• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تاریخ طبری معتبر کتاب ہے؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
تاریخ طبری میں جوراویات صحیح سند کے ساتھ منقول ہیں وہ مستند ہیں ، لیکن اس کتاب میں جوروایات منکر ، بے سند یا کذابین رواۃ سے منقول ہیں وہ مستند نہیں ، یاد رہے اس کتاب میں بہت بڑی مقدار میں ہرطرح کی جھوٹی اورخودساختہ روایات موجود ہیں جنہیں امام طبری رحمہ اللہ نے لوگوں سے سن کراس کتاب میں جمع کردیا ہے۔
اور اس کتاب سے متعلق جو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ہرطرح کی رطب ویابس ، سچی اورجھوٹی روایات کو بھردیا گیا ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اگر اسے امام طبری رحمہ اللہ کے سامنے کہتے تو وہ کوئی صفائی دے سکتے بلکہ امام طبری رحمہ اللہ نے تو خوداس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی اس کتاب میں ایسی روایات مل سکتی ہیں جونہ تو کسی طرح صحیح ہوسکتی ہیں ، اورنہ ہی کسی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں ، امام طبری اسی کتاب کے شروع میں فرماتے ہیں:
فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه، أو يستشنعه سامعه، من أجل أنه لم يعرف له وجها في الصحة، ولا معنى في الحقيقة، فليعلم انه لم يؤت في ذلك من قبلنا، وإنما أتى من قبل بعض ناقليه إلينا، وإنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا[تاريخ الطبري : 1/ 8]۔
ترجمہ: ہماری اس کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے ، جن میں ہماری کتاب پڑھنے والے یا سننے والے اس بناپرنکارت وشناعت محسوس کریں گے، کہ اس میں انہیں صحت کی کوئی وجہ اورمعنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے ، انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ ان کا اندراج ہم نے خود اپنی طرف سے نہیں کیا ہے بلکہ اس کا منبع وہ ناقل ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں ، ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کردی جس طرح ہم تک پہنچیں ۔

عتیق الرحمن سنبھلی صاحب امام طبری کا مذکورہ بیان درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
غورکیجئے کہ جب مؤرخ کا دامن اتنا وسیع ہوکہ موٹی اوردور سے نظرآنے والی اعجوبگی کے ساتھ بھی ایک روایت کو اس کے یہاں بےچوں چرا جگہ مل سکتی ہے تو پھر راویوں کی کون سی غلطی ، مبالغہ آرائی یا غلط بیانی رہ جاتی ہے جس کی توقع ہمیں اپنے ان مؤرخین کی کتابوں میں نہیں کرنی چاہئے ؟ خاص کرکربلا جیسے واقعات جن سے جذبات متعلق ہوتے ہیں تعصبات متعلق ہوتے ہیں ،اور مثبت و منفی مفادات بھی متعلق ہوتے ہیں،( واقعہ کربلا اوراس کا پس منظر: ص )۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
تاریخ طبری میں جوراویات صحیح سند کے ساتھ منقول ہیں وہ مستند ہیں ، لیکن اس کتاب میں جوروایات منکر ، بے سند یا کذابین رواۃ سے منقول ہیں وہ مستند نہیں ، یاد رہے اس کتاب میں بہت بڑی مقدار میں ہرطرح کی جھوٹی اورخودساختہ روایات موجود ہیں جنہیں امام طبری رحمہ اللہ نے لوگوں سے سن کراس کتاب میں جمع کردیا ہے۔
اور اس کتاب سے متعلق جو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ہرطرح کی رطب ویابس ، سچی اورجھوٹی روایات کو بھردیا گیا ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اگر اسے امام طبری رحمہ اللہ کے سامنے کہتے تو وہ کوئی صفائی دے سکتے بلکہ امام طبری رحمہ اللہ نے تو خوداس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی اس کتاب میں ایسی روایات مل سکتی ہیں جونہ تو کسی طرح صحیح ہوسکتی ہیں ، اورنہ ہی کسی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں ، امام طبری اسی کتاب کے شروع میں فرماتے ہیں:
فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه، أو يستشنعه سامعه، من أجل أنه لم يعرف له وجها في الصحة، ولا معنى في الحقيقة، فليعلم انه لم يؤت في ذلك من قبلنا، وإنما أتى من قبل بعض ناقليه إلينا، وإنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا[تاريخ الطبري : 1/ 8]۔
ترجمہ: ہماری اس کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے ، جن میں ہماری کتاب پڑھنے والے یا سننے والے اس بناپرنکارت وشناعت محسوس کریں گے، کہ اس میں انہیں صحت کی کوئی وجہ اورمعنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے ، انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ ان کا اندراج ہم نے خود اپنی طرف سے نہیں کیا ہے بلکہ اس کا منبع وہ ناقل ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں ، ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کردی جس طرح ہم تک پہنچیں ۔

عتیق الرحمن سنبھلی صاحب امام طبری کا مذکورہ بیان درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
غورکیجئے کہ جب مؤرخ کا دامن اتنا وسیع ہوکہ موٹی اوردور سے نظرآنے والی اعجوبگی کے ساتھ بھی ایک روایت کو اس کے یہاں بےچوں چرا جگہ مل سکتی ہے تو پھر راویوں کی کون سی غلطی ، مبالغہ آرائی یا غلط بیانی رہ جاتی ہے جس کی توقع ہمیں اپنے ان مؤرخین کی کتابوں میں نہیں کرنی چاہئے ؟ خاص کرکربلا جیسے واقعات جن سے جذبات متعلق ہوتے ہیں تعصبات متعلق ہوتے ہیں ،اور مثبت و منفی مفادات بھی متعلق ہوتے ہیں،( واقعہ کربلا اوراس کا پس منظر: ص )۔
جزاک الله خیرا بھائی
ہمارے ایک دوست نے کربلا کا واقعہ نقل کیا اور تاریخ طبری کا حوالہ دیا جسکو پڑھنے کے بعد ہمیں لگا کی یہ تو شیعہ کا عقیدہ ہے اسلئے اس کتاب کی صحت جان نہ ضروری تھا،
تو کیا جو کربلا کا واقعہ اس کتاب میں ہے وہ صحیح اسناد کے ساتھ نہیں ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاک الله خیرا بھائی
ہمارے ایک دوست نے کربلا کا واقعہ نقل کیا اور تاریخ طبری کا حوالہ دیا جسکو پڑھنے کے بعد ہمیں لگا کی یہ تو شیعہ کا عقیدہ ہے اسلئے اس کتاب کی صحت جان نہ ضروری تھا،
تو کیا جو کربلا کا واقعہ اس کتاب میں ہے وہ صحیح اسناد کے ساتھ نہیں ؟
طبری میں کربلا سے متعلق منقول روایات میں سے صرف اورصرف ایک روایت کے علاوہ باقی سب استنادی حیثیت سے ضعیف ہیں ۔
اور سندا صحیح روایت وہ ہے جس میں حسین رضی اللہ عنہ بیعت کے لئے یزید کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔
 
Top