• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام الشافعی نے کہا وہ رافضی ہیں ؟

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
کیا امام الشافعی نے کہا وہ رافضی ہیں ؟


کتاب مناقب الشافعي للبيهقي میں اس کی سند ہے

أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزّكِّي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث، حدثنا الربيع قال:

أنشدنا الشافعي رضي الله عنه:

يا راكباً قِف بالمُحَصَّبِ من مِنى … واهتف بقاعد خِيفها والناهِض
سَحَراً إذا فاض الحجيجُ إلى مِنى … فَيضاً كمُلْتَطم الفُرَاتِ الفائض
إن كان رَفْضاً حبُّ آلِ محمدٍ … فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي


اگر ال محمد سے محبت رفض ہے تو ثقلان گواہ ہیں میں رافضی ہوں


اس کی سند میں محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي ہے جس پر دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ

قال السهمى: سألت الدارقطني عنه، فقال: آية من آيات الله، وضع ذاك الكتاب – يعنى العلويات.


الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے جس نے اس کتاب کو گھڑا یعنی العلویات


یعنی اس نے علی کی منقبت میں روایات اور اشعار گھڑے

ابن عدی کہتے ہیں حمله شدة تشيعه اس پر شیعیت کا حملہ ہے

کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی کہتے ہیں

محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي: بمصر، شيعي جلد، اتهمه ابن عدي مصری کھلا شیعہ ہے

یعنی یہ اشعار امام الشافعی پر جھوٹ گھڑا کیا گیا ہے


کتاب طبقات الشافعيين از ابن کثیر کے مطابق سند ہے

وقال الحافظ أبو القاسم ابن عساكر: أخبرنا أبو الحسن الموازيني، قراءة عليه، عن أبي عبد الله القضاعي، قال: قرأت على أبي عبد الله محمد بن أحمد بن محمد، حدثنا الحسين بن علي بن محمد بن إسحاق الحلبي، حدثني جدي محمد وأحمد ابنا إسحاق بن محمد، قالا: سمعنا جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،


اس سند میں جعفر بن محمد مجھول ہے

کتاب تاریخ الدمشق میں إسماعيل بن علي بن الحسين ابن بندار بن المثنى أبو سعد الاستراباذي الواعظ کے ترجمہ میں ابن عساکر لکھتے ہیں

قال الخطيب: ولم يكن موثوقاً في الرواية.
وأنشد، بسنده عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي: من الكامل؟ يا راكباً قف بالمحصب من منى واهتف بقاطن خيفها والناهض
سحراً إذا فاض الحجيج إلى منى … فيضاً كملتطم الفرات الفائض
إن كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي قال حمد الرهاوي: لما ظهر لأصحابنا كذب إسماعيل بن المثنى أحضروا جميع ما كتبوا عنه وشققوه ورموا به بين يديه


خطیب بغدادی نے کہا یہ روایت میں موثق نہیں ہے اور شعر عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي کی سند سے بتائے … ان كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي

حمد الرهاوي نے کہا کہ جب إسماعيل بن المثنى الاستراباذي کا یہ کذب ظاہر ہوا ہم نے جو لکھا اس کو جمع کیا اور اپنے سامنے مٹایا


تاریخ الاسلام میں امام الذھبی نے اس کی سند دی ہے

قَالَ الحاكم: أخبرني الزُّبَيْر بن عبد الواحد الحافظ، قال: أخبرنا أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري، قال: حدثنا الربيع بْن سليمان قَالَ: حَجَجْنا مَعَ الشّافعيّ، فما ارتقى شُرُفًا، ولا هبط واديًا، إلّا وهو يبكي وينشد:
يا راكبًا قفْ بالمُحَصَّبِ من منى … واهتف بقاعد خيفنا والنّاهضِ
سَحَرًا إذا فاض الحَجيجُ إلى مِنَى … فَيْضًا كمُلْتَطَم الفُرات الفائضِ
إنّ كَانَ رفضًا حُبُّ آلِ محمّدٍ … فلْيَشْهَد الثَّقَلان أنّي رافضي


اس کی سند میں أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري لا معلوم ہے

اس کی اسناد میں کوئی بھی ثابت نہیں ہے

رفض کا مطلب علی رضی الله عنہ کو ابی بکر اور عمر رضی الله عنہم سے ایسا بلند کرنا ہے جو شیخین کی تنقیص بنے یہ امام الشافعی نے کبھی بھی نہیں کیا- رفض کا تعلق حب اہل بیت سے ہے ہی نہیں-

جبکہ امام الشافعی کا قول تو یہ ہے-

قَالَ البُوَيْطِيُّ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ: أُصَلِّي خَلْفَ الرَّافِضِيِّ؟ قَالَ: لاَ تُصَلِّ خَلْفَ الرَّافِضِيِّ


کیا رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لیں کہا نہیں پڑھو


الكتاب: الإمام الشافعي وموقفه من الرافضة

المؤلف: أبو عبد البر محمد كاوا

کچھ لوگوں کا اعترض ہوتا ہے کہ امام حاکم کو بھی رافضی کہا گیا - تو اس کا جواب یہ ہے کہ

امام حاکم کو رافضی کہا گیا کیونکہ انہوں نے عجیب روایات اپنی کتاب مستدرک میں شامل کیں اور اس کی وجہ ان کی دماغی حالت تھی

ابن حجر لسان الميزان مين کہتے ہیں

والحاكم أجل قدرا وأعظم خطرا وأكبر ذكرا من أن يذكر في الضعفاء لكن قيل في الأعتذار عنه أنه عند تصنيفه للمستدرك كان في أواخر عمره وذكر بعضهم أنه حصل له تغير وغفلة في آخر عمره


حاکم پر آخری عمر میں تغیر ہوا اور غفلت آئی

متقدمین کی جو کتابیں ہم تک آئی ہیں وہ سند سے ہی آئیں ہیں جس میں ناقل سے لے کر مولف تک سند ہوتی ہے اور اس بنیاد پر اس کتاب کو اس عالم سے ثابت مانا جاتا ہے یہ بات تمام اہل علم جانتے ہیں اب اس دیوان کو دیکھیں اس کی کوئی سند نہیں ہے لہذا یہ ثابت نہیں

صالح المنجد کی بھی اس منسوب دیوان کے بارے ،میں یہی رائے ہے


فلو كان عنده عن الشافعي – وهو من أعلم الناس به وبنصوصه – لرواه عنه .
وأما ما يسمى بـ “ديوان الشافعي” ففيه كثير من الشعر المنحول عليه ، والذي لا تصح نسبته
للإمام رحمه الله ، بل فيها كثير من الأقوال المخالفة التي يتنزه الإمام عن مثلها .


اگر یہ شافعی کے اشعار ہوتے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ نص کو جانتے تھے اور جہاں تک اس دیوان کا تعلق ہے تو اس میں اکثر اشعار ان پر ڈالے گئے ہیں اور اس کی نسبت ان سے صحیح نہیں بلکہ بہت سے ان کے اقوال کے خلاف ہیں-

حوالہ
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
الحمدللہ
محمد بن عبد الله الضبي النيسابوري الحاكم، أبو عبد الله
رافضی نہیں ہیں
7804 -[صح] محمد بن عبد الله الضبي النيسابوري الحاكم، أبو عبد الله الحافظ، صاحب التصانيف. إمام صدوق، لكنه يصحح في مستدركه أحاديث ساقطة، ويكثر من ذلك، فما أدرى هل خفيت عليه فما هو ممن يجهل ذلك، وإن علم فهذه خيانة عظيمة، ثم هو شيعي مشهور بذلك من غير تعرض للشيخين. وقد قال ابن طاهر: سألت أبا إسماعيل عبد الله الأنصاري عن الحاكم أبي عبد الله، فقال: إمام في الحديث رافضي خبيث. قلت: الله يحب الانصاف، ما الرجل برافضى، بل شيعي فقط. ومن شقاشقه قوله: أجمعت الأمة أن الضبي (1) كذاب، وقوله: إن المصطفى صلى الله عليه وسلم ولد مسرورا مختونا قد تواتر هذا. وقوله: إن عليا وصى. فأما صدقه في نفسه ومعرفته بهذا الشأن فأمر مجمع عليه. مات سنة خمس وأربعمائة.
یہ حافظ الحدیث ہے اور صاحب تصانیف ہے اور امام اور ”صدوق" ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی احادیث کو صحیح قرار دیا ہے جوساقط الاعتبار ہیں اور ایسی روایات کافی ساری ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا یہ بات ان سے کی مخفی رہی تھی کیونکہ کون شخص ہے جو اس سے ناواقف ہواور اگر انہیں اس بات کا پتا تھا تو پھر یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ پھروہ مشہور شیعہ میں ہے البتہ وہ شیخین سے تعرض نہیں کرتے (نئی حضرت ابوبکراورعمرکی شان میں گستاخی نہیں کرتے)۔ ابن طاہر کہتے ہیں: میں نے ابواسماعیل عبداللہ انصاری سے حاکم ابوعبد اللہ کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بولے: وہ حدیث میں امام ہے اور رافضی اور خبیث ہے۔ (امام ذہبی فرماتے ہیں:) اللہ تعالی انصاف کو پسند کرتا ہے یہ شخص رافضی نہیں تھا صرف شیعہ تھا۔ اور اس شخص نےتو انتہائی زیادتی کی ہے جس نے یہ کہا ہے: تمام اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضبی (امام حاکم) کذاب ہیں اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب پیدا ہوئے تھے تو آپ مسکرار ہے تھے اور آپ کے ختنے ہوئے تھے تو یہ چیز تواتر سے ثابت ہے اور ان کی یہ روایت کہ حضرت علیؓ کے بارے میں وصیت کی گئی تھی تو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے سچے ہیں اور علم حدیث کی معرفت میں اُن پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان کا انتقال405 ہجری میں ہوا۔
الکتاب: الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ عبارت (lovelyalltime ) کی پوسٹ سے لی گئی ہے ، وہاں بھی اس کا ترجمہ نہیں کیا گیا ، اسی لئے یہاں بھی ترجمہ سے گریز کیا گیا ہے
کیونکہ اس عربی عبارت میں امام حاکم کی زبردست تعریف بھی ہے ،
اور تغیر و غفلت کا الزام محض مجہول قائل کا ہے ، یعنی جس طرح رافضی ذاکر اور قبر پرست ( غیب سے آواز آئی ) کا جملہ بول کر کام چلاتے ہیں
اسی طرح یہاں بھی (قیل ۔ کہا گیا ) ۔۔ اور ۔۔ ذکر بعضہم ۔۔ کے ناکارہ صیغوں سے امام حاکم کے گریباں کو چاک کرنے کی ہوس ہے؛
لیکن یاد رہے ۔۔۔۔۔ ایک دن محشر بپا ہونا ہے ۔۔۔۔ اور وہاں کی صورت احوال یہ بتائی گئی ہے کہ :
يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ (9) فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ (10)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
یہ عبارت (lovelyalltime ) کی پوسٹ سے لی گئی ہے ، وہاں بھی اس کا ترجمہ نہیں کیا گیا ، اسی لئے یہاں بھی ترجمہ سے گریز کیا گیا ہے
کیونکہ اس عربی عبارت میں امام حاکم کی زبردست تعریف بھی ہے ،
اور تغیر و غفلت کا الزام محض مجہول قائل کا ہے ، یعنی جس طرح رافضی ذاکر اور قبر پرست ( غیب سے آواز آئی ) کا جملہ بول کر کام چلاتے ہیں
اسی طرح یہاں بھی (قیل ۔ کہا گیا ) ۔۔ اور ۔۔ ذکر بعضہم ۔۔ کے ناکارہ صیغوں سے امام حاکم کے گریباں کو چاک کرنے کی ہوس ہے؛
لیکن یاد رہے ۔۔۔۔۔ ایک دن محشر بپا ہونا ہے ۔۔۔۔ اور وہاں کی صورت احوال یہ بتائی گئی ہے کہ :
يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ (9) فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ (10)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
@اسحاق سلفی بھائی یہ تحریر میں نے اسلامک بیلیف کے بلاگ سے لی ہے اور اس کا لنک بھی دیا ہے - اور جو تحریر آپ نے کہا کہ یزید بن معاویہ رضی الله والے تھریڈ سے لی تو عرض ہے کہ میں نے یہ وہاں سے نہیں لی - یہ بھی اسلامک بیلیف کے سوال جواب والے سیکشن میں سے لی تھی اور اپنے پاس کاپی کر لی تھی کیوں کہ وہاں سوال جواب کچھ دنوں بعد ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے -

اگر اس کا پوراترجمہ نہیں کیا گیا تو آپ کر دیں -

اور تغیر و غفلت کا الزام محض مجہول قائل کا ہے ، یعنی جس طرح رافضی ذاکر اور قبر پرست ( غیب سے آواز آئی ) کا جملہ بول کر کام چلاتے ہیں
اسی طرح یہاں بھی (قیل ۔ کہا گیا ) ۔۔ اور ۔۔ ذکر بعضہم ۔۔ کے ناکارہ صیغوں سے امام حاکم کے گریباں کو چاک کرنے کی ہوس ہے؛

آپ نے تو ایسے لکھا کہ میں نے امام حاکم کو رافضی وغیرہ کہ دیا - بھائی وہاں اس الزام کا جواب دیا گیا - اوپر @محمد فراز بھائی نے بھی ووہی لکھا ہے -

الحمدللہ
محمد بن عبد الله الضبي النيسابوري الحاكم، أبو عبد الله
رافضی نہیں ہیں

7804 -[صح] محمد بن عبد الله الضبي النيسابوري الحاكم، أبو عبد الله الحافظ، صاحب التصانيف. إمام صدوق، لكنه يصحح في مستدركه أحاديث ساقطة، ويكثر من ذلك، فما أدرى هل خفيت عليه فما هو ممن يجهل ذلك، وإن علم فهذه خيانة عظيمة، ثم هو شيعي مشهور بذلك من غير تعرض للشيخين. وقد قال ابن طاهر: سألت أبا إسماعيل عبد الله الأنصاري عن الحاكم أبي عبد الله، فقال: إمام في الحديث رافضي خبيث. قلت: الله يحب الانصاف، ما الرجل برافضى، بل شيعي فقط. ومن شقاشقه قوله: أجمعت الأمة أن الضبي (1) كذاب، وقوله: إن المصطفى صلى الله عليه وسلم ولد مسرورا مختونا قد تواتر هذا. وقوله: إن عليا وصى. فأما صدقه في نفسه ومعرفته بهذا الشأن فأمر مجمع عليه. مات سنة خمس وأربعمائة.
[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma][/FONT]
یہ حافظ الحدیث ہے اور صاحب تصانیف ہے اور امام اور ”صدوق" ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی احادیث کو صحیح قرار دیا ہے جوساقط الاعتبار ہیں اور ایسی روایات کافی ساری ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا یہ بات ان سے کی مخفی رہی تھی کیونکہ کون شخص ہے جو اس سے ناواقف ہواور اگر انہیں اس بات کا پتا تھا تو پھر یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ پھروہ مشہور شیعہ میں ہے البتہ وہ شیخین سے تعرض نہیں کرتے (نئی حضرت ابوبکراورعمرکی شان میں گستاخی نہیں کرتے)۔ ابن طاہر کہتے ہیں: میں نے ابواسماعیل عبداللہ انصاری سے حاکم ابوعبد اللہ کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بولے: وہ حدیث میں امام ہے اور رافضی اور خبیث ہے۔ (امام ذہبی فرماتے ہیں:) اللہ تعالی انصاف کو پسند کرتا ہے یہ شخص رافضی نہیں تھا صرف شیعہ تھا۔ اور اس شخص نےتو انتہائی زیادتی کی ہے جس نے یہ کہا ہے: تمام اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضبی (امام حاکم) کذاب ہیں اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب پیدا ہوئے تھے تو آپ مسکرار ہے تھے اور آپ کے ختنے ہوئے تھے تو یہ چیز تواتر سے ثابت ہے اور ان کی یہ روایت کہ حضرت علیؓ کے بارے میں وصیت کی گئی تھی تو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے سچے ہیں اور علم حدیث کی معرفت میں اُن پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان کا انتقال405 ہجری میں ہوا۔

الکتاب: الكتاب: ميزان الاعتدال في نقد الرجال المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)

aaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaaa
کچھ لوگ امام صاحب کی اس روایت کو وسیلہ کے حوالے سے پیش کرتے ہیں

عمر بن خطاب رضی الله عنھ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا جب آدم علیھ السلام سے خطا ہوئی تو انھوں نے الله سے عرض کیا اے مالک میں تجھ سے محمد صلی الله علیھ وسلم کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں میری مغفرت فرما الله نے فرمایا تو نے محمد صلی الله علیھ وسلم کو کیسے پہچان لیا میں نے ابھی ان کو پیدا بھی نہیں کیا ہے آدم علیھ السلام نے عرض کی اے مالک جب تو نے مجھ بنایا اور جب میرے اندر روح ڈالی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر لکھا دیکھا تو میں نے سمجھ لیا کہ کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تجھے سب سے زیادھ محبوب ہے اے آدم علیھ السلام تو نے سچ کہا مجھے سب سے زیادہ وہی محبوب ہے اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے دعا کر لی ہے تو میں نے تجھے معاف کیا اگر محمد صلی الله علیھ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا.

(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٨ دلائل النبوی للبیہقی ٥/٤٨٩ ، طبرانی الکبیر رقم ٩٩٢ اوسط ٦٥٠٢ )

تحقیق : اس روایت کی تمام اسناد میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے اور جس کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
امام حاکم فرماتے ہیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے

(المدخل الی مرفہ الصحیح و السقم جلد ١ ص ١٧٠)

امام بخاری فرماتے ہیں : وہ بہت زیادہ ضعیف ہے ، ابن جوزی فرماتے ہیں : محدثین کا اجماع ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے

(تہذیب التہذیب جلد ٥ ص ٩٠ ترجمہ ٣٩٧٤ )

بعض حضرات عوام کو گمراہ کرنے کے لئے امام حاکم کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں صحیح کہا ہے مگر یہ ان کا اس دور کا قول ہے جب ان کے حفظ میں تغیر ہو گیا تھا اور انہوں نے بہت سی احادیث کو صحیح کہا تھا جبکہ وہ ضعیف تھی اور ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " امام حاکم نے آخری عمر میں مستدرک تصنیف کی تھی اور اس وجہ سے وہ غفلت کا شکار ہو گئے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اپنی "الضعفا " میں جن راویوں سے روایت لینا ترک کر دیا اور ان سے احتجاج اخذ نہیں کیا پھر ان میں سے بعض سے اپنی مستدرک میں روایات لی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے اور ان میں سے ایک عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے جس کے بارے میں انھوں نے اپنی "الضعفا" میں لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے. (لسان المیزان جلد ٦ ترجمہ ٧٦٦٦ )

حافظ ابن حجر کی وضاحت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام حاکم نے جو مستدرک میں اس حدیث کو صحیح کہا یہ وہ ان کا تغیر کے زمانے کا قول ہے جبکہ ان کے اصل اور راجع قول وہی ہے جو ہم نے اوپر نقل کیا ہے تو امام حاکم کے نزدیک بھی یہ حدیث من گھڑت ہے .

اسی وجہ سے کہا گیا کہ

حاکم پر آخری عمر میں تغیر ہوا اور غفلت آئی


اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اپنی "الضعفا " میں جن راویوں سے روایت لینا ترک کر دیا اور ان سے احتجاج اخذ نہیں کیا پھر ان میں سے بعض سے اپنی مستدرک میں روایات لی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے


آپ بات کو کہاں سے کہاں لے گیۓ -

الحمدللہ امام صاحب رافضی نہیں تھے - میں @محمد فراز بھائی سے متفق ہوں

ایک بات اور کہ محمد علی جہلمی جو اہلسنت کے لبادہ میں شیعہ کے پیج بو رہا ہے اس نے اپنے پمفلٹ میں امام حاکم کی کتاب مستدرک الحکیم کی کافی احادیث پیش کی ہیں - اور بڑے فخر سے اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے -

اس وجہ سے اگر انہوں نے کچھ ایسا لکھا ہے جس سے ان پر رافضیت کا الزام لگے تو کہا جایے گا کہ


حاکم پر آخری عمر میں تغیر ہوا اور غفلت آئی

اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اپنی "الضعفا " میں جن راویوں سے روایت لینا ترک کر دیا اور ان سے احتجاج اخذ نہیں کیا پھر ان میں سے بعض سے اپنی مستدرک میں روایات لی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے


 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
امام شافعی کا یہ قول بالکل صحیح وثابت ہے۔ جس کو اس پر شک ہے وہ علم حدیث سیکھے۔ ہوا میں تیر چلانے سے کچھ نہیں ہوتا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
الربیع بن سلیمان سے اس قول کو نقل کرنے والے:
1- محمد بن محمد بن الاشعث الکوفی
2- جعفر بن محمد بن احمد الرواس
3- ابو عمارۃ حمزۃ بن علی الجوہری

اور اس لسٹ میں ایک نام اور بھی ہے:
4- ظفر بن الداعی العلوی (مجمع الآداب فی معجم الالقاب: 3:544)

جہاں تک اس سند کا تعلق ہے:

وقال الحافظ أبو القاسم ابن عساكر: أخبرنا أبو الحسن الموازيني، قراءة عليه، عن أبي عبد الله القضاعي، قال: قرأت على أبي عبد الله محمد بن أحمد بن محمد، حدثنا الحسين بن علي بن محمد بن إسحاق الحلبي، حدثني جدي محمد وأحمد ابنا إسحاق بن محمد، قالا: سمعنا جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،

اس سند میں جعفر بن محمد مجھول ہے

تو یہ سراسر غلط فہمی ہے کہ جعفر مجہول ہے۔ کیونکہ ابن کثیر نے یہاں غلطی سے محمد لکھ دیا ہے جبکہ کتب اصول میں جعفر بن احمد ابن الرواس ہے (دیکھیں یہی سند تاریخ دمشق، طبقات الشافعیہ للسبکی وغیرہ)۔
اور جعفر بن احمد کا پورا نام ہے جعفر بن احمد بن عاصم ابو محمد الرواس الدمشقی اور انہیں امام دارقطنی نے ثقہ کہا ہے (دیکھیں تاریخ بغداد: 7:213)۔

اور اگر یہ مجہول بھی ہوتے تو چار مختلف طرق والی تو مرفوع روایت بھی مل کر کم سے کم حسن لغیرہ بن جاتی ہے، اور یہ تو پھر محض شافعی کا ایک قول ہے۔ اس کا اگر ایک طرق بھی ہوتا اور راوی مجہول بھی ہوتا تو بھی قبول کی جا سکتی تھی۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
امام شافعی کا یہ قول بالکل صحیح وثابت ہے۔ جس کو اس پر شک ہے وہ علم حدیث سیکھے۔ ہوا میں تیر چلانے سے کچھ نہیں ہوتا۔
بھائی امام صاحب کیسے اپنے آپ کو رافضی کہہ سکتے ہیں -

رفض کا مطلب علی رضی الله عنہ کو ابی بکر اور عمر رضی الله عنہم سے ایسا بلند کرنا ہے جو شیخین کی تنقیص بنے یہ امام الشافعی نے کبھی بھی نہیں کیا- رفض کا تعلق حب اہل بیت سے ہے ہی نہیں-
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
بھائی امام صاحب کیسے اپنے آپ کو رافضی کہہ سکتے ہیں -

رفض کا مطلب علی رضی الله عنہ کو ابی بکر اور عمر رضی الله عنہم سے ایسا بلند کرنا ہے جو شیخین کی تنقیص بنے یہ امام الشافعی نے کبھی بھی نہیں کیا- رفض کا تعلق حب اہل بیت سے ہے ہی نہیں-
یہ انداز کلام تو بہت عام ہے۔ امام صاحب نے اپنے آپ کو رافضی نہیں کہا بلکہ ایک الزامی جواب دیا ہے کہ اگر حق بات کہنا تمہارے نزدیک رفض ہے تو چلو ٹھیک ہے میں رافضی ہی سہی، اس کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے، اور آپ ہیں کہ اسے حقیقی معنی میں لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبار ائمہ وعلماء نے امام شافعی کے اس قول کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے کیا ان کو یہ مطلب سمجھ نہیں آیا جو آپ کو آیا ہے؟
بلکہ میں نے خود بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ: اگر بے گناہ کا دفاع کرنا گناہ ہے تو میں گناہ گار ہوں۔ اگر حق بات تسلیم کرنا تقلید ہے تو میں مقلد ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اتنی سیدھی سی بات بھی اگر آپ کو الٹی نظر آتی ہے تو اس میں امام شافعی کا کوئی قصور نہیں ہے آپ کو زبان کے قواعد سیکھنے چاہیئں۔ اور پھر جب میں نے سند بھی صحیح ثابت کر دکھائی ہے تو پھر کس بات کا انکار ہے؟
امام بیہقی کہتے ہیں: "وَإِنَّمَا قَالَ الشَّافِعِي فِي ذَلِك حِين نسبه الْخَوَارِج إِلَى الرَّفْض حسدا وبغيا" شافعی نے ایسا صرف تب کہا تھا جب خوارج نے حسد اور غصے میں انہیں رافضی کہا تھا۔ (مناقب الشافعی 2:71)

شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب النجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فجميع أهل السنة وأكثر أهل البدعة من المعتزلة والمرجئة وغيرهم يقولون كما قال الشافعي، ويقولون -أيضا- كما قال بعض العلماء:
فليشهد الثقلان أني ناصبي
إن كان نصبا حب صحب محمد
"

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی کہا ہے: "إن كان نصبا حب صحب محمد ... فليشهد الثقلان أني ناصبي" اگر محمد کے اصحاب کی محبت نصب ہے تو انس وجن گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں۔ (جلاء العینین: 342)

ابو نعیم الاصبہانی، ابو بکر السبائی سے روایت کرتے ہیں کہ: سمعت بعض، مشايخنا يحكي أن الشافعي، عابه بعض الناس؛ لفرط ميله إلى أهل البيت، وشدة محبته لهم، إلى أن نسبه إلى الرفض، فأنشأ الشافعي في ذلك يقول: « قف بالمحصب من منى فاهتف بها ... واهتف بقاعد خيفها والناهض إن كان رفضا حب آل محمد ... فليشهد الثقلان أني رافضي» میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا کہ بعض لوگوں نے شافعی کو ان کی اہل بیت سے محبت اور میل کی وجہ سے بُرا بھلا کہا اور انہیں رافضی کہنے لگے، تو شافعی نے انہیں اس طرح جواب دیا۔۔۔ (حلیۃ الاولیاء: 9:152)

امام ابن عبد البر کہتے ہیں:
"كان ينسب هذا الشعر إلى الشافعي رحمه الله فيما حدثني غير واحد من شيوخي عن أبي القاسم عبيد الله بن عمر بن أحمد الشافعي ضيف الحكم رحمه الله الساكن في الزهراء عن شيوخه قال قيل للشافعي ان فيك بعض التشيع قال وكيف قالوا ذلك لأنك تظهر حب آل محمد فقال يا قوم ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين) وقال (إن أوليائي من عترتي المتقون) فإذا كان واجبا علي أن أحب قرابتي وذوي رحمي إذا كانوا من المتقين أليس من الدين أن أحب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كانوا من المتقين لأنه كان يحب قرابته وأنشد
(يا راكبا قف بالمحصب من منى ... )"

اس شعر کو امام شافعی سے ہمارے کئی شیوخ نے نقل کیا ہے اور کہا کہ امام شافعی سے کہا گیا کہ آپ شیعی ہیں، انہوں نے پوچھا وہ کیسے، تو انہوں نے کہا: کیونکہ آپ آل محمد کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ تو شافعی نے کہا: اے لوگو کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس سے اور اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں؟۔۔۔۔ پھر انہوں نے یہ شعر کہا۔۔ (الانتقاء: 91)
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
یہ انداز کلام تو بہت عام ہے۔ امام صاحب نے اپنے آپ کو رافضی نہیں کہا بلکہ ایک الزامی جواب دیا ہے کہ اگر حق بات کہنا تمہارے نزدیک رفض ہے تو چلو ٹھیک ہے میں رافضی ہی سہی، اس کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے، اور آپ ہیں کہ اسے حقیقی معنی میں لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبار ائمہ وعلماء نے امام شافعی کے اس قول کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے کیا ان کو یہ مطلب سمجھ نہیں آیا جو آپ کو آیا ہے؟
بلکہ میں نے خود بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ: اگر بے گناہ کا دفاع کرنا گناہ ہے تو میں گناہ گار ہوں۔ اگر حق بات تسلیم کرنا تقلید ہے تو میں مقلد ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اتنی سیدھی سی بات بھی اگر آپ کو الٹی نظر آتی ہے تو اس میں امام شافعی کا کوئی قصور نہیں ہے آپ کو زبان کے قواعد سیکھنے چاہیئں۔ اور پھر جب میں نے سند بھی صحیح ثابت کر دکھائی ہے تو پھر کس بات کا انکار ہے؟
امام بیہقی کہتے ہیں: "وَإِنَّمَا قَالَ الشَّافِعِي فِي ذَلِك حِين نسبه الْخَوَارِج إِلَى الرَّفْض حسدا وبغيا" شافعی نے ایسا صرف تب کہا تھا جب خوارج نے حسد اور غصے میں انہیں رافضی کہا تھا۔ (مناقب الشافعی 2:71)

شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب النجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فجميع أهل السنة وأكثر أهل البدعة من المعتزلة والمرجئة وغيرهم يقولون كما قال الشافعي، ويقولون -أيضا- كما قال بعض العلماء:
فليشهد الثقلان أني ناصبي
إن كان نصبا حب صحب محمد
"

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی کہا ہے: "إن كان نصبا حب صحب محمد ... فليشهد الثقلان أني ناصبي" اگر محمد کے اصحاب کی محبت نصب ہے تو انس وجن گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں۔ (جلاء العینین: 342)

ابو نعیم الاصبہانی، ابو بکر السبائی سے روایت کرتے ہیں کہ: سمعت بعض، مشايخنا يحكي أن الشافعي، عابه بعض الناس؛ لفرط ميله إلى أهل البيت، وشدة محبته لهم، إلى أن نسبه إلى الرفض، فأنشأ الشافعي في ذلك يقول: « قف بالمحصب من منى فاهتف بها ... واهتف بقاعد خيفها والناهض إن كان رفضا حب آل محمد ... فليشهد الثقلان أني رافضي» میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا کہ بعض لوگوں نے شافعی کو ان کی اہل بیت سے محبت اور میل کی وجہ سے بُرا بھلا کہا اور انہیں رافضی کہنے لگے، تو شافعی نے انہیں اس طرح جواب دیا۔۔۔ (حلیۃ الاولیاء: 9:152)

امام ابن عبد البر کہتے ہیں: "كان ينسب هذا الشعر إلى الشافعي رحمه الله فيما حدثني غير واحد من شيوخي عن أبي القاسم عبيد الله بن عمر بن أحمد الشافعي ضيف الحكم رحمه الله الساكن في الزهراء عن شيوخه قال قيل للشافعي ان فيك بعض التشيع قال وكيف قالوا ذلك لأنك تظهر حب آل محمد فقال يا قوم ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين) وقال (إن أوليائي من عترتي المتقون) فإذا كان واجبا علي أن أحب قرابتي وذوي رحمي إذا كانوا من المتقين أليس من الدين أن أحب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كانوا من المتقين لأنه كان يحب قرابته وأنشد
(يا راكبا قف بالمحصب من منى ... )"
اس شعر کو امام شافعی سے ہمارے کئی شیوخ نے نقل کیا ہے اور کہا کہ امام شافعی سے کہا گیا کہ آپ شیعی ہیں، انہوں نے پوچھا وہ کیسے، تو انہوں نے کہا: کیونکہ آپ آل محمد کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ تو شافعی نے کہا: اے لوگو کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس سے اور اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں؟۔۔۔۔ پھر انہوں نے یہ شعر کہا۔۔ (الانتقاء: 91)
الله آپ کو جزایۓ خیر دے -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ انداز کلام تو بہت عام ہے۔ امام صاحب نے اپنے آپ کو رافضی نہیں کہا بلکہ ایک الزامی جواب دیا ہے کہ اگر حق بات کہنا تمہارے نزدیک رفض ہے تو چلو ٹھیک ہے میں رافضی ہی سہی، اس کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے، اور آپ ہیں کہ اسے حقیقی معنی میں لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبار ائمہ وعلماء نے امام شافعی کے اس قول کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے کیا ان کو یہ مطلب سمجھ نہیں آیا جو آپ کو آیا ہے؟
بلکہ میں نے خود بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ: اگر بے گناہ کا دفاع کرنا گناہ ہے تو میں گناہ گار ہوں۔ اگر حق بات تسلیم کرنا تقلید ہے تو میں مقلد ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اتنی سیدھی سی بات بھی اگر آپ کو الٹی نظر آتی ہے تو اس میں امام شافعی کا کوئی قصور نہیں ہے آپ کو زبان کے قواعد سیکھنے چاہیئں۔ اور پھر جب میں نے سند بھی صحیح ثابت کر دکھائی ہے تو پھر کس بات کا انکار ہے؟
امام بیہقی کہتے ہیں: "وَإِنَّمَا قَالَ الشَّافِعِي فِي ذَلِك حِين نسبه الْخَوَارِج إِلَى الرَّفْض حسدا وبغيا" شافعی نے ایسا صرف تب کہا تھا جب خوارج نے حسد اور غصے میں انہیں رافضی کہا تھا۔ (مناقب الشافعی 2:71)

شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب النجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فجميع أهل السنة وأكثر أهل البدعة من المعتزلة والمرجئة وغيرهم يقولون كما قال الشافعي، ويقولون -أيضا- كما قال بعض العلماء:
فليشهد الثقلان أني ناصبي
إن كان نصبا حب صحب محمد
"

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی کہا ہے: "إن كان نصبا حب صحب محمد ... فليشهد الثقلان أني ناصبي" اگر محمد کے اصحاب کی محبت نصب ہے تو انس وجن گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں۔ (جلاء العینین: 342)

ابو نعیم الاصبہانی، ابو بکر السبائی سے روایت کرتے ہیں کہ: سمعت بعض، مشايخنا يحكي أن الشافعي، عابه بعض الناس؛ لفرط ميله إلى أهل البيت، وشدة محبته لهم، إلى أن نسبه إلى الرفض، فأنشأ الشافعي في ذلك يقول: « قف بالمحصب من منى فاهتف بها ... واهتف بقاعد خيفها والناهض إن كان رفضا حب آل محمد ... فليشهد الثقلان أني رافضي» میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا کہ بعض لوگوں نے شافعی کو ان کی اہل بیت سے محبت اور میل کی وجہ سے بُرا بھلا کہا اور انہیں رافضی کہنے لگے، تو شافعی نے انہیں اس طرح جواب دیا۔۔۔ (حلیۃ الاولیاء: 9:152)

امام ابن عبد البر کہتے ہیں: "كان ينسب هذا الشعر إلى الشافعي رحمه الله فيما حدثني غير واحد من شيوخي عن أبي القاسم عبيد الله بن عمر بن أحمد الشافعي ضيف الحكم رحمه الله الساكن في الزهراء عن شيوخه قال قيل للشافعي ان فيك بعض التشيع قال وكيف قالوا ذلك لأنك تظهر حب آل محمد فقال يا قوم ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين) وقال (إن أوليائي من عترتي المتقون) فإذا كان واجبا علي أن أحب قرابتي وذوي رحمي إذا كانوا من المتقين أليس من الدين أن أحب قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كانوا من المتقين لأنه كان يحب قرابته وأنشد
(يا راكبا قف بالمحصب من منى ... )"
اس شعر کو امام شافعی سے ہمارے کئی شیوخ نے نقل کیا ہے اور کہا کہ امام شافعی سے کہا گیا کہ آپ شیعی ہیں، انہوں نے پوچھا وہ کیسے، تو انہوں نے کہا: کیونکہ آپ آل محمد کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ تو شافعی نے کہا: اے لوگو کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس سے اور اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں؟۔۔۔۔ پھر انہوں نے یہ شعر کہا۔۔ (الانتقاء: 91)
ماشاء اللہ ، بہترین ، اللہ مزید برکت دے ۔
اگر آل بیت سے محبت ’ رفض ‘ ہے تو میں رافضی ہوں ، کیونکہ میں اہل بیت سے محبت کرنے والا ہوں ۔ یہاں اثبات ’ محبت اہل بیت ‘ کا ہے ، نہ کہ ’ رافضیت ‘ کا ۔
 
Top