یہ 1994ء کی بات ہے میں ڈھاکہ میں سارک ممالک پریس کلبزکانفرنس میں راولپنڈی اسلام آبادکلب کی نمائندگی کے لئے گیا تو میرے لئے بنگلہ دیش میں گمشدہ ’’پاکستان اور پاکستانیوں‘‘ کو تلاش کرنے کے سوا کوئی کشش نہ تھی۔ میں ان پاکستانیوں سے ملنے کا خواہشمند تھا جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنا آج قربان کر دیا تھا پھر جنہیں وقت کے جبر نے ’’بنگلہ دیشی‘‘ کہلانے پر مجبور کر دیا ان میں93 سالہ عظیم پاکستانی پروفیسر غلام اعظم تھے جن کو میں نے خاصی تگ و دو کے بعد تلاش کر لیا۔ اسی طرح میں نے ان کئی پاکستانیوں کو بھی تلاش کر لیا جنہوں نے متحدہ پاکستان کی آخری جنگ لڑی تھی۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو میں اس رات بہت رویا تھا پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ہونے والی تاریخی تنطیم اسلامی سربراہ کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تو اس رات بھی میں بہت مضطرب رہا لیکن جب 1994ء میں ڈھاکہ ائر پورٹ پر پی آئی اے کا طیارہ اترا تو میں نے اشکبار آنکھوں سے مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش بن چکا تھا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ میں نے قدم قدم پر پاکستانیوں کو ڈھونڈ لیا، یہ وہ پاکستانی تھے جن کے دل میں چھپا پاکستان کوئی شاید ہی تلاش کر سکے، وہ تنہائی میں اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں وہ اب بھی پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن وہ اس بات کا برملا اظہار ’’غداری کا مقدمہ‘‘ بننے کے خوف سے نہیں کرتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر عوامی لیگ کے روپ میں پاکستان دشمن سوچ پائی جاتی ہے تو جماعت اسلامی، بی این پی اور جمعیت علماء اسلام کی شکل میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، وہاں1971ء کی فوجی کارروائی کے حوالے سے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کرنے والے لوگوں کی بھی کمی نہیں بنگلہ دیش کی سیاست پاکستان اور بھارت کی حامی سوچ رکھنے والوں میں منقسم ہے جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے کی راہ میں البدر اور الشمس کی صورت میں نوجوان نسل کے سروں کی فصیل کھڑی کر دی تھی لیکن عالمی قوتوں نے بھارت کو اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ امریکی چھٹا بحری بیڑہ تو پاکستان کی فوج کی مددکو نہ آیا بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کو دولخت کر دیا، دنیا کی عظیم اسلامی فوج کے 90 ہزار قیدی بنا لئے جب پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا کو اس وقت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس میں اس بات کی ضمانت فراہم کی گئی تھی کہ پاکستان اور بنگلہ دیش پاکستان کے دولخت ہونے کے حوالے سے کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور نہ ہی کوئی مقدمہ بنایا جائے گا لیکن بنگلہ دیش نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور چُن چُن کر ان بنگالیوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا جنہوں محب وطن پاکستانی ہونے کا عملی مظاہرہ کیا تھا اور بنگلہ دیش بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے تھے۔ ان عظیم پاکستانیوں میں پروفیسرغلام اعظم کا نام سرفہرست تھا اگرچہ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا اور ابتدائی ایام میں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہو گئے لیکن 1954ء میں جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی کے ہاتھ پر ایسے بیعت ہوئے کہ ساری زندگی بنگال میں ان کی جلائی ہوئی شمع کو روشن کئے رکھا۔ پاکستان سے محبت کے جرم میں نام نہاد جنگی ٹریبونل نے ان کی پیرانہ سالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سزائے موت کی بجائے 90 سال قید کی سزا دی تھی اسی جرم میں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال جیل میں گزارے۔ عبدالقادر ملا نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر سیاست کی وادی میں بہادری اور جرأت کی ایک نئی داستان رقم کی ہے اسی طرح پروفیسر غلام اعظم نے معافی نہ مانگ کر اپنی پاکستانیت پر دھبہ نہیں لگنے دیا اور قید تنہائی میں جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ پروفیسر غلام کا یہ ’’جرم‘‘ ہے کہ انہوں نے بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے مقابلے میں البدر اور الشمس کو پاک فوج کا ہراول دستہ بنایا، پاک فوج نے ان ہی عظیم نوجوان پاکستانیوں کی وجہ کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن جب پاکستان کے بزدل جرنیلوں نے دنیائے اسلام کی سب سے بڑی فوج کو ہندوستان کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ندامت اٹھانے کا حکم دے دیا تو سب سے زیادہ وہ بنگالی نوجوان مکتی باہنی کا شکار بنے جو پاک فوج کے دست و بازو تھے۔ پروفیسر غلام اعظم بنگلہ دیش بننے کے باوجود اسے پاکستان کا دوبارہ حصہ بنانے کے لئے سرگرم عمل رہے عالمی فورمز پر بنگلہ دیش کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرانے کی بھرپور مخالفت کی بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کی شہریت ختم کر دی، انہوں نے طویل عرصہ تک جلاوطنی کی زندگی بسر کی لیکن وہ اس دوران چین سے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن بنانے کی جدوجہد بھی کی وہ سالہا سال تک جماعت اسلامی مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے سربراہ رہے جب ان کو بنگلہ دیش کی شہریت مل گئی تو انہوں نے بنگلہ دیش کی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا اور بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے لیکن جب عوامی لیگ کی رہنما حسینہ واجد کی دوبارہ حکومت آئی تو انہوں نے جہاں شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں سے چُن چُن کر بدلہ لیا وہاں بنگلہ دیش میں ان بنگالیوں کو بھی چُن چُن کر تختہ دار لٹکایا جن کا دل اب بھی پاکستان کے لئے دل دھڑکتا ہے۔ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی ہے لیکن ان کے دل کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی وہ 43 سال قبل بنگلہ دیش کی آزادی کے خلاف لڑنے والوں کا ’’جرم‘‘ نہیں بھلا سکیں وہ پاکستان سے اس حد تک نفرت کرتی ہیں کہ وہ پاکستان کو کرکٹ میچ جیتنے پر اپنے ہاتھوں سے ٹرافی دینے سے قبل ہی اٹھ کر چلی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم سے 29 سال قبل ہونے والی ملاقات کا ایک ایک لفظ مجھے یاد ہے وہ بنگلہ دیش میں بھارت کی اجارہ داری قائم کرنے کے خلاف سب سے مضبوط آواز تھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا دفترایک چھوٹی سی عمارت کی پہلی منزل پر تھا وہاں ان سے بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی اس وقت بیگم خالدہ ضیا کی حکومت تھی جو ’’پرو پاکستان‘‘ ہونے باوجود بھارت کے شدید دبائو میں تھی۔ ڈھاکہ میں بھارت کے ہائی کمشن کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ پاکستان بھارت کو دو شوگر ملیں تحفہ کے طور دینا چاہتا تھا لیکن بنگلہ دیش کے وزراء اور بیورو کریسی پاکستان کے ساتھ چار شوگر ملیں خریدنے کا معاہدہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے پروفیسر غلام اعظم بنگلہ دیش میں ان لاکھوں بنگالی پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن تھے جنہوں نے اب بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا۔ میں پروفیسرغلام اعظم کے عزم کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا وہ کہتے تھے کہ ممکن ہے ان کی زندگی میں پاکستان اور بنگلہ دیش اکٹھے نہ ہوں لیکن ایک دن آئے گا بھارت کی چیرہ دستیاں انہیں ایک ہونے پر مجبور کر دیں گی وہ بنگلہ دیشی میں ’’پرو پاکستان‘‘ سیاست کے علمبردار تھے شاید ان کا یہی بڑا ’’جرم‘‘ تھا جسے حسینہ واجد نے معاف نہیں کیا جب عبدالقادر مُلا کو پھانسی کی سزا دی گئی تو سید منور حسن کی ہدایت پر وزیراعظم نواز شریف سے پروفیسر خورشید کی قیادت میں ملنے وفد نے ان کی توجہ اس معاہدے کی طرف مبذول کرائی جس کے تحت 1971ء کے واقعات کے حوالے سے بنگلہ دیش کسی شہری کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا پابند ہے۔ وزیراعظم نے نہ صرف اس معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے لئے سفارتی اثرو رسوخ استعمال کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی بلکہ وزارت خارجہ کے مؤقف کو بھیdisown کیا تھا انہوں نے سعودی عرب کی حکومت کے ذریعے بنگلہ دیش کی حکومت پر دبائو ڈالنے کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد حکومت نے خاموشی اختیار کر لی۔ بھلا ہو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا جنہوں نے عبد القادر مُلا کی شہادت پر ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ردعمل کا اظہار کر کے نواز شریف حکومت کا بھرم رکھ لیا اور پھر قومی اسمبلی نے قراداد منظور کرکے متحدہ پاکستان کے لئے جان کی قربانیاں دینے والوں کی لاج رکھ لی نواز شریف حکومت جو قائداعظم کی وارث جماعت ہونے کی دعویدار ہے بنگلہ دیش میں’’ پاکستانیوں اور پاکستانیت ‘‘ کے قتل عام پر خاموش تماشائی کیوں بنی بیٹھی ہے؟ صلاح الدین قادر چوہدری کے والد فضل القادر چوہدری جو متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر اور بارہا قائم مقام صدر رہے جیل میں وفات پاگئے اب ان کے صاحبزادے صلاح الدین قادر چوہدری جو 6 بار بنگلہ دیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے کو نام نہاد جنگی جرائم میں سزائے موت سنادی گئی ہے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو بھی کسی بھی قت سزائے موت سنائی جا سکتی ہے بنگلہ دیش میں پاکستانی اپنے قتل عام پر اہل پاکستان کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کب تک مصلحتوں کا شکار رہے گی اسے آگے بڑھ کر بنگلہ دیشی حکومت کو پاکستان و اسلام دشمن اقدامات سے روکنا ہو گا۔(نواز رضا کا کالم)