حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ معنی ہو کہ چونکہ اللہ نے تمام انسانوں کو صرف عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور اسی بات پر فرشتوں نے اعتراض بھی کیا کہ انسان خواہش کے ساتھ کیسے عبادت کرے گا تو اللہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی اللہ جانتا تھا کہ کچھ ان میں اللہ کے لئے ہر خواہش کو قربان کر دیں گے اب اس عبادت کی معراج کو تو صرف اللہ کے نبی ہی پہنچ سکتے تھے تو انکے بغیر عبادت کی معراج کیسے حاصل ہوتی جب معراج نہ ہوتی تو پھر افلاک کو پیدا کرنے کا کیا کام ہوتا-
شاہد انکے نزدیک اسکے معنی صحیح ہونے کا یہ مطلب ہو واللہ اعلم
ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لئے دیلمی کی روایت اور ابنِ عساکر کی روایت لولاک ما خلقت الدنیا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جبکہ بلا شک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔ ابن عساکر والی روایت کو سیو طی اور ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔مسند الفردوس دیلمی کی اور ابن عساکر بےسروپارروایات سے پر ہیں ا س لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا،
اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے:
أقول: الجزم بصحة معناه لا يليق إلا بعد ثبوت ما نقله عن الديلمي، وهذا مما لم أر أحدا تعرض لبيانه، وأنا وإن كنت لم أقف على سنده، فإنى لا أتردد في ضعفه، وحسبنا في التدليل على ذلك تفرد الديلمي به، ثم تأكدت من ضعفه، بل وهائه، حين وقفت على إسناده في " مسنده " (1 / 41 / 2) من طريق عبيد الله بن موسى القرشي حدثنا الفضيل بن جعفر بن سليمان عن عبد الصمد بن علي بن عبد الله ابن عباس عن أبيه عن ابن عباس به.
قلت: وآفته عبد الصمد هذا، قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، ولا يعرف إلا به.
قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی کہ :
"جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں"(الذاریات : ۵۶)
گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ نے جن و انس کی پیدائش کوئی اور مقصد نہیں بتایا کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے پیدا کیا یا اس کے لئے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۹ پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے لولاک لما خلقت الافلاک
سوچئے! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع من گھڑ ت اور جھوٹی روایت میں ہے؟
اس حدیث کے بارے امام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں:
لكن ليس هذا حديثا عن النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم لا صحيحا ولا ضعيفا !!!! ولم ينقله أحد من أهل العلم بالحديث عن النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم !!!! بل ولا يعرف عن الصحابة !!! بل هو كلام لا يدرى قائله !
اس طرح ایک عرب عالم صبحی حیزان بھی اس حدیث کے معنی کے بارے یوں وضاحت فرماتے ہیں:
حديث :لولاك ما خلقت الدنيابعد البحث ولتحقيق فيه تبين لي بأنه حديث موضوع باتفاق
ولا أظن أن هناك بديل صحيح يوافق معناه ولكن البديل يخالف هذا الحديث الموضوع
وهو قول الله تعالى : (وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون)