کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کیا بے عمل مسلمان شفاعت رسول ﷺ کا مستحق ہے ؟
سوال:
جواب:جو شخص "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کا اقرار کرتا ہے اور باقی چار ارکان نماز، زکوۃ، روزہ اور حج پر عمل پیرا نہیں ہوتا، نہ دوسرے نیک اعمال کرتا ہےجو شریعت اسلامی میں مطلوب ہیں۔ کیا وہ قیامت کے دن نبی کریمﷺ کی شفاعت کا مستحق ہوگا جس کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے بھی جہنم میں داخل نہ ہو؟
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد:
جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوۃ پر عمل نہیں کرتا اوران چاروں ارکان کے وجوب کا انکار کرتا ہے یا ان میں سے کسی رکن کے وجوب کا منکر ہے حالانکہ اسے علماء کے ذریعے معلوم ہوچکا ہے کہ یہ اعمال فرض ہیں تو ایسا شخص مرتد ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر وہ ان اعمال کے ترک پر مصر ہو تو اسے اسلامی حکمران مرتد ہونے کی وجہ سے سزائے موت دے گا اور اسے قیامت کے دن نبی کریم ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی نہ کسی اور نیک آدمی کی۔اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ تسلیم کی جائے گی۔ اس کےبعد اگر اس کی وفات ایمان پر ہوئی تو وہ شفاعت کا مستحق ہوگا۔
اگر وہ صرف نماز سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے ترک کردے تو اس کے متعلق علمائے کرام کا زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہوجاتاہے اور یہ ایسا کفر ہے کہ وہ ملت اسلامیہ سے بھی خارج ہوجاتا ہے چہ جائیکہ وہ زکوۃ، روزہ اورحج بیت اللہ کا بھی تارک ہوتو پھر تو بدرجۂ اولی کافر ہوگا۔ لہذا اگر وہ اسی حالت میں فوت ہوجائے تو وہ نبی کریمﷺ یا کسی اور نیک آدمی کی شفاعت کا مستحق نہیں ہوگا ([1])۔بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ ان ارکان کا تارک عملی کافر کہلائے گا، حقیقی کافر نہیں ہوگا۔ لہذا اسلام سے خارج نہيں ہوگا۔ ان علماء کی رائے میں بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب مسلمان اگر ایمان کی حالت میں فوت ہوتا ہے تو شفاعت کا مستحق رہے گا۔ (فتوی رقم1727)
وباللہ التوفیق وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم اللجنۃ الدائمۃ (مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب)
(فتاوی دارالافتاء، سعودی عرب، جلد دوم، ص33، ط دارالسلام)
[1] اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:﴿مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ۔ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ۔وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ۔ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ ۔ حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ ۔ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِين﴾ (المدثر: 42-48)
’’ جنتی لوگ جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں پہنچایا، کہیں گے ہم نمازیوں میں سے ناتھے، اور نہ مساکین کوکھلاتے تھے، اورہم بیکار باتیں کرنے والوں کے ساتھ بیکار باتیں کیا کرتےتھے، اور ہم بدلے کے دن کو بھی جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت نے آلیا، ایسے لوگوں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کوئی فائدہ نہیں دے گی‘‘