محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کیا سیدہ عائشہ نے غسل کر کے " دکھایا " تھا ؟
انکار حدیث کرنے والے دوست دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت "اخلاص " سے انکار حدیث کرتے ہیں اور اس کو دین کی خدمت سمجھ کے کرتے ہیں دوسرا وہ گروہ جو سب جانتے ہیں لیکن بد دیانت ہوتے ہیں حقائق کو چھپاتے ہیں -یہ دونوں گروہ صحیح مسلم کی ایک حدیث پر بہت شد و مد سے اعتراض کرتے ہیں اور اس اعتراض میں بہت جذباتی جملے بازی بھی کرتے ہیں -
حدیث کا مفھوم اور خلاصه یہ ہے کہ:
(دو نوجوانوں میں سوال پیدا ہوا کہ کم پانی میں غسل کیونکر ممکن ہے آوٹ طریق کیا ہے )
اس سوال کے حل کے لیے وہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں ..اس پر سیدہ جواب دیتی ہیں کہ آپ صاع بھر پانی سے غسل کر لیتے تھے ..اور انہوں نے غسل کر کے دکھا دیا ..اور ان کے درمیان پردہ تھا "
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث بہت شور کرتے ہیں ، حالانکہ بدباطن ایسے ہیں کہ خود ترجمے میں بد دیانتی سے کام لیتے ہیں - ہمارے لاہور میں منکرین حدیث کا ایک گروہ تھا جس کا دفتر غالبا ریواز گارڈن ہوتا تھا ..انہوں نے ایسے ہی بعض احادیث پر اعتراضات کرتے ہوے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں اس حدیث پر بھی اعتراض کیا تھا ..اور ترجمے میں جھوٹ لکھتے ہوے تاثر یہ دیا کہ جیسے کوئی اجنبی نوجوان آئے مسلہ پوچھا تو ام المومنین اٹھیں اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے غسل کر دکھایا ..اور ضمیر کی مکمل موت کا ثبوت دیتے ہوے حدیث کے ان الفاظ " بیننا و بینها ستر " کا ترجمہ کیا کہ "ان کے درمیان باریک پردہ تھا -"
اور اس کے بعد "حسب معمول منکرین حدیث " حدیثوں کو اور ائمہ کو خوب برا کہا -
اب اگر کوئی عام آدمی بھی یہ ترجمہ پڑھے گا اور ساتھ ان منافقین کا تبصرہ تو اک بار تو اس کا دماغ خراب ہو ہی جائے گا...
حدیث میں سوال کے واسطے آنے والے دونوں نوجوانوں کا آپ سے رشتہ ذکر نہیں ، لیکن عقل ، فہم کا تقاضا ہے کہ اگر شیطان آپ کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا کرتا ہے تو اس کی تحقیق کرتے ہیں نہ کہ شیطان کے چیلے بن کے اس کی چاکری پر لگ جاتے ہیں ...ہمارے منکرین حدیث مگر ایسا ہی کرتے ہیں -
جو دو نوجوان آپ کے پاس سوال کو آئے ایک ان میں ابو سلمہ تھے جو سیدنا عبد الرحمان کے بیٹے تھے اور اماں عائشہ کے بھتیجے تھے یعنی اماں صرف مومن ہونے کے حوالے سے کی ماں ہی نہ تھیں بلکہ سگی پھوپھی بھی تھیں - اور پھوپھو کیا ماں ہی نہیں ہوتی ؟
دوسرے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے ...اور دودھ شریک بھائی مکمل محرم ہوتا ہے ...اندازہ کیجئے منکرین حدیث کس طرح سادہ لوح افراد کو دھوکہ دیتے ہیں -
اب منکرین حدیث کے دماغ میں چونکہ پہلے سے تعفن ہوتا ہے سو اس سبب مثبت سوچنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا ..ستر کا ترجمہ کیا " باریک پردہ " سوال یہ ہے باریک کی صفت کہاں سے آ گئی ....بھائی یہی وہ اندر کا گند ہوتا ہے جس سے ائمہ حدیث تو کیا امہات المومنین بھی محفوظ نہ رہیں - حدیث میں سیدھی بات ہے کہ ان کے درمیان پردہ تھا ..اور سیدہ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ مثبت سوچا جائے کہ پردہ دیوار کا ہی تھا جیسے غسل خانوں کی ہوتی ہے ..لیکن ضمیر مردہ تو پردہ باریک دکھائی دیتا ہے -
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
جب دماغ میں موجود غلاظت سوچنے دے تو بندہ مثبت سوچے نا -
اب بندہ اس حدیث کو ڈیڑھ ہزار سال امت نے اس طرح سوچا :
اماں کے بھائی ور بھتیجے آئے ، غسل کے پانی کی مقدار پوچھی ....
[مثبت سوچ ] ممکن ہے کہ اتفاق سے اماں غسل کا ارادہ کر رہی تھیں -
سو بچوں نے سوال پوچھا تو اماں نے غسل کر کے دکھا دیا - انہوں نے سر پر تین بار پانی ڈالا -
[مثبت سوچ ] چونکہ محرم تھے سو سر دکھائی دے رہا تھا جس میں کوئی حرج نہیں ....
ان کے بیچ پردہ تھا
[مثبت سوچ ] پردہ دیوار کا ہی ہو گا -
مقصود صرف یہ تھا کہ اتنے کم پانی میں غسل ممکن ہے - عربوں میں پانی کی کمی ایک عام سی بات تھی ..صحراؤں کے سفر میں نکلتے تو ایسے مسائل پیش آنا معمول کی بات تھی .سو سوال بھی کیے جاتے ..خانگی مسائل میں بہترین جواب امہات المومنین ہی دے سکتی تھیں کہ ان سے بڑھ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو نہ جانتا تھا...سو یہ ایک عام سا اور آسان سا سوال تھا ..لیکن عرض کر چکا کہ :
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئے