• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا باپ اپنی حیاتی میں اپنے بیٹے اور بیٹیوں میں اپنی جایداد کی تقسیم کر سکتا ہے،؟؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
جی ہاں! والد اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں میراث تقسیم کر سکتا ہے اور اسے ہبہ کہیں گے اگرچہ بہتر یہی ہے کہ زندگی میں تقسیم نہ کرے۔ شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

سوال : كيا كوئى شخص اپنى زندگى ميں ہى اپنے ورثاء كے مابين اپنا مال تقسيم كر سكتا ہے ؟

الحمد للہ:

جى ہاں اس كے ليے ايسا كرنا جائز ہے، ليكن اس كے ليے ايك شرط ہے كہ: اس سے كسى ايك وراث كو بھى نقصان دينا مقصود نہ ہو، كہ كسى كو دے اور كسى كو نہ دے، يا پھر انہيں نقصان اور ضرر پہنچاتے ہوئے ان كے حق سے بھى كم دے.

اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے وراثت كى تقسيم خود فرمائى ہے، اور ورثاء كے حصے خود مقرر كيے ہيں، اور جو شخص بھى اس سے باہر جائيگا اس كے ليے اللہ تعالى بہت سخت وعيد بيان فرمائى ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى كريگا وہ ايسى جنتوں اور باغات ميں داخل ہو گا جس كے نيچے سے نہريں بہتى ہيں، اس ميں ہميشہ رہيگا، اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا اور اس كى حدود سے تجاوز كريگا، وہ جہنم كى آگ ميں داخل ہوگا اور اس ميں ہميشہ كے ليے رہےگا، اور اس كے ليے اہانت آميز عذاب ہے ﴾النساء ( 13 - 14 ).

افضل اور بہتر تو يہى ہے كہ وہ ايسا نہ كرے، بلكہ اپنا مال اپنے پاس ہى رہنے دے، اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس كى وفات كے وقت موجود ورثاء ميں اس كا تركہ شرعى تقسيم كے مطابق تقسيم كر ديا جائيگا، اور پھر انسان كو اس كا كوئى علم نہيں كہ پہلے كسے موت آنى ہے حتى كہ وہ اپنا مال اپنے ورثاء ميں تقسيم كرتا پھرے، اور ہو سكتا ہے اس كى عمر لمبى ہو جائے اور اسے اس مال كى ضرورت ہو.

الانصاف كے مصنف لكھتے ہيں:

" صحيح مذہب كے مطابق زندہ شخص كے اپنا مال اپنى اولاد كے مابين تقسيم كرنے ميں كوئى كراہت نہيں، اور ان ( يعنى ايك دوسرے قول ميں امام احمد رحمہ اللہ نے كراہت بيان كى ہے ) سے كراہت منقول ہے.

الرعايۃ الكبرى ميں وہ كہتے ہيں: اگر كسى كے ليے ممكن ہو كہ اس كے ہاں اولاد ہو سكتى ہے تو پھر اس كے ليے اپنى زندگى ميں اپنے ورثاء كے مابين اپنا مال تقسيم كرنا مكروہ ہے " انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 7 / 142 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" ہم آپ كے والد كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ اس كے بعد اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 463 ).

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد کو بطور ہبہ دینا (بشرطیکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہے) جائز ہے، لیکن اس کے اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ) کے ہوں گے، تقسیم وراثت کے ہرگز نہ ہوں گے، کیونکہ اپنی زندگی میں اپنی وراثت کی تقسیم جائز نہیں۔ کیونکہ تقسیم وراثت اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود فرمائی ہے اور اسے اپنی ’حد‘ قرار دیا ہے اور اس میں کسی قسم کے ردّ وبدل کا کوئی اختیار کسی کو (حتیٰ کہ صاحب مال کو بھی) نہیں دیا ۔ اور جو اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کرے اس کو خلود فی النار کی وعید سنائی ہے، وراثت کے احکام کے فوراً بعد فرمانِ باری ہے:
﴿ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارً‌ا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِين ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کہ ’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے (13) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی وراثت اپنی رائے کے مطابق نہیں بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو پھر بھی یہ جائز نہیں۔ تقسیم وراثت کا تعلق مورث کے فوت کے ساتھ ہے، مرنے کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد (مثلا دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں اپنی وراثت شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دیتا ہے، اور اس کے فوت ہونے سے پہلے پہلے اس کی اولاد میں سے کوئی فوت ہوجائے یا کوئی نیا وراثت وجود میں آجائے تو ہر چیز تلپٹ ہوجائے گی۔ لہٰذا تقسیم وراثت زندگی میں جائز نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top