تاریخ طبری میں جوراویات صحیح سند کے ساتھ منقول ہیں وہ مستند ہیں ، لیکن اس کتاب میں جوروایات منکر ، بے سند یا کذابین رواۃ سے منقول ہیں وہ مستند نہیں ، یاد رہے اس کتاب میں بہت بڑی مقدار میں ہرطرح کی جھوٹی اورخودساختہ روایات موجود ہیں جنہیں امام طبری رحمہ اللہ نے لوگوں سے سن کراس کتاب میں جمع کردیا ہے۔
اور اس کتاب سے متعلق جو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ہرطرح کی رطب ویابس ، سچی اورجھوٹی روایات کو بھردیا گیا ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اگر اسے امام طبری رحمہ اللہ کے سامنے کہتے تو وہ کوئی صفائی دے سکتے بلکہ امام طبری رحمہ اللہ نے تو خوداس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی اس کتاب میں ایسی روایات مل سکتی ہیں جونہ تو کسی طرح صحیح ہوسکتی ہیں ، اورنہ ہی کسی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں ، امام طبری اسی کتاب کے شروع میں فرماتے ہیں:
فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه، أو يستشنعه سامعه، من أجل أنه لم يعرف له وجها في الصحة، ولا معنى في الحقيقة، فليعلم انه لم يؤت في ذلك من قبلنا، وإنما أتى من قبل بعض ناقليه إلينا، وإنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا[تاريخ الطبري : 1/ 8]۔
ترجمہ: ہماری اس کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے ، جن میں ہماری کتاب پڑھنے والے یا سننے والے اس بناپرنکارت وشناعت محسوس کریں گے، کہ اس میں انہیں صحت کی کوئی وجہ اورمعنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے ، انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ ان کا اندراج ہم نے خود اپنی طرف سے نہیں کیا ہے بلکہ اس کا منبع وہ ناقل ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں ، ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کردی جس طرح ہم تک پہنچیں ۔
عتیق الرحمن سنبھلی صاحب امام طبری کا مذکورہ بیان درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
غورکیجئے کہ جب مؤرخ کا دامن اتنا وسیع ہوکہ موٹی اوردور سے نظرآنے والی اعجوبگی کے ساتھ بھی ایک روایت کو اس کے یہاں بےچوں چرا جگہ مل سکتی ہے تو پھر راویوں کی کون سی غلطی ، مبالغہ آرائی یا غلط بیانی رہ جاتی ہے جس کی توقع ہمیں اپنے ان مؤرخین کی کتابوں میں نہیں کرنی چاہئے ؟ خاص کرکربلا جیسے واقعات جن سے جذبات متعلق ہوتے ہیں تعصبات متعلق ہوتے ہیں ،اور مثبت و منفی مفادات بھی متعلق ہوتے ہیں،( واقعہ کربلا اوراس کا پس منظر: ص )۔