• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تراویح سے متعلق حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا مضطرب ہے؟جواب درکار ہے

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک حنفی بھائی کی پوسٹ نظر سے گزری تو سوچا یہاں پوسٹ کر کے جواب طلب کر لوںلوں

اہل علم سے گزارش ہے کہ جلد از جلد مکمل جواب عنایت کر دیں

جزاک اللہ خیراً

حنفی پوسٹ

"مضطرب" حدیث کی تعریف:
جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے؛

لغوی اعتبار سے "مضطرب"، "اضطراب" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے کسی معاملے میں اختلال پیدا ہو جانا اور نظام میں فساد پیدا ہو جانا۔ اپنی اصل میں یہ لہروں کے اضطراب سے نکلا ہے کیونکہ لہریں کثرت سے حرکت کرتی ہیں اور بے ترتیبی سے ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جو متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو۔ تمام اسناد قوت میں ایک دوسرے کے برابر ہوں لیکن ان میں کوئی تضاد پایا جاتا ہو۔

"مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت:
مضطرب وہ حدیث ہوا کرتی ہے جس میں ایسا تضاد پایا جاتا ہو جس کی موافقت کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ یہ تمام روایات ایسی اسناد سے مروی ہوں جو قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔

اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط:
مضطرب حدیث کی تعریف اور اس کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت تک مضطرب قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس میں دو شرائط نہ پائی جاتی ہوں:

· حدیث کی مختلف روایات میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہو جس میں موافقت پیدا کرنا (Reconciliation) ممکن ہی نہ ہو۔

· روایات سند کی قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو۔

اگر ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن ہو یا ان میں کسی وضاحت کے ذریعے موافقت پیدا کی جا سکتی ہو تو اس حدیث میں سے "اضطراب" ختم ہو جائے گا۔ اگر کسی ایک روایت کو ترجیح دی گئی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے اور اگر ان میں موافقت پیدا کر دی گئی ہے تو تمام احادیث پر عمل کریں گے۔

"مضطرب" حدیث کی اقسام:
مضطرب حدیث کو اضطراب کی جگہ کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مضطرب السند اور مضطرب المتن۔ ان میں سے پہلی قسم زیادہ طور پر پائی جاتی ہے۔

مضطرب السند کی مثال یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! میں آپ کے بال سفید ہوتے دیکھ رہا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "ہود اور ان کے بھائیوں (یعنی دیگر انبیاء کی قوموں پر عذاب) کے واقعات نے میرے بال سفید کر دیے ہیں۔" (رواه الترمذي ـ كتاب التفسير)

امام دارقطنی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس حدیث کو صرف ابو اسحاق کی سند سے روایت کیا گیا ہے۔ ان کی بیان کردہ اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ کہیں تو کسی راوی نے اسے مرسل (صحابی کا نام بتائے بغیر) روایت کیا ہے اور کہیں موصول (ملی ہوئی سند کے ساتھ)۔ کسی نے اس کا سلسلہ سند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہے، کسی نے سعد رضی اللہ عنہ تک اور کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا تک۔ ان تمام روایتوں کے راوی ثقہ ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ممکن نہیں اور ان میں مطابقت پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔

مضطرب المتن حدیث کی مثال یہ حدیث ہے:

ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"

ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟
اضطراب کسی ایک راوی سے بھی واقع ہو سکتا ہے اگر وہ مختلف الفاظ میں ایک ہی حدیث کو روایت کر رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اضطراب ایک سے زائد راویوں سے ہو جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو روایت کر رہا ہو۔
"مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ:
مضطرب حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ راوی حدیث کو صحیح طور پر محفوظ نہیں کر سکے۔

"مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف:
حافظ ابن حجر کی کتاب " المقترب فی بیان المضطرب۔"
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي " .[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883]
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 793 (3356)]


ترجمہ : حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے؟۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔

یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے کہ
﴿۱لف﴾ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان ((اور غیر رمضان)) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین۔[بخاري : ١٨٨٣ ؛ مسلم : 1225] اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔

(۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) [صحيح ابن خزيمة : 2070] نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے؛ لہٰذا اس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔

(۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں ((جماعت)) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔

(۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟

(٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔
اس حدیث کو امام بخاریؒ((كتاب التهجد)) میں بھی لائیں ہیں اور ((كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ)) میں بھی لائیں ہیں، اور اس پوسٹ میں یہ بات ثابت کی جا چکی کہ امام بخاریؒ تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھتے، معلوم ہوا کہ آپ ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے پڑھتے اور انھیں علیحدہ علیحدہ باب میں ذکر بھی ذکر کرتے ان کا الگ الگ ہونا مانتے.

ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کے لئے بخاری کو چھوڑ کر ((مسلم)) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے.
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لئے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے تھے، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں. صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا؟؟؟

اسی لیے امام قرطبی (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں :
قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد۔
[فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549]؛

ترجمہ : "مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)"؛ َ

جلد از جلد جواب لکھ دیں بڑی مہربانی ہوگی

جزاک اللہ خیراً
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:
یہ یتیم فی الحدیث علم الحدیث میں جب بھی بات کریں گے، اکثر ان سے ہفوات ہی صادر ہوں گی!
اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ان جہلا ء کو اپنے اکابر کی خبر بھی نہیں، ان کے اکابر تہجد اور تراویح کو ایک نماز اور اس کی رکعت بمع وتر 11 رکعت سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا تسلیم کرتے ہیں۔
اگر یہ بھونڈی اور نا کام کوشش ہے تو یہ بھونڈی و ناکام کوشش تو :
انور شاہ کاشمیری حنفی،ملا علی قاری حنفی، عینی حنفی، ابن نجیم حنفی، طحطاوی حنفی، ابو سعود حنفی، ابن عابدین شامی حنفی، سید احمد حمودی حنفی، محمد احسن نانوتوی حنفی، رشید احمد گنگوہی حنفی، ابو الحسن الشرنبلالی حنفی، عبد الحئی لکھنوی حنفی، زکریا کاندھلوی حنفی، قاسم نانوتوی حنفی، احمد علی سہارنپوری حنفی، اور اور اور ۔۔۔۔
یہ تمام حنفی علماء لوگوں کو گمراہ کرتے تھے!
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
فیس بک پر ایک بھائی نے اس کا جواب دیا ہے اس کا پی ڈی ایف لنک یہاں دے رہا ہوں:
تراویح سے متعلق حدیث عائشہؓ پر اضطراب کا دعویٰ اور اس کا جائزہ
ڈاؤنلوڈ:
http://www.mediafire.com/download/owx02328uxw0n5i/Hadees+Ayesha+aur+Iztirab.pdf
جی یہ میرے پاس موجود ہے الحمد اللہ
آپ کاشکریہ
جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
برادر صالح حسن کے جواب پر اہل علم کا تبصرہ بھی درکار ہے کیونکہ معلوم نہیں جواب لکھنے والے کی علمی قابلیت کیا ہے اور جواب کہاں تک درست اور مفید ہے۔
 
Top