• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے اصحاب میں سے کسی کی اقتدا میں نماز ادا کیا ہے؟

شمولیت
فروری 14، 2017
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
10
میرے ذاتی گروپ صراط مستقیم میں ایک سوال آیا کہ کیا اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے اصحاب میں سے کسی کے پیچھے نماز ادا کی ہے؟
الجواب بعون اللہ الوہاب : اللہ کے رسول ﷺ پر جب سے نماز فرض ہوئی صحابہ کرام آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے رہے ،آپ کی حیات مبارکہ میں کچھ حالات و واقعات ایسے بھی ہوئے کے آپ کو اپنے اصحاب میں سے بعض کے پیچھے نماز پڑھنا پڑا ،آپ نے جن کی اقتداءمیں نماز ادا کی ان خوش نصیب افراد کی تعداد دو ہیں (1) ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ (2) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ ۔
ذیل میں ہم ان دلائل کا تذکرہ رہے ہیں جو مذکورہ باتوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔
(1) ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ : اللہ کے رسول ﷺ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں نماز ادا کی اس امر میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف ہےکہ کیا آپ نے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی ہی نہیں ،اور اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہیکہ دلائل اثبات و نفی دونوں پہلووں کی حمایت میں ہیں،لہذا ہم یہاں اثبات و نفی دونوں دلائل کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
اثبات :
(1) پہلی حدیث :
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ قَاعِدًا ۔ترجمہ :ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔(جامع الترمذی /حدیث نمبر : 362/حدیث صحیح ہے)
(2) عن أنس بن مالك : " آخر صلاة صلاها رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مع القوم في ثوب واحد , متوشحاً خلف أبي بكر۔ترجمہ :انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی حیات میں جو آخری نماز صحابہ کے ساتھ ادا کی،وہ آپ نے ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے ادا کی۔(صحیح سنن نسائی /حدیث نمبر : 784)
ان دونوں احادیث کے علاوہ بھی کئی صحیح روایتیں ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ کی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں نماز کی ادائیگی پر دلالت کرتی ہیں۔
نفی :
(1)‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاَةِ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رضى الله عنه‏.‏۔ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء۔(صحیح بخاری/713)
تطبیق : ان تمام احادیث کو سامنے رکھنے پر اس بات کی وضاحت ہوتی ہیکہ اثبات والی روایتیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت میں نبی اکرم ﷺ کی نماز کی طرف اشارہ کرتی ہیں،جبکہ کے نفی والی رویت میں یہ مذکور ہیکہ اللہ کے نبی کی اقتداءابو بکر رضی اللہ عنہ کررہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداءکررہے تھے۔
مذکورہ تضاد کو دور کرنے کے لئے حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ اورحافظ ابن کثیرؒ کا قول ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں جس کوحافظ ابن کثیر ؒ نے امام شافعی ؒ اور دیگر ائمہ سے نقل کیا ہیکہ ایک مرتبہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول کی اقتدا کی اور ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کی اور دونوں متعدد واقعات ہیں۔ھذا من عندی اللہ اعلم بالصواب۔
(۲) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ: غزوہ تبوک کے موقعہ پر اللہ کے رسول ﷺ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں نماز ادا کی ،اللہ کے رسول ﷺ اپنی کسی حاجت کے لئے کہیں دور نکل گئے اور آنے میں تاخیر ہوئی تو لوگوں نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے آگے بڑھا دیا (سیدنا) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو (امام بن کر) نماز پڑھا رہے تھے،وہ ایک رکعت پڑھا چکے تھے کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے،جب عبدالرحمن ؓ کو احساس ہوا کہ نبی ﷺ آ گئے ہیں تو مصلی ءِ امامت سے پیچھے ہٹنا شروع کیا،آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو،پس انہوں نے نماز پڑھائی، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
‘‘فلما سلّم قام النبی وقمت فرکعنا الرکعۃ التي سبقتنا’’ پھر جب (عبدالرحمن بن عوف ؓ نے)سلام پھیرا تو نبی ﷺ اور میں کھڑے ہو گئے ۔ ہماری جو رکعت رہ گئی تھی وہ پڑھی [پھر سلام پھیرا ](صحیح مسلم:۸۱ ؍۲۷۴/۶۳۳)
یہ دو وہ خوش نصیب اشخاص ہیں جن کی اقتداءمیں نبی اکرم ﷺ نے نماز ادا کی۔ھذا من عندی ا للہ اعلم بالصواب



 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
میرے ذاتی گروپ صراط مستقیم میں ایک سوال آیا کہ کیا اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے اصحاب میں سے کسی کے پیچھے نماز ادا کی ہے؟
الجواب بعون اللہ الوہاب : اللہ کے رسول ﷺ پر جب سے نماز فرض ہوئی صحابہ کرام آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے رہے ،آپ کی حیات مبارکہ میں کچھ حالات و واقعات ایسے بھی ہوئے کے آپ کو اپنے اصحاب میں سے بعض کے پیچھے نماز پڑھنا پڑا ،آپ نے جن کی اقتداءمیں نماز ادا کی ان خوش نصیب افراد کی تعداد دو ہیں (1) ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ (2) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ ۔
ذیل میں ہم ان دلائل کا تذکرہ رہے ہیں جو مذکورہ باتوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔
(1) ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ : اللہ کے رسول ﷺ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں نماز ادا کی اس امر میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف ہےکہ کیا آپ نے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی ہی نہیں ،اور اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہیکہ دلائل اثبات و نفی دونوں پہلووں کی حمایت میں ہیں،لہذا ہم یہاں اثبات و نفی دونوں دلائل کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
اثبات :
(1) پہلی حدیث :
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ قَاعِدًا ۔ترجمہ :ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔(جامع الترمذی /حدیث نمبر : 362/حدیث صحیح ہے)
(2) عن أنس بن مالك : " آخر صلاة صلاها رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مع القوم في ثوب واحد , متوشحاً خلف أبي بكر۔ترجمہ :انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی حیات میں جو آخری نماز صحابہ کے ساتھ ادا کی،وہ آپ نے ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے ادا کی۔(صحیح سنن نسائی /حدیث نمبر : 784)
ان دونوں احادیث کے علاوہ بھی کئی صحیح روایتیں ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ کی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں نماز کی ادائیگی پر دلالت کرتی ہیں۔
نفی :
(1)‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاَةِ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رضى الله عنه‏.‏۔ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء۔(صحیح بخاری/713)
تطبیق : ان تمام احادیث کو سامنے رکھنے پر اس بات کی وضاحت ہوتی ہیکہ اثبات والی روایتیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت میں نبی اکرم ﷺ کی نماز کی طرف اشارہ کرتی ہیں،جبکہ کے نفی والی رویت میں یہ مذکور ہیکہ اللہ کے نبی کی اقتداءابو بکر رضی اللہ عنہ کررہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداءکررہے تھے۔
مذکورہ تضاد کو دور کرنے کے لئے حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ اورحافظ ابن کثیرؒ کا قول ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں جس کوحافظ ابن کثیر ؒ نے امام شافعی ؒ اور دیگر ائمہ سے نقل کیا ہیکہ ایک مرتبہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول کی اقتدا کی اور ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کی اور دونوں متعدد واقعات ہیں۔ھذا من عندی اللہ اعلم بالصواب۔
(۲) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ: غزوہ تبوک کے موقعہ پر اللہ کے رسول ﷺ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں نماز ادا کی ،اللہ کے رسول ﷺ اپنی کسی حاجت کے لئے کہیں دور نکل گئے اور آنے میں تاخیر ہوئی تو لوگوں نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے آگے بڑھا دیا (سیدنا) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو (امام بن کر) نماز پڑھا رہے تھے،وہ ایک رکعت پڑھا چکے تھے کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے،جب عبدالرحمن ؓ کو احساس ہوا کہ نبی ﷺ آ گئے ہیں تو مصلی ءِ امامت سے پیچھے ہٹنا شروع کیا،آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو،پس انہوں نے نماز پڑھائی، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
‘‘فلما سلّم قام النبی وقمت فرکعنا الرکعۃ التي سبقتنا’’ پھر جب (عبدالرحمن بن عوف ؓ نے)سلام پھیرا تو نبی ﷺ اور میں کھڑے ہو گئے ۔ ہماری جو رکعت رہ گئی تھی وہ پڑھی [پھر سلام پھیرا ](صحیح مسلم:۸۱ ؍۲۷۴/۶۳۳)
یہ دو وہ خوش نصیب اشخاص ہیں جن کی اقتداءمیں نبی اکرم ﷺ نے نماز ادا کی۔ھذا من عندی ا للہ اعلم بالصواب



جزاک اللہ
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اللہ آپ کو بھی جزائے خیر دے میرے بھائی
@ عمران احمدسلفی بھائی
السلام علیکم

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے سہارے تشریف لائے ۔ تو کیا وہ دو صحابی جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کر رہے تھے۔؟
 
Top