Dua
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 30، 2013
- پیغامات
- 2,579
- ری ایکشن اسکور
- 4,440
- پوائنٹ
- 463
قرآن و سنت میں حافظ قرآن سے شادی کرنے کا کیا اجر وثواب اور فوائد بیان کئے گئے ہیں، جب کہ مہر بھی قرآن ہی ہو؟ اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔
الحمد للہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں
حافظ قرآن سے شادی کرنے کی وہی فضیلت ہے جو میراث نبوت کے حامل شخص سے شادی کرنے کی ہے، چنانچہ اگر حافظ قرآن باعمل ہو تو ایسے شخص میں تمام اچھی صفات جمع ہوچکی ہیں؛ باطنی خیر ایسے کہ اس نے اپنے سینے میں قرآن کو جگہ دی ہے، اور ظاہری خیر یہ ہے کہ وہ نیک صالح اور اچھا انسان ہے؛
اللہ تعالی نے فرمایا: ( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ) ترجمہ: "ہم نے اپنی کتا ب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص کیا "فاطر/32،
ایسے ہی فرمایا: ( إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ. لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ) ترجمہ: "یقینا اللہ کی کتاب قرآن مجید کو پڑھنے والے ، نمازیں قائم کرنے والے، اور چھپ کر و سرِعام ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے والے لوگ ایسی تجارت سے پُر امید ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا۔ تا کہ اللہ تعالی انہیں پورا اجر دینے کے بعد اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے وہ بیشک بخشنے والا اور قدر کرنے والا ہے" فاطر/29-30
مطرف رحمہ اللہ جب اس آیت مبارکہ کو پڑھتے تو کہتے: "یہ آیت قراء کرام کیلئے ہے" دیکھیں "تفسیر ابن کثیر " (6/545)
ان فضائل اور اجر کے حامل شخص سے شادی میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو ہمیشہ خوش رکھے، اور آنیوالی نسل بھی اچھی ہو، اور پورا خاندان خوش و خرم اور پر اطمینان ہو۔
یاد رہے کہ اس سب کچھ کیلئے حافظ قرآن کا باعمل ہونا ضروری ہے، قرآنی اخلاقیات و آداب اس میں پائے جائیں، ہر معاملے میں اللہ سے ڈرنے والا ہو، شادی کیلئے ایسی شخصیت ہی ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کو تلاش کرنی چاہئے، بے عمل حافظ نہ ہو، کہ طوطے کی طرح صرف الفاظ کو رٹہ لگالے اور چال چلن میں کوئی فرق نہ آئے ایسے شخص سے بچنا چاہئے، جیسے کہ ابن الجوزی نے "تلبیس ابلیس "صفحہ (137-140) پر ایک مفصل باب میں اسی کے بارے میں تنبیہ بھی کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کرام کی حافظِ قرآن ہونے کی وجہ سے شادی کی، چنانچہ سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں میں بیٹھا تھا، ایک عورت کھڑی ہوئی اور کہا: یا رسول اللہ! اس خاتون نے اپنا نفس آپکو ہبہ کردیا ہے، آپ اسکے بارے میں سوچ لیں، چنانچہ آپ نے کوئی جواب نہ دیا، پھر کھڑے ہوکر کہنے لگی، اس خاتون نے اپنا نفس آپکو ہبہ کردیا ہے، آپ اسکے بارے میں سوچ لیں، پھر تیسری بار کھڑے ہوکر کہنے لگی: اس خاتون نے اپنا نفس آپکو ہبہ کردیا ہے، آپ اسکے بارے میں سوچ لیں۔ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میری اس سے شادی کردو۔ آپ نے فرمایا:"تمہارے پاس کچھ ہے؟" کہا : نہیں، فرمایا: "جاؤ کچھ لیکر آؤ چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو"چنانچہ یہ آدمی گیا اور تلاش کر نے کے بعد کہا: مجھے کچھ نہیں ملا ، لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، فرمایا: "کیا تمہیں قرآن یاد ہے؟" کہا: مجھے فلاں ، فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ نے فرمایا: "جاؤ میں نے اسے تمہارے ساتھ حفظ شدہ قرآن کے بدلے میں بیاہ دیا ہے")امام بخاری نے اس حدیث کو (5149)پر باب:"قرآن کو حق مہر بناکر شادی کرنا"کے تحت بیان کیا ہے، اور مسلم نے حدیث نمبر (1425)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : "قاضی عیاض کے ہاں (بما معك من القرآن) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ان میں سے قریب ترین یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو حفظ شدہ چند سورتیں یا ایک معین مقدار یاد کروائے اور یہ اسکا حق مہر ہوگا، یہ مطلب امام مالک سے بھی روایت کیا گیا ہے، اس معنی کی تائید حدیث کے دیگر صحیح الفاظ سے بھی ہوتی ہے(فعلمها من القرآن) "یعنی اسے قرآن سیکھاؤ" دوسرا احتمال یہ ہے کہ "باء"بمعنی "لام" ہو، یعنی تمہاری شادی تمہیں قرآن یاد ہونے کی وجہ سے کی ہے، کہ آپ نے خاتون سے اسکی شادی بغیر مہر کے بطورِ تکریم کردی صرف اس لئے کہ وہ مکمل یا کچھ قرآن کا حافظ ہے۔
کچھ ایسا ہی قصہ ابو طلحہ کا ام سلیم کے ساتھ ہوا تھا، جسے امام نسائی نے روایت بھی کیا اور صحیح بھی کہا کہ وہ جعفر بن سلیمان سے انہوں نے ثابت سے وہ انس سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: (ابو طلحہ نے ام سلیم کو منگنی کا پیغام بھیجا، تو ام سلیم نے جواب دیا: اللہ کی قسم! تمہارے جیسے شخص کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن توں کافر ہے اور میں مسلمان ہوں ، میرے لئے تمہارے ساتھ شادی جائز نہیں ، لہذا اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو یہی میرا مہر ہوگا، میں تم سے اس کے علاوہ کچھ نہیں طلب کرونگی، اس ابو طلحہ مسلمان ہوگئے اور یہ ام سلیم کا مہر قرار پایا)
امام نسائی ہی نے عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی طلحہ سے انہوں نے انس سے بیان کیا کہ (ابو طلحہ نے ام سلیم سے شادی کی اور انکا مہر اسلام تھا)مکمل قصہ بیان کرنے کے بعد آخر میں کہا: "یہی دونوں کے مابین حق مہر تھا" اس عبارت پر امام نسائی نے باب کا عنوان قائم کیا "اسلام کو مہر بنا کر شادی کرنا" پھر سھل رضی اللہ عنہ کی حدیث پر باب کا عنوان قائم کیا: "قرآن مجید کی سورت کو حق مہر بنا کر شادی کرنا"اس سے محسوس ہوتا ہے کہ امام نسائی دوسرے احتمال کو راجح قرار دے رہے ہیں، انتہی مختصراً، "فتح الباری"(9/212-213)
مندرجہ بالا تحریر کے بعد ، ہمیں کوئی ایسی خاص حدیث یا اثر نہیں ملا جس میں حافظ قرآن سے شادی کرنے کی کوئی خاص فضلیت ذکر کی گئی ہو، کہ اسکے لئے خاص اجر یا ثواب ہوگا۔
و اللہ اعلم .
اسلام سوال و جواب
الحمد للہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں
حافظ قرآن سے شادی کرنے کی وہی فضیلت ہے جو میراث نبوت کے حامل شخص سے شادی کرنے کی ہے، چنانچہ اگر حافظ قرآن باعمل ہو تو ایسے شخص میں تمام اچھی صفات جمع ہوچکی ہیں؛ باطنی خیر ایسے کہ اس نے اپنے سینے میں قرآن کو جگہ دی ہے، اور ظاہری خیر یہ ہے کہ وہ نیک صالح اور اچھا انسان ہے؛
اللہ تعالی نے فرمایا: ( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ) ترجمہ: "ہم نے اپنی کتا ب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص کیا "فاطر/32،
ایسے ہی فرمایا: ( إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ. لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ) ترجمہ: "یقینا اللہ کی کتاب قرآن مجید کو پڑھنے والے ، نمازیں قائم کرنے والے، اور چھپ کر و سرِعام ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنے والے لوگ ایسی تجارت سے پُر امید ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا۔ تا کہ اللہ تعالی انہیں پورا اجر دینے کے بعد اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے وہ بیشک بخشنے والا اور قدر کرنے والا ہے" فاطر/29-30
مطرف رحمہ اللہ جب اس آیت مبارکہ کو پڑھتے تو کہتے: "یہ آیت قراء کرام کیلئے ہے" دیکھیں "تفسیر ابن کثیر " (6/545)
ان فضائل اور اجر کے حامل شخص سے شادی میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو ہمیشہ خوش رکھے، اور آنیوالی نسل بھی اچھی ہو، اور پورا خاندان خوش و خرم اور پر اطمینان ہو۔
یاد رہے کہ اس سب کچھ کیلئے حافظ قرآن کا باعمل ہونا ضروری ہے، قرآنی اخلاقیات و آداب اس میں پائے جائیں، ہر معاملے میں اللہ سے ڈرنے والا ہو، شادی کیلئے ایسی شخصیت ہی ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کو تلاش کرنی چاہئے، بے عمل حافظ نہ ہو، کہ طوطے کی طرح صرف الفاظ کو رٹہ لگالے اور چال چلن میں کوئی فرق نہ آئے ایسے شخص سے بچنا چاہئے، جیسے کہ ابن الجوزی نے "تلبیس ابلیس "صفحہ (137-140) پر ایک مفصل باب میں اسی کے بارے میں تنبیہ بھی کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کرام کی حافظِ قرآن ہونے کی وجہ سے شادی کی، چنانچہ سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں میں بیٹھا تھا، ایک عورت کھڑی ہوئی اور کہا: یا رسول اللہ! اس خاتون نے اپنا نفس آپکو ہبہ کردیا ہے، آپ اسکے بارے میں سوچ لیں، چنانچہ آپ نے کوئی جواب نہ دیا، پھر کھڑے ہوکر کہنے لگی، اس خاتون نے اپنا نفس آپکو ہبہ کردیا ہے، آپ اسکے بارے میں سوچ لیں، پھر تیسری بار کھڑے ہوکر کہنے لگی: اس خاتون نے اپنا نفس آپکو ہبہ کردیا ہے، آپ اسکے بارے میں سوچ لیں۔ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میری اس سے شادی کردو۔ آپ نے فرمایا:"تمہارے پاس کچھ ہے؟" کہا : نہیں، فرمایا: "جاؤ کچھ لیکر آؤ چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو"چنانچہ یہ آدمی گیا اور تلاش کر نے کے بعد کہا: مجھے کچھ نہیں ملا ، لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، فرمایا: "کیا تمہیں قرآن یاد ہے؟" کہا: مجھے فلاں ، فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ نے فرمایا: "جاؤ میں نے اسے تمہارے ساتھ حفظ شدہ قرآن کے بدلے میں بیاہ دیا ہے")امام بخاری نے اس حدیث کو (5149)پر باب:"قرآن کو حق مہر بناکر شادی کرنا"کے تحت بیان کیا ہے، اور مسلم نے حدیث نمبر (1425)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : "قاضی عیاض کے ہاں (بما معك من القرآن) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ان میں سے قریب ترین یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو حفظ شدہ چند سورتیں یا ایک معین مقدار یاد کروائے اور یہ اسکا حق مہر ہوگا، یہ مطلب امام مالک سے بھی روایت کیا گیا ہے، اس معنی کی تائید حدیث کے دیگر صحیح الفاظ سے بھی ہوتی ہے(فعلمها من القرآن) "یعنی اسے قرآن سیکھاؤ" دوسرا احتمال یہ ہے کہ "باء"بمعنی "لام" ہو، یعنی تمہاری شادی تمہیں قرآن یاد ہونے کی وجہ سے کی ہے، کہ آپ نے خاتون سے اسکی شادی بغیر مہر کے بطورِ تکریم کردی صرف اس لئے کہ وہ مکمل یا کچھ قرآن کا حافظ ہے۔
کچھ ایسا ہی قصہ ابو طلحہ کا ام سلیم کے ساتھ ہوا تھا، جسے امام نسائی نے روایت بھی کیا اور صحیح بھی کہا کہ وہ جعفر بن سلیمان سے انہوں نے ثابت سے وہ انس سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: (ابو طلحہ نے ام سلیم کو منگنی کا پیغام بھیجا، تو ام سلیم نے جواب دیا: اللہ کی قسم! تمہارے جیسے شخص کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن توں کافر ہے اور میں مسلمان ہوں ، میرے لئے تمہارے ساتھ شادی جائز نہیں ، لہذا اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو یہی میرا مہر ہوگا، میں تم سے اس کے علاوہ کچھ نہیں طلب کرونگی، اس ابو طلحہ مسلمان ہوگئے اور یہ ام سلیم کا مہر قرار پایا)
امام نسائی ہی نے عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی طلحہ سے انہوں نے انس سے بیان کیا کہ (ابو طلحہ نے ام سلیم سے شادی کی اور انکا مہر اسلام تھا)مکمل قصہ بیان کرنے کے بعد آخر میں کہا: "یہی دونوں کے مابین حق مہر تھا" اس عبارت پر امام نسائی نے باب کا عنوان قائم کیا "اسلام کو مہر بنا کر شادی کرنا" پھر سھل رضی اللہ عنہ کی حدیث پر باب کا عنوان قائم کیا: "قرآن مجید کی سورت کو حق مہر بنا کر شادی کرنا"اس سے محسوس ہوتا ہے کہ امام نسائی دوسرے احتمال کو راجح قرار دے رہے ہیں، انتہی مختصراً، "فتح الباری"(9/212-213)
مندرجہ بالا تحریر کے بعد ، ہمیں کوئی ایسی خاص حدیث یا اثر نہیں ملا جس میں حافظ قرآن سے شادی کرنے کی کوئی خاص فضلیت ذکر کی گئی ہو، کہ اسکے لئے خاص اجر یا ثواب ہوگا۔
و اللہ اعلم .
اسلام سوال و جواب