اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد کو بطور ہبہ دینا (بشرطیکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہے) جائز ہے، لیکن اس کے اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ) کے ہوں گے، تقسیم وراثت کے ہرگز نہ ہوں گے، کیونکہ اپنی زندگی میں اپنی وراثت کی تقسیم جائز نہیں۔ کیونکہ تقسیم وراثت اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود فرمائی ہے اور اسے اپنی ’حد‘ قرار دیا ہے اور اس میں کسی قسم کے ردّ وبدل کا کوئی اختیار کسی کو (حتیٰ کہ صاحب مال کو بھی) نہیں دیا ۔ اور جو اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کرے اس کو خلود فی النار کی وعید سنائی ہے، وراثت کے احکام کے فوراً بعد فرمانِ باری ہے:
﴿ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِين ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کہ ’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے (
13) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی وراثت اپنی رائے کے مطابق نہیں بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو پھر بھی یہ جائز نہیں۔ تقسیم وراثت کا تعلق مورث کے فوت کے ساتھ ہے، مرنے کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد (مثلا دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں اپنی وراثت شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دیتا ہے، اور اس کے فوت ہونے سے پہلے پہلے اس کی اولاد میں سے کوئی فوت ہوجائے یا کوئی نیا وراثت وجود میں آجائے تو ہر چیز تلپٹ ہوجائے گی۔ لہٰذا تقسیم وراثت زندگی میں جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!