• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تم مجھے یزید کے بارے میں حسن رائے رکھنے پر ملامت کرتے ہو؟ میرے ماں باپ یزید پر قربان

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا تم مجھے یزید کے بارے میں حسن رائے رکھنے پر ملامت کرتے ہو؟ میرے ماں باپ یزید پر قربان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں، یہ سیدنا علی کے بھتیجے و حسین رضی اللہ عنہ کے کزن و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار تھے۔ صحيح مسلم کی حدیث ہے:

حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: «أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ يَوْمٍ خَلْفَهُ، فَأَسَرَّ إِلَيَّ حَدِيثًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ»

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حسن بن سعد نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا، پھر مجھے راز داری سے ایک بات بتائی جو میں لوگوں میں سے کسی بھی شخص کو نہیں سناؤں گا۔


[صحيح مسلم حدیث نمبر: ۶۲۷۰]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو ان کے استقبال کے لیے حسن حسین و عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ آیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کے ساتھ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں اپنی سواری پر سوار کر لیا کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ - وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا وقَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا - أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْيَانِ أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ: وَإِنَّهُ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَسُبِقَ بِي إِلَيْهِ، فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ جِيءَ بِأَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَةَ، فَأَرْدَفَهُ خَلْفَهُ، قَالَ: فَأُدْخِلْنَا الْمَدِينَةَ، ثَلَاثَةً عَلَى دَابَّةٍ "

ابو معاویہ نے عاصم احول سے، انھوں نے مورق عجلی سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے آتے تو آپ کے گھر کے بچوں کو (باہر لے جاکر) آپ سے ملایا جاتا، ایک بار آپ سفر سے آئے، مجھے سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے بٹھا لیا۔کہا: تو ہم تینوں کو ایک سواری پر مدینہ کے اندر لایا گیا۔


[صحيح مسلم حدیث نمبر: ۶۲۶۸]

سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بہت اچھے دوست تھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا یزید رحمہ اللہ کو ان کی عزت و اکرام کرنے کی نصیحت فرمائی تھی۔

أَنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ لِيَزِيدَ: إِنَّ لِي خَلِيلًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَأَكْرِمْهُ. قَالَ: وَمَنْ هُوَ؟ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید رحمہ اللہ سے کہا کہ بلاشبہ اہل مدینہ میں میرا ایک دوست ہے اس کی عزت کرنا، یزید رحمہ اللہ نے پوچھا وہ کون ہے؟ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ۔


[البداية والنهاية، ج: ١١، ص:٨٤٥]

اب ملاحظہ فرمائیں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں وہ سیدنا یزید رحمہ اللہ سے کس قدر محبت کرتے ہیں اور سیدنا یزید رحمہ اللہ بھی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی کتنی عزت و احترام کرتے تھے۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ فَلَمَّا وَفَدَ بَعْدَ مَوْتِ مُعَاوِيَةَ عَلَى يَزِيدَ أَضْعَفَ جَائِزَتَهُ الَّتِي كَانَ مُعَاوِيَةُ يُعْطِيهِ إِيَّاهَا، وَكَانَتْ جَائِزَتُهُ عَلَى مُعَاوِيَةَ سِتَّمِائَةِ أَلْفٍ، فَأَعْطَاهُ يَزِيدُ أَلْفَ أَلْفٍ، فَقَالَ لَهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي. فَأَعْطَاهُ أَلْفَ أَلْفٍ أُخْرَى. فَقَالَ لَهُ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَا أَجْمَعُ أَبَوَيَّ لِأَحَدٍ بَعْدَكَ.

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید رحمہ اللہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ انہیں جو عطیہ دیتے تھے یزید رحمہ اللہ نے اسے دو گنا کر دیا، اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذمہ ان کا چھ لاکھ عطیہ تھا، یزید رحمہ اللہ نے انہیں ایک کروڑ دیا تو سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے یزید سے فرمایا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔ تو یزید نے انہیں ایک کروڑ اور دیا، تو سیدنا عبد اللہ بن جعفر نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تیرے بعد کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو اکٹھا نہیں کیا(یعنی تیرے بعد کسی کو نہیں کہا کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان)۔

وَلَمَّا خَرَجَ ابْنُ جَعْفَرٍ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ - وَقَدْ أَعْطَاهُ أَلْفَيْ أَلْفٍ - رَأْي عَلَى بَابِ يَزِيدَ بَخَاتِيَّ مُبَرِّكَاتٍ، قَدْ قَدِمَ عَلَيْهَا هَدِيَّةٌ مِنْ خُرَاسَانَ، فَرَجَعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ إِلَى يَزِيدَ، فَسَأَلَهُ مِنْهَا ثَلَاثَ بَخَاتِيَّ لِيَرْكَبَ عَلَيْهَا إِلَى الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ

اور جب سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید رحمہ اللہ کے ہاں سے نکلے اور انہوں نے آپ کو دو کروڑ درہم دئیے تھے تو آپ نے یزید رحمہ اللہ کے دروازے پر بختی اونٹ بیٹھے ہوئے دیکھے جن پر خراسان سے ہدیہ آیا تھا، سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ پھر یزید رحمہ اللہ کے پاس گئے اور ان سے تین بختی اونٹوں کا مطالبہ کیا، تاکہ آپ ان پر سوار ہو کر حج و عمرہ کر سکیں۔

وَإِذَا وَفَدَ إِلَى الشَّامِ عَلَى يَزِيدَ. فَقَالَ يَزِيدُ لِلْحَاجِبِ: مَا هَذِهِ الْبَخَاتِيُّ الَّتِي عَلَى الْبَابِ؟ - وَلَمْ يَكُنْ شَعَرَ بِهَا - فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَذِهِ أَرْبَعُمِائَةِ بُخْتِيَّةٍ جَاءَتْنَا مِنْ خُرَاسَانَ تَحْمِلُ أَنْوَاعَ الْأَلْطَافِ - وَكَانَ عَلَيْهَا أَنْوَاعٌ مِنَ الْأَمْوَالِ كُلِّهَا - فَقَالَ: اصْرِفْهَا إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ بِمَا عَلَيْهَا. فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ يَقُولُ: أَتَلُومُونَنِي عَلَى حُسْنِ الرَّأْيِ فِي هَذَا؟ ! يَعْنِي يَزِيدَ.

اور جب سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید رحمہ اللہ کے پاس شام آئے تو یزید رحمہ اللہ نے حاجب سے کہا، دروازے پر یہ بختی اونٹ کیسے ہیں؟ انہیں ان اونٹوں کا پتہ نہ تھا، اور ان پر کئی قسم کے اموال تھے، یزید رحمہ اللہ نے کہا انہیں اموال سمیت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دو، اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، کیا تم مجھے اس یعنی یزید رحمہ اللہ کے بارے حسن رائے رکھنے پر ملامت کرتے ہو؟
(تم تو پاگل ہو)

[البداية والنهاية، ج: ١١، ص:٨٤٥،٨٤٦]

یہ تھی سیدنا یزید رحمہ اللہ کی سخاوت اور اہل بیت سے محبت و صلہ رحمی اور اب نام نہاد حسینوں کے مطابق عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی یزیدی صحابی ہو گئے جو کہ یزید رحمہ اللہ کے لیے فرماتے ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں یہ صرف آپ کے لیے ہی کہوں گا،
یقین کریں ایسے یزید کے بارے وہ بھی نہیں کہتے جن کو آج کے نام نہاد حسینی لوگ یزیدی کہتے ہیں۔
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
684
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
محترم کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر ،یا کسی کے ایک آدمی سے اچھے رویے پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ انتہائی پارسا یا نیک آدمی تھا
اہل سنت کے کبار آئمہ کرام نے درج ذیل الفاظ میں یزید کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے
امام ذہبی اور ابن تیمیہ رحمہما اللہ کی کلام پیش خدمت ہے

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے کبار صحابہ شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں مسند اقتدار پر بیٹھ گیا اور چار برس سے بھی کم عرصہ حکومت کی ۔
یزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئی ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں آئے ، اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بھی بد تر تھے ۔
اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئی کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ رسالت مآب کی وفات سے کافی قرییب کا زمانہ ہےاورصحابہ کرام بھی کثیر تعداد میں موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔
اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، لوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں ہوئی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئی ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے ۔
سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوۓ کہا ہے :

یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ توافراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ھاتھوں میں اٹھایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائ ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اورہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ابہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئ ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گۓ ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا توکچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ، اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارہ میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا :

ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ،۔

اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ

مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔واللہ تعالی اعلم .
 
Top