ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ راوی اگر چہ امام ذہبی کے نزدیک ثقہ ہے لیکن ان کی جرح اس کی کسی خاص روایت میں نکارت کی وجہ سے ہے۔
عود روح کی روایت اور الذھبی کا موقف
حاکم مستدرک میں لکھتے ہیں
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين فقد احتجا جميعا بالمنهال بن عمرو و زاذان أبي عمر الكندي
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے، بے شک انہوں نے منہال بن عمرو اور زاذان ابو عمر الکندی سے احتجاج کیا ہے
لیکن حاکم کی یہ بات درست نہیں. امام مسلم نے منہال بن عمرو سے کوئی روایت نہیں لی
اس غلطی کو ذھبی نے بھی تلخیص مستدرک میں دہرایا اور کہا
تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرطهما فقد احتجا بالمنهال
ان دونوں کی شرط پر بے شک انہوں نے منہال سے احتجاج کیا ہے
یہ بات ذھبی نے اس وقت لکھی تھی جب انہوں نے اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام نہیں لکھیں تھیں
ذھبی تاریخ الاسلام ج ١ میں کہتے ہیں
وفي بعض ذلك موضوعات قد أعلمت بها لما اختصرت هذا ” المستدرك ” ونبهت على ذلك
اور ان کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے جب میں نے مستدرک کا اختصار کیا ہے
سیر الاعلام النبلاء ج ١٧ میں حاکم کے بارے میں لکھتے ہیں
وبكل حال فهو كتاب مفيد قد اختصرته
اور یہ مفید کتاب ہے میں نے اس کو مختصر کیا ہے
معلوم ہوا کہ مستدرک پر تلخیص سیر اور تاریخ جیسے ضخیم کام سے پہلے ہوئی. ذھبی نے اپنے اس تحقیقی کام میں اپنی ہی تصحیح کا رد کر دیا
الذهبی کتاب تاریخ الاسلام میں منہال کے لئے لکھتے ہیں
قلت : تفرد بحديث منكر ونكير عن زاذان عن البراء
میں کہتا ہوں: منکر نکیر والی حدیث جو زاذان عن البراء سے ہے اس میں اس کا تفرد ہے
ذھبی کتاب سیر لاعلم النبلاء میں منہال کے لئے لکھتے ہیں
حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ
المنھال بن عمرو کی قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے
الذهبی کی رائے کو محقق زبیر علی زئی خاطر میں نہیں لاتے حتی کہ ترجمہ تک میں تلبیس کرتے ہیں
اس کا جواب محمّد خبیب احمد مقالات اثری میں دیتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے
معلوم ہوا تلخیص مستدرک میں اصلاح کی ضرورت ہے اور سیر الاعلام النبلاء، مستدرک پر تلخیص کے بعد لکھی گئی