيد الله بن أبي المهاجر'' ہی ہے لیکن گذشتہ سطور میں پوری تفصیل سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ اس سند میں موجود اسحاق یہ ابن ابی فروہ ہے جو سخت ضعیف ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی متروک قرار دیا ہے ۔
دریں صورت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ تحسین قطعا لائق التفات نہیں کیونکہ اسحاق کے تعین میں ان سے تسامح ہوا ہے۔
ابن حبان کی طرف سے اسحاق کی توثیق :
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
إسحاق بن عبید الله المدني يروى عن بن أبي مليكة روى عنه الوليد بن مسلم [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 48]
نوٹ: بعض مخطوطہ میں یہاں پر اسحاق کے والد کا نام ’’عبداللہ‘‘ ہے اوریہی درست معلوم ہوتا ہے گرچہ محقق نے اسے غلط قرار دیا کیونکہ اس کے اصل ماخذ یعنی پیش نظر سند میں عبداللہ ہی ہے۔
عرض ہے کہ غالبا ابن حبان رحمہ اللہ نے زیربحث سند ہی کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اسحاق بن عبیداللہ المدنی ‘‘ نامی راوی کو ثقات میں ذکر کیا ۔اورہوا یوں ہوگا کہ موصوف اس راوی کو پہچان نہیں سکے اور مجاہیل کی توثیق والے اپنے منفرداصول کے تحت اسے ثقات میں ذکر کردیا۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اس راوی کو نہ پہچان پانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ امام منذری رحمہ اللہ بھی اس راوی کو نہ پہچان سکے اور زیربحث سند کے بارے میں کہا:
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ عَن إِسْحَاق بن عبيد الله عَنهُ وَإِسْحَاق هَذَا مدنِي لَا يعرف وَالله أعلم[الترغيب والترهيب للمنذري: 2/ 53]
ممکن ہے ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو مجہول ہی سمجھاہو اور پھر مجہول کی توثیق والے اپنے منفرد اصول کے تحت اس کی توثیق کردی ہے۔
اگریہ درست ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی سند کو سامنے رکھا ہے تو یہ ابن حبان رحمہ اللہ کا وہم ہے کیونکہ اس سند میں موجود اسحاق یہ کوئی مجہول راوی نہیں بلکہ یہ اصل میں
’’ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَة الْمدنِي‘‘ ہے اور اسے خود امام حبان رحمہ اللہ نے بھی مجروح قرار دے کر اپنی کتاب مجروحین میں ذکرکرتے ہوے کہا:
إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَة الْمدنِي۔۔۔۔۔۔[المجروحين لابن حبان: 1/ 131]
اگرکہا جائے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے زیربحث سند کو سامنے نہیں رکھا ہے بلکہ انہوں متعدد طرق کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اسحاق بن عبیداللہ المدنی‘‘ نامی کسی خاص راوی کی توثیق ہے ۔
تو عرض ہے کہ :
اولا:دیگر طرق میں اس راوی کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔
ثانیا: ابن حبان اس کی توثیق میں منفرد ہیں۔
ثالثا: زیربحث سند میں یہ راوی موجود ہی نہیں بلکہ اس سند میں تو
’’إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَة الْمدنِي‘‘ جسے خود ابن حبان رحمہ اللہ نے مجروح قراردیا ہے کمامضی۔
الغرض یہ کہ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا ابن حبان کی توثیق پیش کرنا بے سود ہے کیونکہ اول تو وہ توثیق میں منفرد ہیں، دوم وہ جس راوی کی توثیق کررہے ہیں وہ اس سند میں ہے ہی نہیں ،اور جو اس سند میں ہے اسے ابن حبان رحمہ اللہ نے خود مجروح قرار دیا ہے۔
امام بوصیری کا امام ذہبی سے صدوق کا لفظ نقل کرنا:
اسحاق کا تعین جس راوی سے محترم زبیرعلی زئی حٍفظہ اللہ کررہے ہیں اس راوی سے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ سے صدوق کا لفظ قطعا ثابت نہیں ہے امام ذہبی کی کسی بھی کتاب سے یہ بات ثابت نہیں کی جاسکتی ہے۔
دراصل امام بوصیری نے اسحاق کا تعین ابن الحارث سے کیا ہے اور اسی کے تعلق سے امام ذہبی نے صدوق کہا ہے جیساکہ پوری تفصیل پیش کی جاچکی ہے لیکن زیربحث سند میں اسحاق سے یہ راوی قطعا مراد نہیں خود محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں ۔بلکہ آں محترم کو غلط فہمی ہوئی ہے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ امام بوصیری بھی اسحاق سے اسی راوی کو مراد لے رہے ہیں جسے آں جناب مراد لے رہے ہیں ۔لیکن یہ بات قطعی طور پرغلط ہے اور حقیقت یہ کہ امام بوصیری کی مراد ایسا راوی ہے جو ثقہ تو ہے لیکن اس کا اس سند میں ہونا ممکن ہی نہیں جیساکہ تفصیلی پیش کیا جاچکی ہے۔
فائدہ:
محترم زبیرعلی زئی حٍفظہ اللہ کا اصول ہے کہ جرح وتعدیل کے اقوال ثابت شدہ ہوں تبھی اس سے استدلال کیا جاسکتاہے ۔
لیکن آں جناب نے یہاں پر امام ذہبی کے حوالہ سے جو ''صدوق'' کا لفظ نقل کیا ہے اس کا اصل حوالہ نہیں دے سکے بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ امام بوصیری نے امام ذہبی سے ایسا نقل کیا ہے۔یہ طرزعمل موصوف کے عمومی اصول کے خلاف ہے۔
دریں صورت ان کے پاس صرف اور صرف ابن حبان کی توثیق بچتی ہے جو منفرد ہونے کی وجہ سے مردود ہے
مزید یہ کہ ابن حبان کی طرف سے ثقہ قرار دیا گیا راوی اس سند میں موجود بھی نہیں کیونکہ دوسری سند نے اس راوی کا تعین کردیا ہے جیساکہ وضاحت کی گئی۔
مختارہ میں موجود اس کا شاہد:
موصوف نے مختارہ میں اس حدیث کے شاہد کا وجود بتلایا ہے لیکن آں جناب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ شاہد ان کی نظر میں صحیح ہے یا نہیں جب کہ موصوف کا عمومی طور پر یہ اصول ہے کہ جب وہ شواہد کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا درجہ بھی بتلا دیتے ہیں۔
ہماری نظر میں اس حدیث کا شاہد بھی ضعیف ہے لیکن خود موصوف نے بھی اسے صحیح نہیں کہا ہے اس لئے ہم اس پر بحث کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔