الإیمان یزید و ینقص
امام ابو حنیفہ اور ان کے ہمنوا لوگ ایمان کی کمی بیشی کے قائل نہیں تھے جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ تھا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ کا دعوی ہے کہ انہوں نے ہزار سے زائد شیوخ سے حدیثیں لکھی ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ نہ سمجھتا ہو کہ ایماں میں کمی بیشی ہوتی ہے ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب اس مسئلہ میں کافی محتاط تھے اور ایسے لوگون سے حدیث نہیں لیتے تھے ۔
اسی طرح امام صاحب اہل الرائے کے مکتبہ فکر سے اس لیے بھی نالاں تھے کہ یہ قیاس آرائیاں زیادہ کرتے ہیں ۔
عقائد کے حوالے سے امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح میں باطل فرقوں کا رد کیا ہے اور اس ضمن میں وہ لوگ بھی آ گئے ہیں جن کو لوگ حنفی کہتے ہیں ۔
’’ بعض الناس ‘‘ کی اصطلاح ذکر کر کے امام بخاری نے بہت سارے باطل مسائل کا رد کیا ہے ۔ بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ یہ اصطلاح امام صاحب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (یا ان کے ہمنوا لوگوں )کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کو آخری عمر میں آزمائش سے گزرنا پڑا اس میں بھی بعض حنفی پیش پیش تھے ۔
ویسے بھی فقہ حنفی کے مسائل دیکھ لیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں ترجیحات دیکھ لیں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خصوصی طور پر ان لوگوں کے رد کو مد نظر رکھا ہے ۔
اور امام صاحب نے جو کیا ہے قرآن وسنت کے دلائل پیش کرکے اپنا موقف کی بنیاد رکھی ہے ۔ میرے خیال سے اس میں کوئی بھی عجیب بات نہیں ۔
لیکن باطل عقائد کے رد اور فاسد نظریات کی بیخ کنی کے اسی عمل کو بعض لوگ ’’ مذہبی منافرت ‘‘ یا ’’ حاسدانہ عداوت ‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔
میں کہنا چاہتا ہوں کہ :
امام صاحب نے جو کیا قرآن وسنت کے احترام میں کیا ۔ ظاہر ہے اس میں غلط موقف یا مذہب کا رد ہوگا ۔ کسی باطل مذہب کا رد اس سے تنافر ہے تو امام صاحب واقعہ مذہبی منافرت رکھتے تھے ۔
لیکن دوسری طرف ایسے مسائل بھی ہیں جن میں فقہ حنفی اور امام بخاری متفق ہیں اگر واقعتا ’’ مذہبی منافرت ‘‘ ویسی ہوتی جیساکہ اظہار کیا جاتا ہے تو امام صاحب اور حنفیوں کا یہ اتفاق نہ ہوتا ۔