محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,798
- پوائنٹ
- 1,069
کیا اپنے عیسائی دوست کی شفا یابی کیلیے دعا کر سکتا ہے؟
میرا ایک عیسائی دوست ہے ، مجھے اس سے بہت محبت ہے ، میرے دوست کا شمار ان عیسائیوں میں ہوتا ہے جن کی قرآن کریم نے تعریف کی ہے، وہ آج کل بیمار ہے، تو کیا اسلام مجھے اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ میں اس کی شفا یابی کی دعا اللہ تعالی سے مانگوں؟
Published Date: 2018-04-01
الحمد للہ:
دوستی اور لاتعلقی [ولاء اور براء] دین کا بنیادی موکد ترین عقیدہ ہےاور ایمان کا مضبوط ترین جز ہے، تو جس طرح ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے بالکل اگر انسان اس عقیدے کو اپنے دل میں جا گزیں کرے تو اس سے بھی ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔
لیکن اگر سرے سے انسان اس نظریے اور عقیدے کو دل سے اکھاڑ پھینکے ، اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرے تو اس سے ایمان معدوم ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ایمان کی بنیاد اللہ تعالی کے اولیا سے محبت اور اللہ کے دشمنوں سے نفرت پر قائم ہے، اصول کے متعلق قرآن مجید میں متعدد آیات اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی ایک احادیث موجود ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
( لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ )
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی جماعت ہے۔ سن لو ! اللہ کی جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ [المجادلہ:22]
اسی طرح فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُبِيناً )
ترجمہ: اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ کیا تم اپنے آپ پر اللہ کی صریح حجت قائم کرنا چاہتے ہو ؟ [النساء:144 ]
ایک اور مقام پر فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)
ترجمہ: اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ سب ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم میں سے کسی نے ان کو دوست بنایا تو وہ بھی انہیں سے ہے۔ یقیناً اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا [المائدة:51 ]
اور سورت آل عمران میں فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآياتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ )
ترجمہ: اے ایمان والو ! اپنے سوا کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ ان کی دشمنی ان کی زبانوں پر بے اختیار آ جاتی ہے اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں واضح ہدایات دے دی ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔ [ آل عمران:118]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بدر کی جانب روانہ ہوئے تو جب آپ حرہ وبرہ پہنچے تو آپ کے لشکر کے ساتھ ایک آدمی شامل ہوا جس کی جرأت اور شجاعت کے چرچے کئے جاتے تھے، اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام خوش ہوئے، پھر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ کے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاؤں اور مجھے بھی مال غنیمت ملے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا: (کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟) تو اس نے کہا: نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: واپس چلے جاؤ میں کسی مشرک سے تعاون نہیں لیتا" مسلم: (1817)
بلکہ مالک بن دخشن کے بارے میں صحابہ کرام نے یہ الزام عائد کیا کہ وہ منافق ہو گیا ہے؛ کیونکہ مالک بن دخشن بہت زیادہ منافقوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا، جیسے کہ صحیح بخاری: (415) اور مسلم: (33) میں یہ ثابت شدہ ہے۔
مندرجہ بالا اور اس کے علاوہ بہت سے دلائل ہیں جن میں کافروں کے ساتھ تعلق داری اور دوستی کرنا حرام ہے، کافروں سے تعلق بنانے کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً: ان کے کفریہ نظریات کو پسند کرنا، یا ان سے مانوس ہو کر ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ایک جگہ رہائش رکھنا یا انہیں قریبی دوست بنا لینا، یا ان سے دلی محبت کرنا، یا مسلمانوں پر انہیں ترجیح دینا، یا ان کے قوانین کے مطابق فیصلے کروانا وغیرہ ، ان تفصیلات کیلیے آپ سوال نمبر: (2179) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کافروں سے دوستی کا معاملہ بہت سنگین ہے؛ کیونکہ یہ توحید کے اجزا میں سے ایک اہم ترین جز سے متصادم ہے، اور وہ ہے کہ مومنوں سے دوستی اور مشرکوں سے لا تعلقی۔
آپ کا یہ کہنا کہ یہ عیسائی کافر ان لوگوں میں سے ہے جن کی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مدح سرائی فرمائی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن عیسائی افراد کی مدح فرمائی ان کے مخصوص اوصاف اور امتیازی خوبیاں ہیں، اللہ تعالی نے یہ خوبیاں ان کی مدح کے فوری بعد بیان فرماتے ہوئے کہا:
( لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ) پھر فرمایا: ( ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَاناً وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ * وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ* وَمَا لَنَا لا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ * فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ * وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان سے عداوت رکھنے میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر یہودی اور مشرکین ہیں اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ "ہم نصاریٰ ہیں" انہیں آپ مسلمانوں سے محبت رکھنے میں قریب تر پائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور زاہد پائے جاتے ہیں اور وہ متکبر نہیں ہوتے [82] اور جو کچھ رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے جب اسے سنتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ '': اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے لہذا ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے [83] آخر ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس پہنچ چکا ہے۔ اس پر کیوں ایمان نہ لائیں ؟ اور ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرلے گا [84] ان کے اس قول کے عوض اللہ انہیں ایسے باغات عطا کرے گا جن میں نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور احسان کرنے والوں کا یہی بدلہ ہے [85] اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں [المائدة:82- 86 ]
تو آیات کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ ان قابل ستائش نصاری سے مراد وہ لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے ہیں اور قرآن مجید کی دعوت اور تلاوت سے متاثر ہوئے ہیں۔
علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی اس گروہ کے بارے میں بیان فرماتا ہے جو محبت اور موالات میں مسلمانوں کے زیادہ قریب اور دوسرا محبت اور مودت میں ان سے زیادہ دور ہے: (لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا)[ترجمہ: آپ یہودیوں اور مشرکوں کو سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن پائیں گے ] یہ دو گروہ علی الاطلاق اسلام اور مسلمانوں سے سب سے زیادہ عداوت اور ان کو نقصان پہنچانے کیلیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف شدید بغض ، حسد اور سخت کفر و عناد رکھتے ہیں۔
(وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى)[ترجمہ: اور آپ اپنے آپ کو عیسائی کہلانے والوں کو سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں سے محبت کرنے والا پائیں گے]
پھر اللہ تعالی نے ان کی اس محبت کے متعدد اسباب ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
1- (ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَاناً) [ترجمہ: اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی] یعنی ان کے اندر علماء ، زہّاد اور گرجا گھروں میں عبادت کرنے والے عبّاد ہیں، کیونکہ زہد کے ساتھ علم اور اسی طرح عبادت کے ساتھ علم یہ ایسی چیز ہے کہ جو قلب کو لطیف اور رقیق بنا دیتی ہے، اس سکے اندر موجود سختی اور جفا کو زائل کر دیتی ہے، لہذا ان کے اندر یہودیوں جیسی سختی اور مشرکین جیسی شدت پسندی نہیں پائی جاتی۔
2- (وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ)[ترجمہ: اور وہ تکبر نہیں کرتے] یعنی ان کے اندر اتباع حق کے بارے میں تکبر اور سرکشی نہیں پائی جاتی۔ اور یہ چیز مسلمانوں سے ان کی قربت اور محبت کا باعث ہے؛ کیونکہ متواضع اور منکسر المزاج شخص متکبر کی بہ نسبت بھلائی کے زیادہ قریب ہے۔
3- جس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ وحی سنتے ہیں تو ان کے دل اس وحی پر یقین کی بدولت متاثر ہو کر نرم ہو جاتے ہیں، اسی پر وہ ایمان لے آتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں: (رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ)[ترجمہ: ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے؛ چنانچہ تو ہمیں گواہوں میں لکھ دے] تو یہ ایمان لا کر امت محمدیہ میں شامل ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں، رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ انبیائے کرام لے کر آئے ہیں ان کو سچ مان کر ان کی تصدیق کرتے ہیں، اسی طرح سابقہ امتوں کے بارے میں بھی تصدیق یا تکذیب کی گواہی دیتے ہیں۔۔۔ یہ آیات ان عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے تھے جیسے کہ نجاشی اور دیگر اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے افراد، اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے کہ بہت سے عیسائی دین اسلام قبول کر رہے ہیں، انہیں یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان کے سابقہ نظریات غلط تھے، اس لیے یہ لوگ یہودیوں کے مقابلے میں دین اسلام کے زیادہ قریب ہیں"
[ تفسیر سعدی: 1 / 511 ]
کافر شخص کیلیے دعا کی کئی اقسام ہیں:
1- آپ کافر شخص کی دین اسلام قبول کرنے کیلیے ہدایت کی دعا کریں، تو یہ جائز ہے؛ جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یا اللہ! ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جو بھی تیرے نزدیک محبوب ہے اس کے ذریعے اہل اسلام کو غلبہ عطا فرما) ترمذی: (3681) اس حدیث کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ تو اس حدیث میں دو غیر مسلم افراد میں سے ایک کیلیے ہدایت کی دعا ہے۔
2- آپ غیر مسلم فرد کی مغفرت وغیرہ کی دعا کریں تو یہ اجماعی طور پر حرام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کافر کا جنازہ پڑھنا یا اس کی مغفرت کی دعا کرنا قرآن کریم کی صریح نص اور اجماع کے مطابق حرام ہے"
المجموع( 5 / 120)
ایسے ہی تحفۃ المحتاج میں ہے کہ:
"کسی کافر کیلیے اخروی دعا کرنا حرام ہے، اسی طرح جس کے مسلمان ہونے میں شک ہو تو اس کیلیے بھی اخروی دعا کرنا حرام ہے چاہے اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں"
(3 / 141)
3- جبکہ کسی بیماری سے شفا یابی وغیرہ کی دعا کرنا بطور مصلحت جائز ہے، مثلاً: اس بیمار غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو ، اس کی تالیف قلبی وغیرہ کرنا مقصود ہو ، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی نے کسی قبیلے کے سربراہ کو دم کیا تھا جسے بچھو نے کاٹ لیا تھا، اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (67144) کے جواب میں گزر چکی ہے۔ اور شفا کیلئے دعا کرنا بھی دم کے زمرے میں آتا ہے۔
بلکہ آپ کیلیے یہ بھی جائز ہے کہ آپ اس کی تیمار داری کریں، ویسے بھی بیماری کی حالت میں انسان کا دل بہت نرم ہوتا ہے اور نصیحت کو قبول بھی کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کیلیے ایک یہودی لڑکا حاضر ہوتا تھا وہ ایک دن بیمار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کی تیمار داری کیلیے آئے اور آپ اس کے سرہانے بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (اسلام قبول کر لو) تو لڑکے نے پاس ہی کھڑے اپنے والد کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ابو القاسم صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لو، تو وہ مسلمان ہو گیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب واپس ہوئے تو فرما رہے تھے: (الحمد للہ، اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا) بخاری: (1356)
اس حدیث کی شرح میں ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ مشرک کو خادم رکھا جا سکتا ہے اور اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جا سکتی ہے، اس میں [اپنے تعلق داروں کی]دیکھ بھال کرنے کی بھی دلیل ہے"
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
https://islamqa.info/ur/47322
میرا ایک عیسائی دوست ہے ، مجھے اس سے بہت محبت ہے ، میرے دوست کا شمار ان عیسائیوں میں ہوتا ہے جن کی قرآن کریم نے تعریف کی ہے، وہ آج کل بیمار ہے، تو کیا اسلام مجھے اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ میں اس کی شفا یابی کی دعا اللہ تعالی سے مانگوں؟
Published Date: 2018-04-01
الحمد للہ:
دوستی اور لاتعلقی [ولاء اور براء] دین کا بنیادی موکد ترین عقیدہ ہےاور ایمان کا مضبوط ترین جز ہے، تو جس طرح ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے بالکل اگر انسان اس عقیدے کو اپنے دل میں جا گزیں کرے تو اس سے بھی ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔
لیکن اگر سرے سے انسان اس نظریے اور عقیدے کو دل سے اکھاڑ پھینکے ، اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرے تو اس سے ایمان معدوم ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ایمان کی بنیاد اللہ تعالی کے اولیا سے محبت اور اللہ کے دشمنوں سے نفرت پر قائم ہے، اصول کے متعلق قرآن مجید میں متعدد آیات اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی ایک احادیث موجود ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
( لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ )
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی جماعت ہے۔ سن لو ! اللہ کی جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ [المجادلہ:22]
اسی طرح فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُبِيناً )
ترجمہ: اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ کیا تم اپنے آپ پر اللہ کی صریح حجت قائم کرنا چاہتے ہو ؟ [النساء:144 ]
ایک اور مقام پر فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)
ترجمہ: اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ سب ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم میں سے کسی نے ان کو دوست بنایا تو وہ بھی انہیں سے ہے۔ یقیناً اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا [المائدة:51 ]
اور سورت آل عمران میں فرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآياتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ )
ترجمہ: اے ایمان والو ! اپنے سوا کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ ان کی دشمنی ان کی زبانوں پر بے اختیار آ جاتی ہے اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں واضح ہدایات دے دی ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔ [ آل عمران:118]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بدر کی جانب روانہ ہوئے تو جب آپ حرہ وبرہ پہنچے تو آپ کے لشکر کے ساتھ ایک آدمی شامل ہوا جس کی جرأت اور شجاعت کے چرچے کئے جاتے تھے، اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام خوش ہوئے، پھر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ کے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاؤں اور مجھے بھی مال غنیمت ملے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا: (کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟) تو اس نے کہا: نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: واپس چلے جاؤ میں کسی مشرک سے تعاون نہیں لیتا" مسلم: (1817)
بلکہ مالک بن دخشن کے بارے میں صحابہ کرام نے یہ الزام عائد کیا کہ وہ منافق ہو گیا ہے؛ کیونکہ مالک بن دخشن بہت زیادہ منافقوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا، جیسے کہ صحیح بخاری: (415) اور مسلم: (33) میں یہ ثابت شدہ ہے۔
مندرجہ بالا اور اس کے علاوہ بہت سے دلائل ہیں جن میں کافروں کے ساتھ تعلق داری اور دوستی کرنا حرام ہے، کافروں سے تعلق بنانے کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً: ان کے کفریہ نظریات کو پسند کرنا، یا ان سے مانوس ہو کر ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ایک جگہ رہائش رکھنا یا انہیں قریبی دوست بنا لینا، یا ان سے دلی محبت کرنا، یا مسلمانوں پر انہیں ترجیح دینا، یا ان کے قوانین کے مطابق فیصلے کروانا وغیرہ ، ان تفصیلات کیلیے آپ سوال نمبر: (2179) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کافروں سے دوستی کا معاملہ بہت سنگین ہے؛ کیونکہ یہ توحید کے اجزا میں سے ایک اہم ترین جز سے متصادم ہے، اور وہ ہے کہ مومنوں سے دوستی اور مشرکوں سے لا تعلقی۔
آپ کا یہ کہنا کہ یہ عیسائی کافر ان لوگوں میں سے ہے جن کی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مدح سرائی فرمائی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن عیسائی افراد کی مدح فرمائی ان کے مخصوص اوصاف اور امتیازی خوبیاں ہیں، اللہ تعالی نے یہ خوبیاں ان کی مدح کے فوری بعد بیان فرماتے ہوئے کہا:
( لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ) پھر فرمایا: ( ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَاناً وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ * وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ* وَمَا لَنَا لا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ * فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ * وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ان سے عداوت رکھنے میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر یہودی اور مشرکین ہیں اور جن لوگوں نے کہا تھا کہ "ہم نصاریٰ ہیں" انہیں آپ مسلمانوں سے محبت رکھنے میں قریب تر پائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور زاہد پائے جاتے ہیں اور وہ متکبر نہیں ہوتے [82] اور جو کچھ رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے جب اسے سنتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ '': اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے لہذا ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے [83] آخر ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس پہنچ چکا ہے۔ اس پر کیوں ایمان نہ لائیں ؟ اور ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرلے گا [84] ان کے اس قول کے عوض اللہ انہیں ایسے باغات عطا کرے گا جن میں نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور احسان کرنے والوں کا یہی بدلہ ہے [85] اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں [المائدة:82- 86 ]
تو آیات کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ ان قابل ستائش نصاری سے مراد وہ لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے ہیں اور قرآن مجید کی دعوت اور تلاوت سے متاثر ہوئے ہیں۔
علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی اس گروہ کے بارے میں بیان فرماتا ہے جو محبت اور موالات میں مسلمانوں کے زیادہ قریب اور دوسرا محبت اور مودت میں ان سے زیادہ دور ہے: (لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا)[ترجمہ: آپ یہودیوں اور مشرکوں کو سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن پائیں گے ] یہ دو گروہ علی الاطلاق اسلام اور مسلمانوں سے سب سے زیادہ عداوت اور ان کو نقصان پہنچانے کیلیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف شدید بغض ، حسد اور سخت کفر و عناد رکھتے ہیں۔
(وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى)[ترجمہ: اور آپ اپنے آپ کو عیسائی کہلانے والوں کو سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں سے محبت کرنے والا پائیں گے]
پھر اللہ تعالی نے ان کی اس محبت کے متعدد اسباب ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
1- (ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَاناً) [ترجمہ: اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی] یعنی ان کے اندر علماء ، زہّاد اور گرجا گھروں میں عبادت کرنے والے عبّاد ہیں، کیونکہ زہد کے ساتھ علم اور اسی طرح عبادت کے ساتھ علم یہ ایسی چیز ہے کہ جو قلب کو لطیف اور رقیق بنا دیتی ہے، اس سکے اندر موجود سختی اور جفا کو زائل کر دیتی ہے، لہذا ان کے اندر یہودیوں جیسی سختی اور مشرکین جیسی شدت پسندی نہیں پائی جاتی۔
2- (وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ)[ترجمہ: اور وہ تکبر نہیں کرتے] یعنی ان کے اندر اتباع حق کے بارے میں تکبر اور سرکشی نہیں پائی جاتی۔ اور یہ چیز مسلمانوں سے ان کی قربت اور محبت کا باعث ہے؛ کیونکہ متواضع اور منکسر المزاج شخص متکبر کی بہ نسبت بھلائی کے زیادہ قریب ہے۔
3- جس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ وحی سنتے ہیں تو ان کے دل اس وحی پر یقین کی بدولت متاثر ہو کر نرم ہو جاتے ہیں، اسی پر وہ ایمان لے آتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں: (رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ)[ترجمہ: ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے؛ چنانچہ تو ہمیں گواہوں میں لکھ دے] تو یہ ایمان لا کر امت محمدیہ میں شامل ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں، رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ انبیائے کرام لے کر آئے ہیں ان کو سچ مان کر ان کی تصدیق کرتے ہیں، اسی طرح سابقہ امتوں کے بارے میں بھی تصدیق یا تکذیب کی گواہی دیتے ہیں۔۔۔ یہ آیات ان عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے تھے جیسے کہ نجاشی اور دیگر اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے افراد، اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے کہ بہت سے عیسائی دین اسلام قبول کر رہے ہیں، انہیں یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان کے سابقہ نظریات غلط تھے، اس لیے یہ لوگ یہودیوں کے مقابلے میں دین اسلام کے زیادہ قریب ہیں"
[ تفسیر سعدی: 1 / 511 ]
کافر شخص کیلیے دعا کی کئی اقسام ہیں:
1- آپ کافر شخص کی دین اسلام قبول کرنے کیلیے ہدایت کی دعا کریں، تو یہ جائز ہے؛ جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یا اللہ! ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جو بھی تیرے نزدیک محبوب ہے اس کے ذریعے اہل اسلام کو غلبہ عطا فرما) ترمذی: (3681) اس حدیث کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ تو اس حدیث میں دو غیر مسلم افراد میں سے ایک کیلیے ہدایت کی دعا ہے۔
2- آپ غیر مسلم فرد کی مغفرت وغیرہ کی دعا کریں تو یہ اجماعی طور پر حرام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کافر کا جنازہ پڑھنا یا اس کی مغفرت کی دعا کرنا قرآن کریم کی صریح نص اور اجماع کے مطابق حرام ہے"
المجموع( 5 / 120)
ایسے ہی تحفۃ المحتاج میں ہے کہ:
"کسی کافر کیلیے اخروی دعا کرنا حرام ہے، اسی طرح جس کے مسلمان ہونے میں شک ہو تو اس کیلیے بھی اخروی دعا کرنا حرام ہے چاہے اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں"
(3 / 141)
3- جبکہ کسی بیماری سے شفا یابی وغیرہ کی دعا کرنا بطور مصلحت جائز ہے، مثلاً: اس بیمار غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو ، اس کی تالیف قلبی وغیرہ کرنا مقصود ہو ، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی نے کسی قبیلے کے سربراہ کو دم کیا تھا جسے بچھو نے کاٹ لیا تھا، اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (67144) کے جواب میں گزر چکی ہے۔ اور شفا کیلئے دعا کرنا بھی دم کے زمرے میں آتا ہے۔
بلکہ آپ کیلیے یہ بھی جائز ہے کہ آپ اس کی تیمار داری کریں، ویسے بھی بیماری کی حالت میں انسان کا دل بہت نرم ہوتا ہے اور نصیحت کو قبول بھی کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کیلیے ایک یہودی لڑکا حاضر ہوتا تھا وہ ایک دن بیمار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کی تیمار داری کیلیے آئے اور آپ اس کے سرہانے بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (اسلام قبول کر لو) تو لڑکے نے پاس ہی کھڑے اپنے والد کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ابو القاسم صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لو، تو وہ مسلمان ہو گیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب واپس ہوئے تو فرما رہے تھے: (الحمد للہ، اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا) بخاری: (1356)
اس حدیث کی شرح میں ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ مشرک کو خادم رکھا جا سکتا ہے اور اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جا سکتی ہے، اس میں [اپنے تعلق داروں کی]دیکھ بھال کرنے کی بھی دلیل ہے"
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
https://islamqa.info/ur/47322