"لولاک لما خلقت الافلاک"کو مولانا تھانویؒ نے "امداد الفتاوی" میں اور مولانا شاہ عبدالعزیزدہلوی نے "فتاویٰ عزیزی "میں موضوع لکھا ہے ،علامہ شوکانی ؒنے "الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ" میں موضوع بتایا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ نے "موضوعات کبیر"میں فرمایا ہے کہ صنعانی نے اس کو موضوع کہا ہے لیکن اس کے معنیٰ صحیح ہیں ،علامہ دیلمی نے ابن عباس ؓ سے مرفوعا روایت کو نقل کیا ہے کہ:"اتانی جبرئیل فقال یا محمد لولاک لما خلقت الجنۃ،لولاک لما خلقت النار"،وفی روایۃ ابن عساکر" لولاک لما خلقت الدنیا"،اس سے معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ موضوع ہیں مگر معنیٰ صحیح ہیں ۔
(فتاویٰ محمودیہ:۸۴/۴)
ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لئے دیلمی کی روایت اور ابنِ عساکر کی روایت لولاک ما خلقت الدنیا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جبکہ بلا شک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔ ابن عساکر والی روایت کو سیو طی اور ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔مسند الفردوس دیلمی کی اور ابن عساکر بےسروپارروایات سے پر ہیں ا س لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا،
اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے:
أقول: الجزم بصحة معناه لا يليق إلا بعد ثبوت ما نقله عن الديلمي، وهذا مما لم أر أحدا تعرض لبيانه، وأنا وإن كنت لم أقف على سنده، فإنى لا أتردد في ضعفه، وحسبنا في التدليل على ذلك تفرد الديلمي به، ثم تأكدت من ضعفه، بل وهائه، حين وقفت على إسناده في " مسنده " (1 / 41 / 2) من طريق عبيد الله بن موسى القرشي حدثنا الفضيل بن جعفر بن سليمان عن عبد الصمد بن علي بن عبد الله ابن عباس عن أبيه عن ابن عباس به.
قلت: وآفته عبد الصمد هذا، قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، ولا يعرف إلا به.
قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی کہ :
"جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں"(الذاریات : ۵۶)
گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ نے جن و انس کی پیدائش کوئی اور مقصد نہیں بتایا کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے پیدا کیا یا اس کے لئے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ
مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۹ پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے
لولاک لما خلقت الافلاک
سوچئے! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع من گھڑ ت اور جھوٹی روایت میں ہے؟
<