کیا امام الشافعی نے کہا وہ رافضی ہیں ؟
کتاب مناقب الشافعي للبيهقي میں اس کی سند ہے
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزّكِّي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث، حدثنا الربيع قال:
أنشدنا الشافعي رضي الله عنه:
يا راكباً قِف بالمُحَصَّبِ من مِنى … واهتف بقاعد خِيفها والناهِض
سَحَراً إذا فاض الحجيجُ إلى مِنى … فَيضاً كمُلْتَطم الفُرَاتِ الفائض
إن كان رَفْضاً حبُّ آلِ محمدٍ … فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي
اگر ال محمد سے محبت رفض ہے تو ثقلان گواہ ہیں میں رافضی ہوں
اس کی سند میں
محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي ہے جس پر دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ
قال السهمى: سألت الدارقطني عنه، فقال: آية من آيات الله، وضع ذاك الكتاب – يعنى العلويات.
الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے جس نے اس کتاب کو گھڑا یعنی العلویات
یعنی اس نے علی کی منقبت میں روایات اور اشعار گھڑے
ابن عدی کہتے ہیں
حمله شدة تشيعه اس پر شیعیت کا حملہ ہے
کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی کہتے ہیں
محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي: بمصر، شيعي جلد، اتهمه ابن عدي مصری کھلا شیعہ ہے
یعنی یہ اشعار امام الشافعی پر جھوٹ گھڑا کیا گیا ہے
کتاب
طبقات الشافعيين از ابن کثیر کے مطابق سند ہے
وقال الحافظ أبو القاسم ابن عساكر: أخبرنا أبو الحسن الموازيني، قراءة عليه، عن أبي عبد الله القضاعي، قال: قرأت على أبي عبد الله محمد بن أحمد بن محمد، حدثنا الحسين بن علي بن محمد بن إسحاق الحلبي، حدثني جدي محمد وأحمد ابنا إسحاق بن محمد، قالا: سمعنا جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،
اس سند میں
جعفر بن محمد مجھول ہے
کتاب
تاریخ الدمشق میں إسماعيل بن علي بن الحسين ابن بندار بن المثنى أبو سعد الاستراباذي الواعظ کے ترجمہ میں ابن عساکر لکھتے ہیں
قال الخطيب: ولم يكن موثوقاً في الرواية.
وأنشد، بسنده عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي: من الكامل؟ يا راكباً قف بالمحصب من منى واهتف بقاطن خيفها والناهض
سحراً إذا فاض الحجيج إلى منى … فيضاً كملتطم الفرات الفائض
إن كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي قال حمد الرهاوي: لما ظهر لأصحابنا كذب إسماعيل بن المثنى أحضروا جميع ما كتبوا عنه وشققوه ورموا به بين يديه
خطیب بغدادی نے کہا یہ روایت میں موثق نہیں ہے اور شعر عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي کی سند سے بتائے … ان كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي
حمد الرهاوي نے کہا کہ جب إسماعيل بن المثنى الاستراباذي کا یہ کذب ظاہر ہوا ہم نے جو لکھا اس کو جمع کیا اور اپنے سامنے مٹایا
تاریخ الاسلام میں امام الذھبی نے اس کی سند دی ہے
قَالَ الحاكم: أخبرني الزُّبَيْر بن عبد الواحد الحافظ، قال: أخبرنا أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري، قال: حدثنا الربيع بْن سليمان قَالَ: حَجَجْنا مَعَ الشّافعيّ، فما ارتقى شُرُفًا، ولا هبط واديًا، إلّا وهو يبكي وينشد:
يا راكبًا قفْ بالمُحَصَّبِ من منى … واهتف بقاعد خيفنا والنّاهضِ
سَحَرًا إذا فاض الحَجيجُ إلى مِنَى … فَيْضًا كمُلْتَطَم الفُرات الفائضِ
إنّ كَانَ رفضًا حُبُّ آلِ محمّدٍ … فلْيَشْهَد الثَّقَلان أنّي رافضي
اس کی سند میں
أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري لا معلوم ہے
اس کی اسناد میں کوئی بھی ثابت نہیں ہے
رفض کا مطلب علی رضی الله عنہ کو ابی بکر اور عمر رضی الله عنہم سے ایسا بلند کرنا ہے جو شیخین کی تنقیص بنے یہ امام الشافعی نے کبھی بھی نہیں کیا- رفض کا تعلق حب اہل بیت سے ہے ہی نہیں-
جبکہ امام الشافعی کا قول تو یہ ہے-
قَالَ البُوَيْطِيُّ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ: أُصَلِّي خَلْفَ الرَّافِضِيِّ؟ قَالَ: لاَ تُصَلِّ خَلْفَ الرَّافِضِيِّ
کیا رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لیں کہا نہیں پڑھو
الكتاب:
الإمام الشافعي وموقفه من الرافضة
المؤلف: أبو عبد البر محمد كاوا
کچھ لوگوں کا اعترض ہوتا ہے کہ امام حاکم کو بھی رافضی کہا گیا - تو اس کا جواب یہ ہے کہ
امام حاکم کو رافضی کہا گیا کیونکہ انہوں نے عجیب روایات اپنی کتاب مستدرک میں شامل کیں اور اس کی وجہ ان کی دماغی حالت تھی
ابن حجر
لسان الميزان مين کہتے ہیں
والحاكم أجل قدرا وأعظم خطرا وأكبر ذكرا من أن يذكر في الضعفاء لكن قيل في الأعتذار عنه أنه عند تصنيفه للمستدرك كان في أواخر عمره وذكر بعضهم أنه حصل له تغير وغفلة في آخر عمره
حاکم پر آخری عمر میں تغیر ہوا اور غفلت آئی
متقدمین کی جو کتابیں ہم تک آئی ہیں وہ سند سے ہی آئیں ہیں جس میں ناقل سے لے کر مولف تک سند ہوتی ہے اور اس بنیاد پر اس کتاب کو اس عالم سے ثابت مانا جاتا ہے یہ بات تمام اہل علم جانتے ہیں اب اس دیوان کو دیکھیں اس کی کوئی سند نہیں ہے لہذا یہ ثابت نہیں
صالح المنجد کی بھی اس منسوب دیوان کے بارے ،میں یہی رائے ہے
فلو كان عنده عن الشافعي – وهو من أعلم الناس به وبنصوصه – لرواه عنه .
وأما ما يسمى بـ “ديوان الشافعي” ففيه كثير من الشعر المنحول عليه ، والذي لا تصح نسبته
للإمام رحمه الله ، بل فيها كثير من الأقوال المخالفة التي يتنزه الإمام عن مثلها .
اگر یہ شافعی کے اشعار ہوتے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ نص کو جانتے تھے اور جہاں تک اس دیوان کا تعلق ہے تو اس میں اکثر اشعار ان پر ڈالے گئے ہیں اور اس کی نسبت ان سے صحیح نہیں بلکہ بہت سے ان کے اقوال کے خلاف ہیں-
حوالہ