• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تمام کائنات نبی کریم ﷺ کے لیے معرض الوجود میں آئی ہے؟آپ ﷺ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا!

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
﷽​
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ،​
جزاک اللہ خیرا عبدالرحیم رحمانی بھائی​
ایک تھریڈ میں آپ نے اس امیج کو منسلک کیا ہےاور​
ایک عرصے سے مجھے اس موضوع پر مواد کی تلاش تھی،​
بہت افسوس کے ساتھ کہ ہمارے یہاں سادہ لوح لوگوں میں یہ عقیدہ بہت پختہ ہے۔ان کے لیے نبی کریم ﷺ سے عقیدت اور محبت اس عقیدے کو پروان چڑھا کر کی جاتی ہے۔اس موضوع پر مجھے بہت طرح کے لوگ ملے ہیں،​
مگر سوال یہ ہے کہ انھیں کیسے سمجھایا جائے؟؟​
قرآن و سنت کی روشنی میں وہ دلیل اکھٹی کی جائیں ، جن سے اس من گھڑت روایت کو ختم کیا جائے۔یہ تھریڈ اسی مقصد کے لیے شروع کیا ہےکہ اس میں قرآن و سنت سے دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی شامل ہو جائیں تاکہ ایسے لوگوں کو سمجھانے میں آسانی ہو سکے۔​
اراکین سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر بھی تحریر کریں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قرآن کی آیت ہے : ’’ وما خلقت الجن والإنس إلا لیعبدون ‘‘
میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیق کا اصل مقصد اللہ کی عبادت ہے ۔
ویسے جو روایت موضوع اور من گھڑت ہو اس کو رد کرنے کے لیے کسی صحیح دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
اس کا ’’ من گھڑت ‘‘ ہونا ہی اس کے مردود ہونے کے لیے کافی ہے ۔
کوئی آدمی جھوٹ بول کر کہے کہ میری اس بات کی قرآن و سنت سے تردید کرو۔ تو ظاہر ہے ہم تردید کے لیے قرآن و سنت کے دلائل تلاش کرنا تو نہیں شروع کردیں گے ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
"لولاک لما خلقت الافلاک"کو مولانا تھانویؒ نے "امداد الفتاوی" میں اور مولانا شاہ عبدالعزیزدہلوی نے "فتاویٰ عزیزی "میں موضوع لکھا ہے ،علامہ شوکانی ؒنے "الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ" میں موضوع بتایا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ نے "موضوعات کبیر"میں فرمایا ہے کہ صنعانی نے اس کو موضوع کہا ہے لیکن اس کے معنیٰ صحیح ہیں ،علامہ دیلمی نے ابن عباس ؓ سے مرفوعا روایت کو نقل کیا ہے کہ:"اتانی جبرئیل فقال یا محمد لولاک لما خلقت الجنۃ،لولاک لما خلقت النار"،وفی روایۃ ابن عساکر" لولاک لما خلقت الدنیا"،اس سے معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ موضوع ہیں مگر معنیٰ صحیح ہیں ۔
(فتاویٰ محمودیہ:۸۴/۴)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
"لولاک لما خلقت الافلاک"کو مولانا تھانویؒ نے "امداد الفتاوی" میں اور مولانا شاہ عبدالعزیزدہلوی نے "فتاویٰ عزیزی "میں موضوع لکھا ہے ،علامہ شوکانی ؒنے "الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ" میں موضوع بتایا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ نے "موضوعات کبیر"میں فرمایا ہے کہ صنعانی نے اس کو موضوع کہا ہے لیکن اس کے معنیٰ صحیح ہیں ،علامہ دیلمی نے ابن عباس ؓ سے مرفوعا روایت کو نقل کیا ہے کہ:"اتانی جبرئیل فقال یا محمد لولاک لما خلقت الجنۃ،لولاک لما خلقت النار"،وفی روایۃ ابن عساکر" لولاک لما خلقت الدنیا"،اس سے معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ موضوع ہیں مگر معنیٰ صحیح ہیں ۔
(فتاویٰ محمودیہ:۸۴/۴)
ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لئے دیلمی کی روایت اور ابنِ عساکر کی روایت لولاک ما خلقت الدنیا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جبکہ بلا شک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔ ابن عساکر والی روایت کو سیو طی اور ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔مسند الفردوس دیلمی کی اور ابن عساکر بےسروپارروایات سے پر ہیں ا س لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا،
اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے:
أقول: الجزم بصحة معناه لا يليق إلا بعد ثبوت ما نقله عن الديلمي، وهذا مما لم أر أحدا تعرض لبيانه، وأنا وإن كنت لم أقف على سنده، فإنى لا أتردد في ضعفه، وحسبنا في التدليل على ذلك تفرد الديلمي به، ثم تأكدت من ضعفه، بل وهائه، حين وقفت على إسناده في " مسنده " (1 / 41 / 2) من طريق عبيد الله بن موسى القرشي حدثنا الفضيل بن جعفر بن سليمان عن عبد الصمد بن علي بن عبد الله ابن عباس عن أبيه عن ابن عباس به.
قلت: وآفته عبد الصمد هذا، قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، ولا يعرف إلا به.

قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی کہ :
"جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں"(الذاریات : ۵۶)
گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ نے جن و انس کی پیدائش کوئی اور مقصد نہیں بتایا کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے پیدا کیا یا اس کے لئے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۹ پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے لولاک لما خلقت الافلاک
سوچئے! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع من گھڑ ت اور جھوٹی روایت میں ہے؟
<
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
"لولاک لما خلقت الافلاک"کو مولانا تھانویؒ نے "امداد الفتاوی" میں اور مولانا شاہ عبدالعزیزدہلوی نے "فتاویٰ عزیزی "میں موضوع لکھا ہے ،علامہ شوکانی ؒنے "الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ" میں موضوع بتایا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ نے "موضوعات کبیر"میں فرمایا ہے کہ صنعانی نے اس کو موضوع کہا ہے لیکن اس کے معنیٰ صحیح ہیں ،علامہ دیلمی نے ابن عباس ؓ سے مرفوعا روایت کو نقل کیا ہے کہ:"اتانی جبرئیل فقال یا محمد لولاک لما خلقت الجنۃ،لولاک لما خلقت النار"،وفی روایۃ ابن عساکر" لولاک لما خلقت الدنیا"،اس سے معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ موضوع ہیں مگر معنیٰ صحیح ہیں ۔
(فتاویٰ محمودیہ:۸۴/۴)
اس حدیث کے بارے امام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں:
لكن ليس هذا حديثا عن النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم لا صحيحا ولا ضعيفا !!!! ولم ينقله أحد من أهل العلم بالحديث عن النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم !!!! بل ولا يعرف عن الصحابة !!! بل هو كلام لا يدرى قائله !
اس طرح ایک عرب عالم صبحی حیزان بھی اس حدیث کے معنی کے بارے یوں وضاحت فرماتے ہیں:
حديث :لولاك ما خلقت الدنيابعد البحث ولتحقيق فيه تبين لي بأنه حديث موضوع باتفاق
ولا أظن أن هناك بديل صحيح يوافق معناه ولكن البديل يخالف هذا الحديث الموضوع
وهو قول الله تعالى : (وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون)
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
( لولاک لما خلقت الافلاک )

اگر آپ نہ ہوتے تو میں مخلوق بھی پیدا نہ کرتا ۔

یہ حدیث علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی نے " الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ص ( 326 ) میں ذکر کرنے کے بعدکہا ہے :

صنعانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے موضوع قرار دیا ہے ۔ ا ھـ

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ ضعیفہ ( 282 ) میں موضوع کہا ہے ۔ اھـ

اورایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے :

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ :

( اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو وحی فرمائ اے عیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاؤ ، اوراپنی امت کوبھی یہ حکم دے دو کہ جوبھی انہیں پالیں وہ اس پر ایمان لائيں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا ۔

اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں جنت اورجہنم بھی پیدا نہ کرتا ، میں نے پانی پر عرش پیدا کیا تووہ ہلنے لگا تو میں نےاس پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، لکھ دیا تووہ حرکت کرنا بندہوگیا )۔

امام حاکم نے اس کی سند کوصحیح قرار دیا ہے لیکن امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے ان کا تعاقب کرتے ہوۓ یہ کہا کہ میرا خیال ہے کہ سعید پریہ موضوع ہے ۔ ا ھـ

یعنی اس حدیث کے راویوں میں سعید بن عروبہ شامل ہے جس سے عمرو بن اوس انصاری نے یہ حدیث بیان کی ہے اور عمرو کویہ حدیث وضع کرنے سے متھم کیا گيا ہے ، امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے " میزان الاعتدال " میں ذکر کرتے ہوۓ کہا ہے کہ :

یہ ایک منکر خبر لایا ہے ، پھر انہوں نے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔

اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلہ ضعیفہ میں کہا ہے کہ اس کی کوئ اصل نہیں " لا اصل لہ " الضعیفـۃ ( 280 ) ا ھـ

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا کہ :

بعض لوگ یہ حدیث ( لولاک ماخلق اللہ عرشا ولا کرسیا ولا ارضا ولا سماء ولا شمسا ولاقمرا ولا غیر ذالک ) کہ اگر آپ نہ ہوتے نہ تو اللہ تعالی عرش اور کرسی ، اورنہ ہی ارض وسما ، اورنہ ہی شمس وقمر ، اور نہ ہی کوئ اورچیز ہی پیدا فرماتا ) ۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ نہیں ؟ ۔

تو ان کا جواب تھا :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اولاد آدم کے سردار اوراللہ تعالی کے ہاں مخلوق میں سے افضل اوراکرم ترین ہیں ، تواس لحاظ سے کسی نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی سارا عالم پیدا فرمایا ، اور یا یہ کہ دیا کہ : اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اللہ تعالی عرش وکرسی اور نہ ہی آسمان وزمین ، اورنہ ہی شمس وقمر پیدا فرماتا ۔

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تو یہ صحیح اور نہ ہی ضعیف حدیث ہے ، اور حدیث کا علم رکھنے والے علماء میں سے کسی نے بھی اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کیا بلکہ یہ تو صحابہ کرام سے بھی معروف نہیں ، بلکہ اس کے قائل کا ہی علم نہیں کہ وہ کون ہے ۔ اھـ ۔ مجموع الفتاوی ( 11 / 86 - 96 ) ۔

لجنۃ دائمہ ( سعودی عرب کی مستقل فتوی کمیٹی ) سے یہ سوال کیا گيا کہ :

کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے آسمان وزمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپیدا کرنے کے لیے بناۓ ، اور حدیث " لولاک لما خلق اللہ الافلاک " کا معنی کیا ہے اور کیا اس حدیث کی کوئ اصل ہے ؟

توکمیٹی کا جواب تھا :

آسمان وزمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیدا نہیں کیے گۓ بلکہ ان کے بنانے کا مقصد تووہی ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :

{ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بناۓ اوراسی طرح (سات ) زمینیں بھی ، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تا کہ تم جان لو کہ اللہ تعالی ہر چيزپرقادر ہے اوراللہ تعالی نے علم کے اعتبار سے ہرچيز کو گھیررکھا ہے } ۔

اورحديث مذکورہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرکذب ہے جو کہ موضوع ہے اور اس کی کوئ اصل نہیں ملتی جو کہ صحیح ہو۔ اھـ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 1 / 312 ) ۔

اس حدیث کے بارہ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے بھی سوال کیا گیا توان کا جواب تھا کہ :

یہ ایسی کلام ہے جو کہ عام لوگوں سے نقل کی جاتی ہے اور وہ سمجھتے بھی نہیں کہ ہم کیا نقل کررہے ہیں ، بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بنائ گئ اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو دنیا نہ بنائ جاتی اور نہ ہی لوگ پیدا کیے جاتے ، تو یہ باطل ہے جس کی کوئ اصل نہیں ۔

اوریہ کلام فاسد ہے کیونکہ اللہ تعالی نے دنیا تو اس لیے پیدا فرمائ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی پہچان ہوسکے اور اس کی عبادت کی جاۓ ، اللہ تعالی نے تودنیااورمخلوق تواس لیے پیدا فرمائي ہے کہ :

وہ اپنے اسماء و صفات اور قدرت اورعلم سے جانا جاسکے اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کی اطاعت کی جاۓ نہ کہ یہ سب کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اور نہ ہی عیسی اور موسی اور دوسرے انبیاء علیھم السلام کی وجہ سے ۔

بلکہ اللہ تعالی نے مخلوق تو اس لیے بنائ کہ اس وحدہ لاشریک کی عبادت ہو ۔ فتاوی نور علی الدرب ( 46 ) یہ فتوی ( اذاعۃ القرآن )قرآن ریڈیوسعودی عرب پر نشر ہوتا ہے

واللہ تعالی اعل
 

وقار عظیم

مبتدی
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
28
ویسے بہت عجیب سی بات لگتی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دنیا کو بنایا گیا تو اس بات کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں
آدم علیہ سلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگی اس بات کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں ہے
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا اس بات کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں
حالانکہ یہ تین باتیں بہت اہم ہیں ۔ اور یہ تینوں باتیں قرآن کی آیات کے خلاف بھی ہیں پھر بھی یہ لوگ ان باتوں کی پیروی کرتے ہیں
کیا یہ آیت ایسے لوگوں کے بارے میں نہیں ہے

ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ Ċ۝



وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
" ملا علی قاریؒ نے "موضوعات کبیر"میں فرمایا ہے کہ صنعانی نے اس کو موضوع کہا ہے لیکن اس کے معنیٰ صحیح ہیں
ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ معنی ہو کہ چونکہ اللہ نے تمام انسانوں کو صرف عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور اسی بات پر فرشتوں نے اعتراض بھی کیا کہ انسان خواہش کے ساتھ کیسے عبادت کرے گا تو اللہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی اللہ جانتا تھا کہ کچھ ان میں اللہ کے لئے ہر خواہش کو قربان کر دیں گے اب اس عبادت کی معراج کو تو صرف اللہ کے نبی ہی پہنچ سکتے تھے تو انکے بغیر عبادت کی معراج کیسے حاصل ہوتی جب معراج نہ ہوتی تو پھر افلاک کو پیدا کرنے کا کیا کام ہوتا-
شاہد انکے نزدیک اسکے معنی صحیح ہونے کا یہ مطلب ہو واللہ اعلم
 
Top