کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
اشکال یہ آرہا ہے کہ جب ایک راوی ہے ہی مدلس تو پھر اس کا بعض دفعہ عنعنہ قبول اور وہ بھی تدلیس کے ثبوت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔! مطلب جب راوی مدلس ہے تو تدلیس کا پھر سے ثبوت کیسا۔۔۔۔۔۔؟؟
آپ ’’تدلیس‘‘ اور ’’مدلس کے عنعنہ‘‘ کے فرق کو پیش نظر رکھیں۔
ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ مدلس نے عن سے روایت کیا ہے تو اس کا یہ لازمی مطلب نہیں ہے کہ اس نے اس عنعنہ میں تدلیس بھی کی ہے۔
بلکہ یہاں فقط احتمال ہے کہ تدلیس کی ہوگی یا نہیں کی ہوگی ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سا احتمال غالب ہے؟ کیونکہ غالب احتمال ہی کی بنا پرحکم لگتاہے۔
تو جب ہمیں کسی مدلس راوی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ تدلیس بہت کم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے عنعنہ میں تدلیس غالب نہیں ہے۔
لہٰذا ایسے مدلسین کے عنعنہ میں عدم تدلیس غالب ہے اور اسی غالب احتمال کی بنیاد پر قلیل التدلیس مدلسین کا عنعنہ قابل قبول ہوتا ہے۔
البتہ اگرکسی قلیل التدلیس مدلس کے کسی خاص عنعنہ کے بارے میں دلائل یا قرائن سے معلوم ہوجائے کہ اس میں اس نے تدلیس کی ہے تو اس کا یہ خاص عنعنہ غیر مقبول ہوگا۔
یہ معاملہ بالکل حسن الحدیث راوی کے حافظہ کی طرح ہے۔
حسن الحدیث راوی کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ ہوتی ہے کہ اس نے غلطیاں کی ہیں مگر بہت کم۔
لہٰذا اس کی مرویات میں غالب احتمال صحت کا ہے لہٰذا عمومی طور پر اس کی مرویات مقبول ہوتی ہیں لیکن اگر کسی جگہ دلائل یا قرائن سے معلوم ہوجائے کہ یہاں اس نے غلطی کی ہے تو خاص اس مقام پر اس حسن الحدیث کی روایت رد کردی جائے ۔
یہ بہت ہی مختصر وضاحت ہے ان شاء اللہ کبھی اس موضوع پر ایک علیحدہ مضمون پیش کریں گے اوراس میں ساری تفصیلات آجائیں گی۔