ایسی سوچ اور عمل دونوں درست نہیں ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿١٨٧﴾
روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا، وه تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیده خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا، اب تم ان سے مباشرت کرو اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز ( یعنی اولاد) کو تلاش کرو، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ﻇاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وه بچیں۔
علاوہ ازیں یہ بھی اہم بات ہے کہ اولاد میاں بیوی کے رشتے کو مضبوطی فراہم کرتی ہے لہذا شادی کی شروع کے دو تین سال جبکہ میاں بیوی کی انڈر سٹینڈنگ زیادہ نہیں ہوتی ہے اور ان میں اختلافات، جھگڑے اور علیحدگی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں تو ایسے میں اولاد اس رشتے کو جوڑے رکھنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ جن جوڑوں کے ہاں شروع کے سالوں میں اولاد نہ ہوئی ہو تو ان میں علیحدگی کی شرح صاحب اولاد جوڑوں میں علیحدگی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ پس میاں بیوی کو اولاد کو زحمت نہیں بلکہ رحمت سمجھنا چاہیے۔ جہاں اولاد ہونے کا ایک طبعا ناپسندیدہ پہلو یہ ہے کہ اس میں والدین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے وہاں اس کے بیسیوں روشن پہلو بھی ہیں کہ جن میں ایک کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے یعنی میاں بیوی کے باہمی تعلق کو ایک مضبوط سہارا فراہم کرنا، ان کو سامنے رکھنا چاہیے۔