• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ گمراہ کرتا ہے؟

حمزہ

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2014
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
28
کیا اللہ گمراہ کرتا ہے؟

عیسائی مشنری ہر ممکن کوشش کر تی ہے کہ قرآن کی متشابہات آیات سے کسی طرح یہ ثابت کیا جا سکے کہ خدا خود لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی آیات پیش کرتے ہیں۔ آئیں ذرا ان کے اعتراضات کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں۔
معترضین عموماً تین قسم کی آیات پیش کرتے ہیں۔
1) وہ آیات جو بتاتی ہیں اللہ جسے چاہے اسے ہدایت دیتا اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے۔
2) وہ آیات جن میں عربی کا لفظ غَّی یا غَوَا آیا ہو۔
3)وہ آیات جن میں اللہ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے لوگوں کے دل سیل کر دیا یا مہر کر دیا۔
ذیل میں ہم ان تینوں قسم کی آیات کو ایک ایک کر سمجھتے ہیں مگر اس سے پہلے قران مجید کی روشنی میں لفظ ”ہدایت“ کا معنی اور مفہوم کو دیکھتے ہیں ۔

ہدایت کا مطلب
ہدایت کا مطلب ہوتا ہے رہنمائی، رہبری، راہ دکھانا، سیدھا راستہ، بتانا۔ قرآن مجید ہدایت کو تین درجات میں تقسیم کرتا ہے اور مخصوص قسم کی ہدایت کو مخصوص درجہ(Level) کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
پہلے درجہ کی ہدایت عالمگیری ہے اور یہ ہر شہ کے لیے ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قال ربنا الذي اعطى کل شيء خلقه ثم هدى (طہ:50)کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی خلقت عطا کی ‘ پھر ہدایت دی۔(20سورہ طہ 50)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر شہ کو ایک مخصوص شکل بخشی اور پھر ان چیزوں کو ان کے کردار کے مطابق ہدایت بخشی گئی۔ ہدایت کی یہ قسم انسان، جِن، جانور، پودوں اور باقی سب تخلیقات کے لیے ہے۔
دوسرے درجہ کی ہدایت انسانوں اور جنات کے لیے مخصوص ہے۔ اس قسم کی مدد سے لیے گئے کاموں کے وہ دونوں بروز قیامت جوابدہ ہوں گے۔ یہ ہدایت ہمیشہ سے موجود ہے اور جن و انس میں سے ہر کوئی آزاد ہے چاہے اسکو پہچان کر اس سے کام لے یا اس کو مسترد کر دے۔ ارشاد ربانی ہے:
و نفس و ما سوىها (7) فالهمها فجورها و تقوىها (8) قد افلح من زکىها (9) و قد خاب من دسىها (10)قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔(91سورہ الشمس7-10)

تیسرے درجے کی ہدایت جن و انس میں سے ان کے لیے ہے جنہوں نے سچائی کے پیغام کو بغور سنا۔ یہ ہدایت انھیں سچائی کو پہچاننے میں مزید مدد کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
و الذين اهتدوا زادهم هدى و اتىهم تقوىهم (17)وہ لوگ جنھوں نے ہدایت قبول کی اس نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کر دیا (47سورہ محمد:17)
تو جب اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت نہیں بخشتا تو اس سے مراد صرف یہ تیسری درجے کی ہدایت ہوتی ہے اور یہ اللہ صرف اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ لوگ ان شرائط پر عمل پیرا نہیں ہوتے یا اس کی خواہش نہیں رکھتے جو اس ہدایت کو پا لینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

جس کو اللہ چاہتا ہے اس کو اللہ ہدایت دیتا ہے کا مطلب
ایک چیز کو سمجھ لیا جائے کہ کوئی بھی قرآنی آیت قرآن کی باقی آیات اور احادیث کی روشنی میں ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ قرآن مجید میں کچھ آیات ہیں جن میں خدا کا فرمان ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ چھوڑ دیتا ہے، مثلاً
... فيضل الله من يشاء و يهدي من يشاء و هو العزيز الحکيم (4)پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔(14سورہ ابراہیم:4)

بندے کے پاس اختیار ہے

قرآن مجید کی دوسری مختلف آیات اس بات کی تشریح کرتی ہیں کہ اللہ نے حق اور باطل میں ایک تفریق کر دی ہے اور حق و باطل کو بالکل نمایاں اور واضح کر دیا ہے۔ اب یہ بندے کی اپنی خواہش ہے وہ حق کو پسند کرتا ہے یا اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جیسے پہلے بھی بیان ہوا:
و نفس و ما سوىها (7) فالهمها فجورها و تقوىها (8) قد افلح من زکىها (9) و قد خاب من دسىها (10)” قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا(91الشمس7-10) ۔ و قل الحق من ربکم فمن شاء فليؤمن و من شاء فليکفر انا اعتدنا للظلمين نارا احاط بهم سرادقها...(29)اور ان سے کہہ دو کہ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے(آ چکا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کرے ہم نے یقیناً تیار کر رکھی ہے ظالموں کے لئے ایک ایسی ہولناک آگ، جس کی لپیٹوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔(18الکھف29)

وہ جنہیں اللہ ہدایت دیتا ہے
... و يهدي اليه من اناب (27)اور وہ جو اس کی طرف رجوع کریں انھیں(اللہ) ہدایت دہ دیتا ہے(13الرعد:27)۔ و الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا و ان الله لمع المحسنين (69)اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے(29العنکبوت:69)... الله يجتبي اليه من يشاء و يهدي اليه من ينيب (13)اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے(ہدایت دے دیتا ہے)(42الشورٰی:13)

وہ جنہیں خدا گمراہ کرتا ہے۔

اسی طرح اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کس کو گمراہ چھوڑتا ہے۔
... و ما يضل به الا الفسقين (26)اور اس(سیدھے راستے سے اللہ) گمراہ نہیں کرتا سوائے نافرمانوں کے(2البقرہ 26) ...و يضل الله الظلمين و يفعل الله ما يشاء (27)اور اللہ نافرمانوں (ظالموں)پر راہ گم کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے(14ابراہیم:27)

اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟

اب سوال پیدا ہوتا ہے اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب اللہ بہت کھول کر اور واضح طور پر بتاتا ہے:
و من يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى و يتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى و نصله جهنم و ساءت مصيرا (115)
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور(کسی دوسرے) راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(4النساء:115)
اللہ نے اپنے نشانوں سے یہ بات بالکل واضح کر چکی ہے وہ لوگ جو جو حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کی طرف رجوع کریں گے ان کو اللہ ہدایت دے گا(تیسرے درجے کی ہدایت) اور جو حق کے ظاہر ہو جانے کے باوجود باطل اور برائی کی طرف رجوع کریں گے اللہ ان کو ان کے پسندیدہ راستے کی طرف چھوڑ دیتا ہے(جو گمراہی کے راستے ہیں) تو ایسے لوگوں کو اللہ سزا دینے میں بھی حق بجانب ہے کیونکہ انہوں نے حق کے ان پر ظاہر ہو جانے کے بعد اس کو تسلیم نہ کیا۔

اللہ گمراہ کرتا ہے والی آیت کا مطلب
(یغویکم)
مشنری بعض اوقات سورہ ھود کو آیت نمبر 34 بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ امت نوح علیہ السلام کے لوگوں کے متعلق ہے۔
و لا ينفعکم نصحي ان اردت ان انصح لکم ان کان الله يريد ان يغويکم هو ربکم و اليه ترجعون (34)اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے(11ھود34)
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ نوح علیہ السلام یہ بات اس وقت کہہ رہے ہیں جب ان کی قوم ساری حدیں پار کر چکی تھی بلکہ اس عذاب کا مطالبہ کر رہی تھی جس سے ان کو پہلے ہی ڈرایا جا چکا تھا تو یہاں اللہ اپنا طریقہ اختیار کرتا ہے اور ایسے ظالموں کو ان کے ہی پسندیدہ راستوں پر مقرر کر دیتا ہے جو انہوں نے حق کو چھوڑ کر پسند کیے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا۔ اور عین ممکن ہے یہ بات اس وقت کہی جا رہی ہے جب قوم نوح سزا دیے جانے کے قریب تھے کیونکہ یہی لفظ سزا اور تباہی کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہم پڑھتے ہیں فخلف من بعدهم خلف اضاعوا الصلوة و اتبعوا الشهوت فسوف يلقون غيا (59)پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی۔(19مریم59)
کچھ لوگ الاعراف16 اور الحجر39 کو بھی اس سلسلہ میں پیش کرتے ہیں
قال فبما اغويتني لاقعدن لهم صراطک المستقيم (16)(شیطان نے )کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا(7الاعراف 16)۔ قال رب بما اغويتني لازينن لهم في الارض و لاغوينهم اجمعين (39)اس(شیطان) نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔(15الحجر39)
مگر ہر عاقل شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ الفاظ شیطان کے ہیں جو اپنے شیطانی عزائم کا اظہار کر رہا ہے ان آیات کو اپنے معنوں میں صرف شیطانی روحیں ہی استعمال کرنے کی کوشش کر سکتیں ہیں!

دلوں پر مہر کرنے کا مطلب

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ خود کہتا ہے کہ وہ خود کافروں کے دلوں پر مہر کرتا ہے تو ان کافروں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ کہنے کی اصلی وجہ پورے معاملے کو نہ سمجھنا ہے۔ اللہ صرف ان کافروں کے دل مہر کرتا ہے جو انتہائی ضد و کینہ کے ساتھ حق کے پیغام کو مسترد کر دیتے ہیں اور ان کے جو ہدایت کی دوسری قسم (جو کہ ہر ایک کے لیے ہے اور جسے پانے کے لیے صرف اپنی خواہش درکار ہوتی ہے) کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن میں جب دیکھتے کہ اللہ کسی کہ دلوں کو مہر کرنے کا کہتا ہے تو اس سے مراد صرف وہ کافر ہوتے ہیں جو انتہائی بیہودگی سے حق کو مسترد کیے دیتے ہیں اور بجانب حق کوئی رجوع، خواہش نہیں رکھتے۔ البقرہ آیت نمبر 7، النساء آیت نمبر 168 اور سورہ نحل آیت نمبر 106 و 109 اس کی واضح مثالیں ہیں۔

خلاصہ:

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی اپنی نشانیوں سے سب کو ہدایت دکھاتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبر بھیجتا ہے جو خدا کا پیغام لے کر آتے ہیں اور وہ اس کے ذریعہ سے حق اور باطل کو بالکل واضح کر وا دیتا ہے۔ اس کے بعد جو شخص حق کو پہچاننے کی خواہش رکھتا ہے( ظاہر کرتا/ کوشش کرتا ہے) تو اللہ اس پر ہدایت کھول دیتا ہے۔ اور جو اس کے برخلاف بالکل گمراہ کیے جاتے ہیں وہ وہ لوگ ہیں جو باطل کی طرف رجوع کرتے ہوے حق کو چھوڑ دیتے ہیں اور جو اس گمراہی پر بضد ہو جاتے ہیں اللہ ان کے دلوں کو مہر کر دیتا ہے۔

عیسائی معترضین ذرا اپنے گھر کی خبر لیں!

عیسائی اس قسم کی باتیں قرآن کی متعلق کہتے ہوے اپنے گھر کو بھول جاتے ہیں کہ یہی بات بائبل پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ بائبل کم و بیش چھ جگہوں پر کہتی ہے کہ خدا نے فرعون کے دل کو پتھر بنا دیا اور اس نے بنی اسرائیل کو خدا کی مرضی کے خلاف ہجرت نہ کرنے دی:
”جس وقت موسٰی مصر کی واپسی کے سفر پر تھے تو خداوند نے اُن سے کہا، “جب تم مصر وا پس جا تے ہو تو ان تمام معجزوں کو اسے دکھانا جس کو دکھانے کی طاقت میں نے تمہیں دی ہے۔ لیکن فرعون کو میں بہت ضدّی بنا دوں گا وہ لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں دے گا۔“(خروج4:21) یہی بات خروج 7:3، 10:1، 10:20 اور 10:27 میں بھی نقل ہوئی ہے۔ دیکھو اللہ کس طرح ایک بہت بڑے گناہگار شخص کا دل پتھر کر دیا۔ اب وہ جو قرآن مجید کے خلاف بولتے ہیں وہ بائبل کے متعلق کیا کہیں گے؟

خدا نے بنی اسرائیل کو سمجھنے کی توفیق نہیں دی...؟

حاسد عیسائی جو اسلام کے خلاف ہر وقت گند اگلتے رہتے ہیں ان کے لیے ایک دلچسپ بات ملاحظہ ہو:
”لیکن آج بھی تم نہیں سمجھتے کہ کیا ہوا خداوند نے سچ مُچ تم کو جو تم نے دیکھا اور سُنا اسے سمجھنے کی توفیق نہیں دی۔“(استثناء 29:4)
”خدا نے انہیں اندھا اور انکے دلوں کو سخت کر دیا۔ اس لئے اس نے ایسا کیا تا کہ وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں اور نہ دل سے سمجھیں اور میری طرف رجوع ہوں۔ تا کہ میں انہیں شفاء دوں۔“(یوحنا 12:40)
”جیسا لکھا ہے کہ : خدا نے انہیں ایک سست روح دی”“ایسی آنکھیں دیں جو دیکھ نہیں سکتی تھیں، اور ایسے کان دیئے جو سن نہیں سکتے تھے اور ٹھیک یہی حالت آج تک بنی ہو ئی ہے۔“(رومیوں11:8)

خدا پیغمبروں کو بھی غلط راہ دکھاتا ہے...؟

بہت سارے عیسائی الاعراف16 اور الحجر39 کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ اللہ نے شیطان کو گمراہ کیا... مگر بائبل تو یہاں تک کہتی ہے کہ خدا نے اپنے چنے ہوے پیغمبروں کو گمراہ کر دیا:
”اے خداوند تو ہم لوگوں کو اپنے راستے سے کیوں بھٹکنے دیتا ہے؟ تو ہم لوگوں کے دلوں کو کیوں سخت کر تا ہے تا کہ ہم لوگ تیرا احترام نہ کریں؟
اے خداوند! ہم لوگو ں کی طرف لوٹ آ۔ ہم لوگ تیرے غلام ہیں۔ ہمارے پاس آؤ اور ہم لوگو ں کی مدد کر۔ ہم لوگوں کا قبیلہ تجھ سے ہی وابستہ ہے۔“(یسعیاہ63:17)
” اگر کوئی نبی ایک بات بولنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے تو میں خدا وند نے اس نبی کو بولنے کے لئے آمادہ کیا۔ میں اپنی طاقت اسکے خلاف استعمال کروں گا۔ میں اسے فنا کروں گا اور اپنے لوگوں، اسرائیل سے اسے نکال باہر کروں گا۔“(حزقی ایل 14:9)
عیسائی مشنری کا اس متعلق کیا کہنا ہے؟
یاد رکھیں! حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا تھا” تب ہی تم سچا ئی کو جان لو گے اور یہ سچا ئی ہی تمہیں آزاد کریگی۔ “(یوحنا8:32)

تحریر: وقار اکبر چیمہ صاحب (In English)
 
Top