صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث
میں ہر نمازی کیلئے رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ وہ نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھیں؛
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔قَالَ: «لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»
ترجمہ : ’’ جس نے بھی نماز میں سورۃ الفاتحہ نہ پڑھی ،اس کی نماز نہیں ہوتی ‘‘
اس حدیث پر امام بخاری باب باندھتے ہیں :
’’باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها في الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت ‘‘
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں‘‘
یعنی اس حدیث سے امام اور مقتدی سمیت ان سب نمازیوں کیلئے سورۃ الفاتحہ پڑھنا واجب ثابت ہوتا ہے ۔
اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :
وقد ثبت الإذن بقراءة المأموم الفاتحة في الجهرية بغير قيد وذلك فيما أخرجه البخاري في جزء القراءة والترمذي وبن حبان وغيرهما من رواية مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادة أن النبي صلى الله عليه وسلم ثقلت عليه القراءة في الفجر فلما فرغ قال لعلكم تقرؤون خلف إمامكم قلنا نعم قال فلا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها والظاهر أن حديث الباب مختصر ‘‘ انتہی
" مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں بغير كسى قيد كے سورۃ فاتحہ پڑھنے كى اجازت ثابت ہے، يہ ان احاديث ميں ہے جو امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جزء القرآۃ ميں اور ترمذى، ابن حبان وغيرہ نے درج ذيل حديث روايت كى ہے:
عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادۃ:
مكحول محود بن ربيع سے بيان كرتے ہيں وہ عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ:
فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
حافظ صاحب فرماتے ہیں ،اس روایت سے معلوم ہوا کہ حدیث الباب مختصر ہے ،(یعنی مکمل حدیث اس طرح ہے ،جس طرح ’’ جزء القرآۃ ‘‘
میں امام بخاری نے نقل فرمائی ) فتح الباری جلد۲ ۔۔ص۲۴۲ )