محمد مزمل سلفی
رکن
- شمولیت
- نومبر 11، 2013
- پیغامات
- 79
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 63
آفتاب صاحب ہماری معلومات میں اضافے کے لیے ایک سوال کا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ احناف عقیدے میں امام ابو حنیفہ کو اپنا امام کیوں نہیں مانتے؟
لنک
آفتاب صاحب ہماری معلومات میں اضافے کے لیے ایک سوال کا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ احناف عقیدے میں امام ابو حنیفہ کو اپنا امام کیوں نہیں مانتے؟
مولانا سعید احمد پالن پوری کی ایک تقریر کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :السلام علیکم و رحمۃ اللہ
یہاں دو سوال جاری ہیں۔ ایک یہ کہ ابو حنیفہ رح کے طریقے پر کون ہے اور دوسرا یہ کہ احناف عقیدے میں اشعری یا ماتریدی کیوں ہیں حنفی کیوں نہیں
ابو حنیفہ رح کے اصول پر مبنی فقہ پر دونوں فریق عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتے ہیں البتہ بعض جگہ قطع نظر حق و باطل کے اپنی اپنی تحقیق کے مطابق اختلاف رائے بھی رکھتے ہیں۔ اس کی مثال دیو بندیوں میں امرءۃ مفقود کا مسئلہ ہے۔
عقائد کی بنیاد چونکہ دلائل قطعیہ پر ہوتی ہے اس لیے اس میں تقلید نہیں کی جاتی نہ ابو حنیفہ کی اور ابو الحسن اشعری یا ابو منصور ماتریدی رحمہم اللہ کی۔ تو پھر ان کی طرف نسبت کا کیا مطلب ہے؟
ایک زمانے میں جب معتزلہ کے خلق قرآن اور اس قسم کے دیگر فتنے پیدا ہوئے جو صرف تعبیر کے فرق سے وجود میں آئے تھے تو اس دور میں ان دو بزرگوں نے الفاظ و ضمنی عقائد کی درست تعبیریں کیں تو اس وجہ سے ان کی اتباع ان تعبیرات میں کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالی پر اصلح للعباد لازم ہے یا نہیں؟ تو معتزلہ نے کہا کہ اصلح للعباد لازم ہے۔ اشعری رح نے اس کی تردید کی۔ ان کی بیان کردہ تعبیر کو اشاعرہ مانتے ہیں ورنہ اس عقیدے کے باوجود بھی معتزلہ کو کافر نہیں کہا گیا تھا۔
یہ ایسے عقائد ہیں کہ اگر کوئی ان میں نہ پڑے تو اس کے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر پڑے لیکن حد کے اندر رہے تب بھی علمائے امت نے اسے مسلمان ہی قرار دیا ہے۔ اس کی مثال صاحب تفسیر کشاف زمخشری رح ہیں۔ لیکن وقتی ضرورت کے تحت ان بزرگوں کو مخالفین کی باطل تعبیرات و تاویلات کا توڑ انہی کے انداز میں کرنا پڑا اور پھر انہی کی نسبت سے اشعری اور ماتریدی کہلائے۔
موجودہ دور میں چونکہ ان ابحاث کی ضرورت نہیں رہی ہے اس وجہ سے انہیں چھیڑا بھی نہیں جاتا بس ایک علم کے طور پر پڑھ لیا جاتا ہے۔
واللہ اعلم
مولانا سعید احمد پالن پوری کی ایک تقریر کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’عقائد میں برحق تین فرقے ہیں: اشاعرہ، ماتریدیہ اور امام احمد رحمہ اللہ تک کے سلفی، آج کے یہ سلفی نہیں، یہ تو امام احمد کے بعد غلو کرنے والے سلفی ہیں، یہی تین جماعتیں برحق ہیں، ان کے علاوہ سب گمراہ ہیں۔
اور فقہ میں چار جماعتیں برحق ہیں: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی: پس جب دونوں طرف سے حق پرجمع ہونگے تو مکمل برحق ہوں گے، عقائد میں اشعری ، ماتریدی یا سلفی ہوں، اور فقہ میں حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی ہوں تو وہ مکمل طور پر برحق ہیں، اور اگر ایک سلسلہ سے برحق ہے اور دوسرے سلسلہ سے گمراہ تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے۔ مثلاً: عقائد میں تینوں میں سے کچھ نہیں اور فقہ میں چار میں سے ایک ہے، جیسے علامہ جار اللہ زمخشری عقائد میں معتزلی تھے، اور فقہ میں حنفی، پس وہ کریلا نیم چڑھاتھے، اسی طرح ہندوستان کے وہ سلفی( غیر مقلد) جو سعودیہ میں پیٹرول نکلنے سے پہلے اشعری تھے اور فقہ میں ظاہری تھے: وہ برحق نہیں ، وہ بھی کریلا نیم چڑھا ہیں۔‘‘
ان الفاظ کی ذمہ داری اور تحقیق مولانا کے ہی ذمہ۔ وہ اپنی رائے پر دلائل رکھتے ہوں گے شاید لیکن مجھے علم نہیں۔
جہاں تک تحقیقی اور علمی بات تھی وہ میں نے ذکر کر دی۔
بہت بہتر ۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے ۔ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ میں اپنی جان چھڑا رہا ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو میری اور میرے اساتذہ کی رائے نہیں اس کا میں دفاع کیوں کروں؟
میرے اساتذہ کرام حضرت مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ، شیخ سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم اور مفتی رشید احمد لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے براہ راست شاگرد ہیں لیکن وہ کوئی مشہور شخصیات نہیں ہیں جنہیں ان کے نام سے جانا جاتا ہو الا یہ کہ کچھ لوگوں کےحلقے میں۔بہت بہتر ۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے ۔
میرے خیال میں آپ کے تعارف پر مشتمل دھاگے میں اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں ۔ اگر آپ اپنے محترم اساتذہ کرام کا مختصر تعارف کروادیں تو بہت بہتر رہے گا ۔