• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام عبدالرزاق مدلس تھے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اشکال یہ آرہا ہے کہ جب ایک راوی ہے ہی مدلس تو پھر اس کا بعض دفعہ عنعنہ قبول اور وہ بھی تدلیس کے ثبوت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔! مطلب جب راوی مدلس ہے تو تدلیس کا پھر سے ثبوت کیسا۔۔۔۔۔۔؟؟

آپ ’’تدلیس‘‘ اور ’’مدلس کے عنعنہ‘‘ کے فرق کو پیش نظر رکھیں۔
ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ مدلس نے عن سے روایت کیا ہے تو اس کا یہ لازمی مطلب نہیں ہے کہ اس نے اس عنعنہ میں تدلیس بھی کی ہے۔
بلکہ یہاں فقط احتمال ہے کہ تدلیس کی ہوگی یا نہیں کی ہوگی ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سا احتمال غالب ہے؟ کیونکہ غالب احتمال ہی کی بنا پرحکم لگتاہے۔
تو جب ہمیں کسی مدلس راوی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ تدلیس بہت کم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے عنعنہ میں تدلیس غالب نہیں ہے۔
لہٰذا ایسے مدلسین کے عنعنہ میں عدم تدلیس غالب ہے اور اسی غالب احتمال کی بنیاد پر قلیل التدلیس مدلسین کا عنعنہ قابل قبول ہوتا ہے۔
البتہ اگرکسی قلیل التدلیس مدلس کے کسی خاص عنعنہ کے بارے میں دلائل یا قرائن سے معلوم ہوجائے کہ اس میں اس نے تدلیس کی ہے تو اس کا یہ خاص عنعنہ غیر مقبول ہوگا۔

یہ معاملہ بالکل حسن الحدیث راوی کے حافظہ کی طرح ہے۔
حسن الحدیث راوی کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ ہوتی ہے کہ اس نے غلطیاں کی ہیں مگر بہت کم۔
لہٰذا اس کی مرویات میں غالب احتمال صحت کا ہے لہٰذا عمومی طور پر اس کی مرویات مقبول ہوتی ہیں لیکن اگر کسی جگہ دلائل یا قرائن سے معلوم ہوجائے کہ یہاں اس نے غلطی کی ہے تو خاص اس مقام پر اس حسن الحدیث کی روایت رد کردی جائے ۔


یہ بہت ہی مختصر وضاحت ہے ان شاء اللہ کبھی اس موضوع پر ایک علیحدہ مضمون پیش کریں گے اوراس میں ساری تفصیلات آجائیں گی۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
آپ ’’تدلیس‘‘ اور ’’مدلس کے عنعنہ‘‘ کے فرق کو پیش نظر رکھیں۔
ان دونوں بہت فرق ہے۔ مدلس نے عن سے روایت کیا ہے تو اس کا یہ لازمی مطلب نہیں ہے کہ اس نے اس عنعنہ میں تدلیس بھی کی ہے۔
بلکہ یہاں فقط احتمال ہے کہ تدلیس کی ہوگی یا نہیں کی ہوگی ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کون سا احتمال غالب ہے؟ کیونکہ غالب احتمال ہی کی بنا پرحکم لگتاہے۔
تو جب ہمیں کسی مدلس راوی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ تدلیس بہت کم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے عنعنہ میں تدلیس غالب نہیں ہے۔
لہٰذا ایسے مدلسین کے عنعنہ میں عدم تدلیس غالب ہے اور اسی غالب احتمال کی بنیاد پر قلیل التدلیس مدلسین کا عنعنہ قابل قبول ہوتا ہے۔
البتہ اگرکسی قلیل التدلیس مدلس کے کسی خاص عنعنہ کے بارے میں دلائل یا قرائن سے معلوم ہوجائے کہ اس میں اس نے تدلیس کی ہے تو اس کا یہ خاص عنعنہ غیر مقبول ہوگا۔

یہ معاملہ بالکل حسن الحدیث راوی کے حافظہ کی طرح ہے۔
حسن الحدیث راوی کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ ہوتی ہے کہ اس نے غلطیاں کی ہیں مگر بہت کم۔
لہٰذا اس کی مرویات میں غالب احتمال صحت کا ہے لہٰذا عمومی طور پر اس کی مرویات مقبول ہوتی ہیں لیکن اگر کسی جگہ دلائل یا قرائن سے معلوم ہوجائے کہ یہاں اس نے غلطی کی ہے تو خاص اس مقام پر اس حسن الحدیث کی روایت رد کردی جائے ۔


یہ بہت ہی مختصر وضاحت ہے ان شاء اللہ کبھی اس موضوع پر ایک علیحدہ مضمون پیش کریں گے اوراس میں ساری تفصیلات آجائیں گی۔

جزاکم اللہ خیرا شیخ صاحب۔۔۔۔
لیکن یہ باتیں ہضم نہیں ہو رہیں۔۔۔۔
کیونکہ آپ نے کہا احتمال باقی رہتا ہے تو شیخ صاحب احتمال تو ثقہ راوی میں بھی رہتا ہے یعنی وہ کہیں بھی غلطی کر سکتا ہے جیسا کہ بہت سی جگہ پر ہوا بھی کہ بڑے بڑے ثقہ راوی بعض اوقات کسی مقام پر غلطی کر جاتے ہیں ۔۔۔۔
تو کیا یہ اصول بہتر نہیں کہ مدلس کی روایت مقبول نہیں چاہے وہ کم کرے یا ذیادہ باقی یہ الگ بات ہے کہ کوئی قرینہ آجائے مثلا وہ صراحت کر دے یا بعض مدلسین جو کسی خاص شیخ سے تدلیس نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
باقی احتمال والی بات تو وسیع ہے خاص طور پر علوم حدیث میں تو اس کا بہت دخل ہے۔۔۔۔

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
بھائی بات احتمال کی نہیں غالب احتمال کی ہے۔

اصول حدیث میں کوئی حکم محض احتمال کی بناپر نہیں لگتا بلکہ غالب احتمال کی بناپر لگتا ہے۔

بلکہ یہ کہہ لیں کہ اصول حدیث کے اکثراحکامات غالب احتمال ہی پرمبنی ہوتے ہیں۔
  • ثقہ وصدوق کی روایت کو صحیح کہا جاتا ہے حالانکہ کوئی ثقہ معصوم عن الخطا نہیں ہے بلکہ غلطی بھی کرسکتاہے لیکن غالب احتمال صحت کا رہتاہے اس لئے صحیح کا حکم لگتاہے۔
  • کثیرالخطاء کی روایت صحیح بھی ہوسکتی ہے ضروری نہیں ہے کہ ہرجگہ وہ غلطی ہی کرے لیکن غالب احتمال غلطی کا رہتاہے اس لئے ضعیف کا حکم لگتاہے۔
  • کذاب راوی سچ بھی بول سکتا ہے بلکہ شیطان کا بھی سچ بولنا ثابت ہے لیکن کذاب کی روایت میں کذب کا احتمال غالب ہے اس لئے موضوع کا حکم لگتاہے۔

یہی حال کثیر التدلس اور قلیل التدلیس مدلس کابھی ہے۔
  • قلیل التدلیس راوی تدلیس کرتے ہوئے بصیغہ عن بیان کرسکتا ہے لیکن غالب احتمال عدم تدلیس کا ہے اس لئے اس کا عنعنہ قبول ہوگا۔
  • کثیر التدلیس راوی بغیر تدلیس کے بھی بصیغہ عن بیان کرسکتا ہے لیکن غالب احتمال تدلیس کا رہتاہے اس لئے اس کا عنعنہ غیر مقبول ہوتاہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بھائی بات احتمال کی نہیں غالب احتمال کی ہے۔
اصول حدیث میں کوئی حکم محض احتمال کی بناپر نہیں لگتا بلکہ غالب احتمال کی بناپر لگتا ہے۔
بلکہ یہ کہہ لیں کہ اصول حدیث کے اکثراحکامات غالب احتمال ہی پرمبنی ہوتے ہیں۔
جی شیخ صاحب بالکل بجا فرمایا ظاہر ہے میں طالب علم ہوں آپ کی طرح مکمل بات کیسے کر سکتا ہوں۔۔۔ابتسامہ۔۔

جزاکم اللہ خیرا۔۔۔



یہی حال کثیر التدلس اور قلیل التدلیس مدلس کابھی ہے۔
قلیل التدلیس راوی تدلیس کرتے ہوئے بصیغہ عن بیان کرسکتا ہے لیکن غالب احتمال عدم تدلیس کا ہے اس لئے اس کا عنعنہ قبول ہوگا۔
کثیر التدلیس راوی بغیر تدلیس کے بھی بصیغہ عن بیان کرسکتا ہے لیکن غالب احتمال تدلیس کا رہتاہے اس لئے اس کا عنعنہ غیر مقبول ہوتاہے۔
اسکی جگہ یہ بات کہنے میں کیا حرج ہے؟؟؟


۔۔۔۔۔۔تو کیا یہ اصول بہتر نہیں کہ مدلس کی روایت مقبول نہیں چاہے وہ کم کرے یا ذیادہ باقی یہ الگ بات ہے کہ کوئی قرینہ آجائے مثلا وہ صراحت کر دے یا بعض مدلسین جو کسی خاص شیخ سے تدلیس نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
باقی غالب احتمال والی بات تو وسیع ہے خاص طور پر علوم حدیث میں تو اس کا بہت دخل ہے۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کم تدلیس کرنے والے کے عنعنہ میں تدلیس کا غالب احتمال نہیں رہتا لہٰذا ایسے مدلس کے عنعنہ کو رد کرنا غالب احتمال کو رد کرنا ہے۔ جو فن حدیث کے مرکزی اصول کے خلاف ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
کم تدلیس کرنے والے کے عنعنہ میں تدلیس کا غالب احتمال نہیں رہتا لہٰذا ایسے مدلس کے عنعنہ کو رد کرنا غالب احتمال کو رد کرنا ہے۔ جو فن حدیث کے مرکزی اصول کے خلاف ہے۔
شیخ صاحب تدلیس میں تو اصل اصول یہ ہے کہ اسکی روایت قبول نہیں ؟؟؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
شیخ صاحب تدلیس میں تو اصل اصول یہ ہے کہ اسکی روایت قبول نہیں ؟؟؟
بات تدلیس کی نہیں بات مدلس کے عنعنہ کی ہورہی ہے اور مدلس کے عنعنہ کی بابت ایسا کوئی اصول نہیں ہے کہ اس کی روایت اصلا قبول نہیں کی جائے گی ۔ نیز اس ضمن میں مجھے یہاں جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں باقی مزید گفتگو کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بات تدلیس کی نہیں بات مدلس کے عنعنہ کی ہورہی ہے اور مدلس کے عنعنہ کی بابت ایسا کوئی اصول نہیں ہے کہ اس کی روایت اصلا قبول نہیں کی جائے گی ۔ نیز اس ضمن میں مجھے یہاں جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں باقی مزید گفتگو کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مدلس ایک دفعہ بھی عنعنہ کرے تو اسکی روایت قبول نہ ہو گی جب تک وہ سماع کی صراحت نہ کرے۔۔۔۔۔۔(الرسالہ)
؟؟؟

وضاحت کر دیں تو جزاکم اللہ نا دیں تو بھی کوئی بات نہیں۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top