• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا پیغام نہیں دیا تھا ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ان باکس (ذاتی پیغام ) میں ایک بھائی نے درج ذیل سوال کا جواب طلب کیا ہے ،
اس سوال کا جواب چونکہ سب کیلئے مفید ہے ،اس لئے اوپن فورم پر جواب دیا جارہا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم یا شیخ محترم!
امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ھوں گئے. آپ سے ایک رافضی کی تحریر بارے کچھ استفسار کرنا ھے. اس لیے اسکی پوسٹ کاپی پیسٹ کر رھا ھوں. اس پوسٹ میں بخاری ومسلم کی روایت پر مسور بن مخرمہ کے حوالے سے دو اعتراضات ہیں. انکے بارے کچھ عرض کر دیں. یہ رھی اس کی پوسٹ:

عن المسور بن مخرمة أنه قال :" إن عليا خطب بنت أبي جهل ، فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت أبي جهل ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسمعته حين تشهد يقول : أما بعد ، أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني ، وإن فاطمة بضعة مني وإني أكره أن يسوءها ، والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ، فترك علي الخطبة " وفي رواية للبخاري " فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني " .... !!!البخاري رقم 3523 ، 3556 ، ومسلم برقم 2449

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امابعد:
"میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ "(صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر: ٣٨٢٩)۔۔

محمد بن عمرو نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔"


جواب) یہ حدیث اہلسنّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی، اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہلا راوی مسور بن مخرمہ ہے جو حضرت علیؓ کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبداللہ ابن زبیرؓ کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ مارا گیا تھا۔
مشہور سنّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛

1.قال الزبير بن بكار كانت [الخوارج] تغشاه وينتحلونه (سیر اعلام النبلاء، ج3 ص391)

ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں:
2.قال عروة فلم أسمع المسور ذكر معاوية إلا صلى عليه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا تعارف :
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ
امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ :

المسور بن مخرمة بن نوفل بن أهيب الزهري (ع)
ابن عبد مناف بن زهرة بن قصي بن كلاب، الإمام الجليل، أبو عبد الرحمن، وأبو عثمان القرشي، الزهري.
وأمه: عاتكة؛ أخت عبد الرحمن بن عوف، زهرية أيضا.
له: صحبة، ورواية.
وعداده في صغار الصحابة، كالنعمان بن بشير، وابن الزبير.
وحدث أيضا عن: خاله، وأبي بكر، وعمر، وعثمان.
حدث عنه: علي بن الحسين، وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، وولداه؛ عبد الرحمن وأم بكر، وطائفة.
قدم دمشق بريدا من عثمان يستصرخ بمعاوية.

ترجمہ :
امام جلیل ابو عبدالرحمن مسور بن مخرمہ بن نوفل بن زہرہ بن قصی بن کلاب
قرشی زہری ہیں ،ان کی والدہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نامور صحابی سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی بہن ہیں ،
خود جناب مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کو صحابی ہونے کاشرف بھی حاصل ہے ،کم عمر صحابہ کرام جیسے نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما میں آپ کا شمار ہے ،
آپ نے سماع حدیث اپنے ماموں عبدالرحمن بن عوف اور دیگرکئی نامی گرامی حضرات سے کیا ،
آپ سے روایت کرنے والوں میں نامور تابعی سیدنا علی بن حسین زین العابدین ؒ اور وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، جیسے عظیم لوگوں کے نام ہیں ،
توفي لهلال ربيع الآخر، سنة أربع وستين (یعنی ربیع الثانی ۶۴ ہجری کو فوت ہوئے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا مسور ؓ اہل بیت اور حضرت علیؓ کے بڑے محب اور قدر دان تھے ،درج ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے ،

اور یاد رہے یہ روایت جنابِ مسورؓ سے سن کر آگے نقل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خودحضرت علی ؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین ؒ ہیں ؛

امام ابوداودؒ اور امام ابن ابی عاصمؒ نے صحیح اسناد سے سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے کہ :
أن ابن شهاب، حدثه، أن علي بن الحسين حدثه أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنهما، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها، قال: فقلت له: لا، قال: هل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه وايم الله لئن أعطيتنيه لا يخلص إليه أبدا حتى يبلغ إلى نفسي، إن علي بن أبي طالب رضي الله عنه خطب بنت أبي جهل على فاطمة رضي الله عنها فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا، وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها» قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن، قال: حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا "
امام ابن شہاب زہری (محمد بن مسلم بن عبیداللہ )المتوفی ۱۲۳ ھ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ جناب علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب ) رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ہم لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد دمشق یزید بن معاویہؓ کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے ، تو مجھے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا ، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم فرمائیں ؟ میں نے کہا : نہیں ۔ انہوں نے کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرما سکتے ہیں ؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق قوم کہیں آپ پر غالب نہ آ جائے ۔ اور قسم اللہ کی ! اگر آپ مجھے یہ عنایت فرما دیں تو میرے جیتے جی کبھی کوئی اس تک نہ پہنچ سکے گا ۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی عترت کی حفاظت اور دفاع ہم پر لازم ہے ۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام بھیج دیا ۔ میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا جب کہ میں ان دنوں بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فاطمہ مجھ سے ہے اور مجھے فکر ہے کہ کہیں اس کے دین میں کوئی امتحان نہ آ جائے ۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدشمس ( بنی امیہ ) میں سے اپنے داماد ( سیدنا ابوالعاص بن الربیع ) کا ذکر کیا اور اس کی مدح فرمائی اور خوب فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس نے مجھ سے بات کی تو سچی کی ، وعدہ کیا تو پورا کیا ۔ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا ۔ لیکن قسم اللہ کی ! اللہ کے رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدنا علی ؓ کے پوتے اور سیدنا حسین بن علی ؓ کے صاحبزادے جناب زین العابدین ؓ کی ایسی قدر دانی اور تکریم کرنے والے صحابی کورافضی لوگ حضرت علیؓ کا دشمن بتاتے ہیں تعجب اور حیرت ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے المصنف میں اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں بسند صحیح روایت ذکر فرمائی ہے جس میں حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کا سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید اور طعن کرنا ثابت ہوتا ہے ،جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ساتھی اور محب ہی کرسکتا ہے:
أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، قال: حدثني المسور بن مخرمة، أنه وفد على معاوية، قال: فلما دخلت عليه - حسبت أنه قال: سلمت عليه - ثم قال: «ما فعل طعنك على الأئمة يا مسور؟» قال: قلت: ارفضنا من هذا، أو أحسن فيما قدمنا له، قال: «لتكلمن بذات نفسك» قال: فلم أدع شيئا أعيبه به إلا أخبرته به، قال: «لا أبرأ من الذنوب فهل لك ذنوب تخاف أن تهلك إن لم يغفرها الله لك؟» ، قال: قلت: نعم، قال: «فما يجعلك أحق بأن ترجو المغفرة مني، فوالله لما ألي من الإصلاح بين الناس، وإقامة الحدود، والجهاد في سبيل الله، والأمور العظام التي تحصيها أكثر مما تلي، وإني لعلى دين يقبل الله فيه الحسنات، ويعفو فيه عن السيئات، والله مع ذلك ما كنت لأخير بين الله وغيره، إلا اخترت الله على ما سواه» قال: ففكرت حين قال لي ما قال، فوجدته قد خصمني، فكان إذا ذكره بعد ذلك دعا له بخير
(جامع معمر بن راشد ۲۰۷۱۷)

اور تاریخ بغداد (جلد ۱ ص۲۲۳) میں یہ روایت یوں ہے :

عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير: أن المسور بن مخرمة أخبره أنه قدم وافدا على معاوية بن أبي سفيان فقضى حاجته، ثم دعاه فأخلاه فقال: يا مسور ما فعل طعنك على الأئمة؟ فقال المسور: دعنا من هذا وأحسن فيما قدمنا له. قال معاوية: والله لتكلمن بذات نفسك، والذي تعيب علي. قال المسور: فلم أترك شيئا أعيبه عليه إلا بينته له. قال معاوية: لا برئ من الذنب، فهل تعد يا مسور مالي من الإصلاح في أمر العامة، فإن الحسنة بعشر أمثالها، أم تعد الذنوب وتترك الحسنات.
قال المسور: لا والله ما نذكر إلا ما ترى من هذه الذنوب. قال معاوية: فإنا نعترف لله بكل ذنب أذنبناه، فهل لك يا مسور ذنوب في خاصتك تخشى أن تهلكك إن لم يغفرها الله؟ قال مسور: نعم، قال معاوية: فما يجعلك أحق أن ترجو المغفرة مني؟
فو الله لما ألي من الإصلاح أكثر مما تلي، ولكن والله لا أخير بين أمرين، بين الله وبين غيره إلا اخترت الله تعالى على ما سواه، وإنا على دين يقبل الله فيه العمل، ويجزي فيه بالحسنات، ويجزي فيه بالذنوب، إلا أن يعفو عمن يشاء، فأنا أحتسب كل حسنة عملتها بأضعافها، وأوازي أمورا عظاما لا أحصيها ولا تحصيها، من عمل الله في إقامة صلوات المسلمين، والجهاد في سبيل الله عز وجل، والحكم بما أنزل الله تعالى، والأمور التي لست تحصيها وإن عددتها لك، فتفكر في ذلك. قال المسور: فعرفت أن معاوية قد خصمني حين ذكر لي ما ذكر. قال عروة: فلم يسمع المسور بعد ذلك يذكر معاوية إلا استغفر له.


امام ابن شہاب الزہریؒ فرماتے ہیں مجھے امام عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدنا المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَرضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ امیرالمومنین سیدنامعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس اک وفد لے کر گئے تو سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی غلطیوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پرہوں جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امورکی ذمہ داری نبھا رہا ہوں جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی ج 1 ص 577)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
یہ محض کوئی افسانہ نہیں ،بلکہ خیرالقرون کا ایک سچا واقعہ اور تاریخی حقیقت ہے جسےمحدثین نے بالاسناد نقل فرمایا ہے ،جس سےایک طرف سیدنا امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں رائے اور تنقید کی آزادی ثابت ہوتی ہے ، اور خود سیدنا الامام معاویہ کے حلم اور صبر پتا چلتا ہے ، تو دوسری طرف شخصی طور جناب مسور بن مخرمہؓ کی حق گوئی اور اظہار حق کی جرات کا ثبوت ملتا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوانا مسورؓ بن مخرمہ سے خود جناب علیؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ہی نقل فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :


أن ابن شهاب، حدثه أن علي بن حسين، حدثه: أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي رحمة الله عليه، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها؟ فقلت له: لا، فقال له: فهل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه، وايم الله لئن أعطيتنيه، لا يخلص إليهم أبدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن أبي طالب خطب ابنة أبي جهل على فاطمة عليها السلام، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها»، ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فأثنى عليه في مصاهرته إياه، قال: «حدثني، فصدقني ووعدني فوفى لي، وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبنت عدو الله أبدا»

امام محمد بن مسلم ابن شہابؒ (المتوفی ۱۲۳ ھ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے علی بن حسین ( زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی ‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔ ( حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ ) میں نے کہا ‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں لوگ یہ قیمتی تلوارآپ سے نہ لےلیں ، اور خدا کی قسم ! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیا ن کیا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہ ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ‘ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی ۔
(صحیح بخاری ،کتاب فرض الخمس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اگر مسورؓ بن مخرمہ، سیدنا علی ؓ یا اہل بیت کے دشمن تھے تو اس وقت اہل بیت کی اتنی اہم شخصیت یعنی سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ایسے دشمن سے اپنے دادا کی شادی کی جھوٹی بات ان سے سن کر آگےنقل کیوں فرمائی ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
ان باکس (ذاتی پیغام ) میں ایک بھائی نے درج ذیل سوال کا جواب طلب کیا ہے ،
اس سوال کا جواب چونکہ سب کیلئے مفید ہے ،اس لئے اوپن فورم پر جواب دیا جارہا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا تعارف :
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ
امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ :

المسور بن مخرمة بن نوفل بن أهيب الزهري (ع)
ابن عبد مناف بن زهرة بن قصي بن كلاب، الإمام الجليل، أبو عبد الرحمن، وأبو عثمان القرشي، الزهري.
وأمه: عاتكة؛ أخت عبد الرحمن بن عوف، زهرية أيضا.
له: صحبة، ورواية.
وعداده في صغار الصحابة، كالنعمان بن بشير، وابن الزبير.
وحدث أيضا عن: خاله، وأبي بكر، وعمر، وعثمان.
حدث عنه: علي بن الحسين، وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، وولداه؛ عبد الرحمن وأم بكر، وطائفة.
قدم دمشق بريدا من عثمان يستصرخ بمعاوية.

ترجمہ :
امام جلیل ابو عبدالرحمن مسور بن مخرمہ بن نوفل بن زہرہ بن قصی بن کلاب
قرشی زہری ہیں ،ان کی والدہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نامور صحابی سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی بہن ہیں ،
خود جناب مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کو صحابی ہونے کاشرف بھی حاصل ہے ،کم عمر صحابہ کرام جیسے نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما میں آپ کا شمار ہے ،
آپ نے سماع حدیث اپنے ماموں عبدالرحمن بن عوف اور دیگرکئی نامی گرامی حضرات سے کیا ،
آپ سے روایت کرنے والوں میں نامور تابعی سیدنا علی بن حسین زین العابدین ؒ اور وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، جیسے عظیم لوگوں کے نام ہیں ،
توفي لهلال ربيع الآخر، سنة أربع وستين (یعنی ربیع الثانی ۶۴ ہجری کو فوت ہوئے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا مسور ؓ اہل بیت اور حضرت علیؓ کے بڑے محب اور قدر دان تھے ،درج ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے ،

اور یاد رہے یہ روایت جنابِ مسورؓ سے سن کر آگے نقل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خودحضرت علی ؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین ؒ ہیں ؛

امام ابوداودؒ اور امام ابن ابی عاصمؒ نے صحیح اسناد سے سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے کہ :
أن ابن شهاب، حدثه، أن علي بن الحسين حدثه أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنهما، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها، قال: فقلت له: لا، قال: هل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه وايم الله لئن أعطيتنيه لا يخلص إليه أبدا حتى يبلغ إلى نفسي، إن علي بن أبي طالب رضي الله عنه خطب بنت أبي جهل على فاطمة رضي الله عنها فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا، وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها» قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن، قال: حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا "
امام ابن شہاب زہری (محمد بن مسلم بن عبیداللہ )المتوفی ۱۲۳ ھ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ جناب علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب ) رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ہم لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد دمشق یزید بن معاویہؓ کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے ، تو مجھے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا ، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم فرمائیں ؟ میں نے کہا : نہیں ۔ انہوں نے کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرما سکتے ہیں ؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق قوم کہیں آپ پر غالب نہ آ جائے ۔ اور قسم اللہ کی ! اگر آپ مجھے یہ عنایت فرما دیں تو میرے جیتے جی کبھی کوئی اس تک نہ پہنچ سکے گا ۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی عترت کی حفاظت اور دفاع ہم پر لازم ہے ۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام بھیج دیا ۔ میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا جب کہ میں ان دنوں بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فاطمہ مجھ سے ہے اور مجھے فکر ہے کہ کہیں اس کے دین میں کوئی امتحان نہ آ جائے ۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدشمس ( بنی امیہ ) میں سے اپنے داماد ( سیدنا ابوالعاص بن الربیع ) کا ذکر کیا اور اس کی مدح فرمائی اور خوب فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس نے مجھ سے بات کی تو سچی کی ، وعدہ کیا تو پورا کیا ۔ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا ۔ لیکن قسم اللہ کی ! اللہ کے رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدنا علی ؓ کے پوتے اور سیدنا حسین بن علی ؓ کے صاحبزادے جناب زین العابدین ؓ کی ایسی قدر دانی اور تکریم کرنے والے صحابی کورافضی لوگ حضرت علیؓ کا دشمن بتاتے ہیں تعجب اور حیرت ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے المصنف میں اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں بسند صحیح روایت ذکر فرمائی ہے جس میں حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کا سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید اور طعن کرنا ثابت ہوتا ہے ،جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ساتھی اور محب ہی کرسکتا ہے:
أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، قال: حدثني المسور بن مخرمة، أنه وفد على معاوية، قال: فلما دخلت عليه - حسبت أنه قال: سلمت عليه - ثم قال: «ما فعل طعنك على الأئمة يا مسور؟» قال: قلت: ارفضنا من هذا، أو أحسن فيما قدمنا له، قال: «لتكلمن بذات نفسك» قال: فلم أدع شيئا أعيبه به إلا أخبرته به، قال: «لا أبرأ من الذنوب فهل لك ذنوب تخاف أن تهلك إن لم يغفرها الله لك؟» ، قال: قلت: نعم، قال: «فما يجعلك أحق بأن ترجو المغفرة مني، فوالله لما ألي من الإصلاح بين الناس، وإقامة الحدود، والجهاد في سبيل الله، والأمور العظام التي تحصيها أكثر مما تلي، وإني لعلى دين يقبل الله فيه الحسنات، ويعفو فيه عن السيئات، والله مع ذلك ما كنت لأخير بين الله وغيره، إلا اخترت الله على ما سواه» قال: ففكرت حين قال لي ما قال، فوجدته قد خصمني، فكان إذا ذكره بعد ذلك دعا له بخير
(جامع معمر بن راشد ۲۰۷۱۷)

اور تاریخ بغداد (جلد ۱ ص۲۲۳) میں یہ روایت یوں ہے :

عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير: أن المسور بن مخرمة أخبره أنه قدم وافدا على معاوية بن أبي سفيان فقضى حاجته، ثم دعاه فأخلاه فقال: يا مسور ما فعل طعنك على الأئمة؟ فقال المسور: دعنا من هذا وأحسن فيما قدمنا له. قال معاوية: والله لتكلمن بذات نفسك، والذي تعيب علي. قال المسور: فلم أترك شيئا أعيبه عليه إلا بينته له. قال معاوية: لا برئ من الذنب، فهل تعد يا مسور مالي من الإصلاح في أمر العامة، فإن الحسنة بعشر أمثالها، أم تعد الذنوب وتترك الحسنات.
قال المسور: لا والله ما نذكر إلا ما ترى من هذه الذنوب. قال معاوية: فإنا نعترف لله بكل ذنب أذنبناه، فهل لك يا مسور ذنوب في خاصتك تخشى أن تهلكك إن لم يغفرها الله؟ قال مسور: نعم، قال معاوية: فما يجعلك أحق أن ترجو المغفرة مني؟
فو الله لما ألي من الإصلاح أكثر مما تلي، ولكن والله لا أخير بين أمرين، بين الله وبين غيره إلا اخترت الله تعالى على ما سواه، وإنا على دين يقبل الله فيه العمل، ويجزي فيه بالحسنات، ويجزي فيه بالذنوب، إلا أن يعفو عمن يشاء، فأنا أحتسب كل حسنة عملتها بأضعافها، وأوازي أمورا عظاما لا أحصيها ولا تحصيها، من عمل الله في إقامة صلوات المسلمين، والجهاد في سبيل الله عز وجل، والحكم بما أنزل الله تعالى، والأمور التي لست تحصيها وإن عددتها لك، فتفكر في ذلك. قال المسور: فعرفت أن معاوية قد خصمني حين ذكر لي ما ذكر. قال عروة: فلم يسمع المسور بعد ذلك يذكر معاوية إلا استغفر له.


امام ابن شہاب الزہریؒ فرماتے ہیں مجھے امام عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدنا المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَرضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ امیرالمومنین سیدنامعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس اک وفد لے کر گئے تو سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی غلطیوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پرہوں جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امورکی ذمہ داری نبھا رہا ہوں جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی ج 1 ص 577)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
یہ محض کوئی افسانہ نہیں ،بلکہ خیرالقرون کا ایک سچا واقعہ اور تاریخی حقیقت ہے جسےمحدثین نے بالاسناد نقل فرمایا ہے ،جس سےایک طرف سیدنا امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں رائے اور تنقید کی آزادی ثابت ہوتی ہے ، اور خود سیدنا الامام معاویہ کے حلم اور صبر پتا چلتا ہے ، تو دوسری طرف شخصی طور جناب مسور بن مخرمہؓ کی حق گوئی اور اظہار حق کی جرات کا ثبوت ملتا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوانا مسورؓ بن مخرمہ سے خود جناب علیؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ہی نقل فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :


أن ابن شهاب، حدثه أن علي بن حسين، حدثه: أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي رحمة الله عليه، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها؟ فقلت له: لا، فقال له: فهل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه، وايم الله لئن أعطيتنيه، لا يخلص إليهم أبدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن أبي طالب خطب ابنة أبي جهل على فاطمة عليها السلام، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها»، ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فأثنى عليه في مصاهرته إياه، قال: «حدثني، فصدقني ووعدني فوفى لي، وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبنت عدو الله أبدا»

امام محمد بن مسلم ابن شہابؒ (المتوفی ۱۲۳ ھ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے علی بن حسین ( زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی ‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔ ( حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ ) میں نے کہا ‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں لوگ یہ قیمتی تلوارآپ سے نہ لےلیں ، اور خدا کی قسم ! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیا ن کیا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہ ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ‘ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی ۔
(صحیح بخاری ،کتاب فرض الخمس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اگر مسورؓ بن مخرمہ، سیدنا علی ؓ یا اہل بیت کے دشمن تھے تو اس وقت اہل بیت کی اتنی اہم شخصیت یعنی سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ایسے دشمن سے اپنے دادا کی شادی کی جھوٹی بات ان سے سن کر آگےنقل کیوں فرمائی ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ محترم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حدثنا علي بن أحمد قال: حدثنا أبو العباس أحمد بن محمد بن يحيى عن عمرو ابن أبي المقدام وزياد بن عبد الله قالا: أتى رجل أبا عبد الله " ع " فقال له: يرحمك الله هل تشيع الجنازة بنار ويمشي معها بمجمرة أو قنديل أو غير ذلك مما يضاء به؟ قال فتغير لون أبى عبد الله " ع " من ذلك واستوى جالسا ثم قال: إنه جاء شقي من الأشقياء إلى فاطمة بنت رسول الله (ص) فقال لها: أما علمت أن عليا قد خطب بنت أبي جهل فقالت: حقاما تقول؟ فقال: حقا ما أقول ثلاث مرات فدخلها من الغيرة مالا تملك نفسها وذلك أن الله تبارك وتعالى كتب على النساء غيرة وكتب على الرجال جهادا وجعل للمحتسبة الصابرة منهن من الاجر ما جعل للمرابط المهاجر في سبيل الله، قال: فاشتد غم فاطمة من ذلك وبقيت متفكرة هي حتى أمست وجاء الليل حملت الحسن على عاتقها الأيمن والحسين على عاتقها الأيسر وأخذت بيد أم كلثوم اليسرى بيدها اليمنى ثم تحولت إلى حجرة أبيها فجاء علي فدخل حجرته فلم ير فاطمة فاشتد لذلك غمه وعظم عليه ولم يعلم القصة ما هي فاستحى ان يدعوها من منزل أبيها فخرج إلى المسجد يصلي فيه ما شاء الله ثم جمع شيئا من كثيب المسجد واتكى عليه، فلما رأى النبي صلى الله عليه وآله ما بفاطمة من الحزن أفاض عليها من الماء ثم لبس ثوبه ودخل المسجد فلم يزل يصلي بين راكع وساجد وكلما صلى ركعتين دعا الله ان يذهب ما بفاطمة من الحزن والغم وذلك أنه خرج من عندها وهي تتقلب وتتنفس الصعداء فلما رآها النبي صلى الله عليه وآله انها لا يهنيها النوم وليس لها قرار قال لها قومي يا بنية فقامت فحمل النبي صلى الله عليه وآله الحسن وحملت فاطمة الحسين وأخذت بيد أم كلثوم فانتهى إلى علي " ع " وهو نايم فوضع النبي صلى الله عليه وآله رجله على رجل علي فغمزه وقال قم يا أبا تراب فكم ساكن أزعجته ادع لي أبا بكر من داره وعمر من مجلسه وطلحة فخرج علي فاستخرجهما من منزلهما واجتمعوا عند رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله يا علي أما علمت أن فاطمة بضعة منى وانا منها فمن آذاها فقد آذاني من آذاني فقد آذى الله ومن آذاها بعد موتى كان كمن آذاها في حياتي ومن آذاها في حياتي كان كمن آذاها بعد موتى، قال: فقال علي بلى يا رسول الله، قال فما دعاك إلى ما صنعت؟ فقال علي والذي بعثك بالحق نبيا ما كان منى مما بلغها شئ ولا حدثت بها نفسي، فقال النبي صدقت وصدقت ففرحت فاطمة عليها السلام بذلك وتبسمت حتى رئي ثغرها، فقال أحدهما لصاحبه انه لعجب لحينه ما دعاه إلى ما دعانا هذه الساعة قال: ثم أخذ النبي صلى الله عليه وآله بيد علي فشبك أصابعه بأصابعه فحمل النبي صلى الله عليه وآله الحسن وحمل الحسين علي وحملت فاطمة أم كلثوم وادخلهم النبي بيتهم ووضع عليهم قطيفة واستودعهم الله ثم خرج وصلى بقية الليل.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 183 – 184 جلد 01 علل الشرائع – الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي ابن بابويه القمي (المتوفى: 329هـ) – دار المرتضیٰ، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 248 – 250 جلد 01 علل الشرائع – الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي ابن بابويه القمي (المتوفى: 329هـ) – السيد فضل الله الطباطبائي اليزدي، قم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 185 – 186 جلد 01 علل الشرائع – الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي ابن بابويه القمي (المتوفى: 329هـ) – المكتبة الشیعة (یونیکود) Shia Online Library



علی بن احمد از أبو العباس احمد بن یحیی، از عمرو بن مقداد وزیاد بن عبد اللہ نقل نمودہ وگفتند: مردی محضر امام صادق علیہ السلام شرفیاب شد وہ بہ آن بزرگوار عرض کند: خدا رحمت کند، آیا می توان جنازہ را در نور آتش، یا با آتش و قندیل و یا وسیلہ دیگری کہ روشنایی می دھد تشییع کرد؟
راوی می گوید: من دیدم رنگ امام علیہ السلام از ایں برسش وسخن تغیر نمود وبر زمین نشست، آنگاہ فرمودند: یکی از تیرہ بخت ترین افراد، نزد حضرت فاطمی علیہا السلام آمد و بہ ایشان عرض کرد: آیا می دانی علی علیہ السلام از دختر أبو جھل خواستگاری کردہ است؟
فاطمہ علیہا السلام فرمودند: آیا سخن بہ حقیقت می گویی؟!
آن مرد سہ بار سخن خویش را تکرار نمود گفت: آنچہ مہ گویم حقیقت است، پس غیرت فاطمہ تحریک شد بہ گونہ ای کہ نتوانست خویشن داری کند وبر احساسات خود فائق آید، و این حالت بدان جھت بود کہ خدای سبحان برای زنان غیرت و برای مردان جھاد را واجب فرمودہ است و برای زنانی کہ در این مسیر صبر و شکیبای نمایند، اجر وپاداش کسی را کہ پاسدار مرزھا ومھاجر در راہ خداست، بھرہ مند خواھد ساخت.
سپس راوی می گوید: حزن واندوہ حضرت فاطمہ از این ماجرا بیشتر شد و در این اندیشہ بود، کہ شب فرا رسید، وی حسن علیہ السلام را بر شانہ راست، وحسن علیہ السلام را بر شانہ چپ و دست چپ ام کلثوم را بہ دست خویش گرفت و بہ خانہ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آمد، علی علیہ السلام وارد خانہ شد و فاطمی را ندید و از این جھت سخت آزردہ خاطر شد، در حالی کہ نمی دانست ماجرا چیست، امام علیہ السلام از این کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام را از خانہ پدرش فر خواند، خجلات می کشید، از این رو بہ مسجد آمد و بہ خواندن نماز مشغول گشت، و پس از آن تعدادی از یک ھای مسجد را انباشتہ کرد و بر آن تکیہ داد.
وقتی پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حزن واندوہ فاطمہ را دید، مقداری آپ بہ او داد، سپس لباسش را پوشید وبہ مسجد رفت، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھمچنان نماز می خواند، و ھر گاہ دو رکعت نماز بہ جای می آورد، از خدا می خواست تا حزن و اندوہ فاطمہ را برطرف سازد، زیرا وقتی از نزد فاطمہ بہ سوی مسجد می آمد، او بسیار ناراحت و اندوھگین بود و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متوجہ شد کہ فاطمہ بی تاب گشتہ وآرام و قرار ندارد، از این رو، بہ او فرمود:
دخترم! برخیز، و ایشان نیز برخاست، پیامبر، حسن را و فاطمہ حسین را پر داشت و دست ام کلثوم را گرفت تا نزد علی علیہ السلام آمدند، پیامبر پای خود را روی پای علی نھاد و را بیدار کرد و فرمود: بر خیز ای أبو تراب کہ آرامی را بی قرار ساختہ ای.
سپس پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمود: أبو بکر را از خانہ اش و عمر را از مجلسش و نیز طلحہ را فرا خوان، علیہ السلام بیرون آمد و آنھا را صدا زد ھمگی نزد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم حاضر شدند.
پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم فرمود: ای علی! مگر نمی دانی کہ فاطمہ پارہ من است و من از او ھستم؟ ھر کس او را بیازارد مرا آزردہ، و ھر کس مرا ازیت کند، خدا را اذیت کردہ و آن کہ او پس از مرگ من مورد آزر و اذیت قرار دھد، ھمانند آن است کہ درحال حیاتم مرا آزردہ است، و ھر کس وی را در حال حیاتم بر نجاند، مانند این است کہ او را پس از مرگ من آزردہ است؟!
راوی می گوید: علی علیہ السلام عرض آری، چنین است کی می فرمایید، سپس پیامبر فرمود: پس چہ چیزی موجب فردیدہ کہ چنین کنی؟! علی علیہ السلام عرض کرد: سوگند بہ کسی کہ شما را بہ حقّ بہ پیامبری برگزیدہ، آنچہ بہ او رسیدہ، گرگز از ناحیہ من نبودہ وحتی من اندیشہ آن را ھم بہ خود راہ ندادہ ام.
آنگاہ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمود: راست گفتی، راست گفتی. آنگاہ فاطہ علیھا السلام خوشحال شد و تبسّمی نمود بہ گنہ ای کہ دندان ھایش دیدہ شد، پس یکی از آن دو نفر بہ دوست خود گفت: جای تعجب است کہ پیامبر ما را در این ساعت برای چہ خواستہ بود؟
سپس پیامبر دست علی را گرفت و انگشتانش را بہ انگشتان او چسبانید، پیامبر حسن را برداشت، و علی حسین را، و فاطمہ ام کلثوم را، آنگاہ پیامبر آنھا را بہ خانہ خود آورد و پارچہ انداخت و آنھا را بہ خدا سپرد و از منزل بیرون آمد و بقیہ شب را بہ خوندن نماز مشغول گشت.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 726 – 728 جلد 01 علل الشرائع (مترجم فارسی) – الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي ابن بابويه القمي (المتوفى: 329هـ) (مترجم: سید علی حسینی) – انتشارات اندیشہ مولانا، قم
حدیث کرد ما را علی بن احمد، گفت: حدیث کرد ما را أبو العباس احمد بن محمد یھیی از عمر بن مقدام و زیاد بن عبد للہ، گفتند: مردی خدمت امام صادق علیہ السلام آمد و بھ او گفت: خدا رحمت کند، آیا می شود جنازہ را در نور آتش تشییع کرد و یا با آتش و قندیل و یا چیز دیگری کہ روشنایی می دھد، ھمراہ جنازہ رفت؟ گفت: رنگ امام صادق علیہ السلام از این سخن دگرگون شد و مرتّب نشست، سپس گفت: شقیّی از اشقیا بہ نزد فاطمہ دختر پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آمد و بہ گفت: آیا می دانی کہ علی علیہ السلام از دختر أبو جھل خواستگاری کردہ است؟ فاطمہ گفت: حقیقت را می گویی؟ آن مرد سہ بار گفت: آنچہ می گویم حقیقت است، پس غیرت فاطمہ تحریک شد بہ طوری کہ نثوانست مالک احساسات خود شود و این بدان جھت بود کہ خداوند برای زنان غیرت و برای مردان جھاد را نوشتہ است و برای زنانی کہ کویشتن داری و صبر کنند پاداش کسی را کہ نگھبان مرزھا و مھاجر در راہ خدا باشد نوشتہ است.
گفت: اندوہ فاطمہ از این جریان بیشتر شد و او در اندیشہ بود، تا اینکہ شب شد و او شبانہ حسن را در شانۂ راست وحسین را در شانۂ چپ خود قرار داد و دست چپ ام کلثوم را بہ دست خود گرفت و بہ خانۂ پدرش رفت، پس علی علیہ السلام آمد و وارد خانہ شد و فاطمہ علیھا السلام را ندید و از این جھت بہ شدّت اندوھگین شد و بر او گران آمد، در حالہ کہ نمی دانست کہ قضیّہ از جہ قرار است. او از اینکہ فاطمہ را از خانہ پدرش صدا بزند، خجالت می کشید، پس بہ مسجد در آمد و بہ تعدادی کہ خا می خوست نماز خواند و پس از آن مقداری از ریگ ھای مسجد را جمع کرد و بر آن تکیہ داد.
چون پیامبر اندوہ فاطہ را دید قدری آپ بہ او داد، سپس لباسش را پوشید و وارد مسجد شد، او ھمچنان نماز می خواند و در حال رکوع و سجود بود و ھرگاہ کہ دو رکعت نماز می خواند، از خدا می خواست کہ اندوہ فاطہ را برطرف کند، چون وقتی از پیش او بیرون آمد او بسیار ناراحت بود.
زیرا پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ را دید کہ خواب بہ چشمش نمی رود و آرام و قرار ندارد، بہ او گفت: دخترم برخیز و او برخاست و پیامبر حس را برداشت و فاطمہ حسین را برداشت و دست ام کلثوم را گرفت تا اینکہ نزد علی علیہ السلام رسیدند، پیامبر پای خود را روی پای علی گزاشت و او را بیدار کردہ و گفت: برخیز ای أبو تراب کہ دل آرامی را بی قرار ساکتہ ای. أبو بکر را از خانہ اش و عمر را از مجلسش و نیز طلحہ را صدا بزن، علی (ع) بہرون رفت و آنھا را از منزل ھایشان صدا زد و ھمگی نزد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گرد آمدند. پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفت: ای علی! آیا نمی دانی کہ فاطمہ پارہ تن من است و من از او ھستم؟ ھرکس او را اذیّت کند مرا اذیّت کردہ و ھر کس مرا اذیّت کند خدا را اذیّت کردہ و ھرکس او را پس از مرگ من اذیّت کند مانند این است کہ در حال حیات من اذیّت کردہ است و ھرکس کہ او در حال حیات من اذیّت کند مانند این است کہ او را پس از مرگ من اذیّت کردہ است.
می گوید: علی علیہ السلام گفت: آری، ای پیامبر خدا. پیامر گفت: پس چہ چیزی باعث شد کہ آن کار را کردی؟ علی گفت: سوگند بہ کسی کہ تو را بہ حقّ پیامبری برگزید آنچہ بہ او رسیدہ، ھرگز از من واقع شدہ است و حتی فکر آن را ھم بہ خود راہ ندادہ ام. پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمودہ: راست گفتی، راست گفتی. پس فاطمہ علیھا السلام خوشحال شد و تبسّمی کرف، بہ طوری کہ دندان ھایش دیدہ شد. پس یکی از آن دو نفر بہ فیقش گفت: جای تعّجب است، ما را در این وقت برای چہ خواستہ بود؟
سپس پیامبر دست علی را گرفت و انگشتنش را بہ انگشتان او چسبانید و پیامبر حس را برداشت و علی حسین را و فاطمہ ام کلثوم را و پیامبر آنھا را بہ خانہ خود آورد و قطیفہ ای انداخت و آنھا را خدا سپرد و بیرون آمد و بقیہ شب را بہ نماز ایستاد.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 603 – 606 جلد 01 علل الشرائع (مع مترجم فارسی) – الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي ابن بابويه القمي (المتوفى: 329هـ) (مترجم: سید محمد جواد ذھنی تھرانی) – انتشارات مؤمنین، قم

بیان کیا مجھ سے علی بن احمد نے انہوں نے کہا بیان کیا مجھ سے أبو العباس احمد بن محمد بن یحییٰ نے روایت کرتے ہوئے عمرو ابن ابی مقدام اور زیاد بن عبد اللہ سے ان دونوں کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا اللہ آپ پر رحم فرمائے کیا جنازے کے ساتھ آگ لیجائی جاسکتی ہے یا جنازے کے ساتھ انگیٹھی یا قندیل یا اس کے علاوہ کوئی شے جس سے روشنی ہو لے جانا درست ہے؟ اس کا یہ سوال سن کر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا سنو۔ ایک مرتبہ ایک بدبخت وشقی حجرت فاطمہ بنت رسول کے پاس آیا اور جھوٹ بولا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے کہ علی نے أبو جہل کی دختر سے شادی کا پیغام دیا ہے۔ ان معظمہ نے کہا کیا تم سچ کہتے ہو؟ اس نے کہا میں سچ کہتا ہوں آپ نے اس سے تین مرتبہ پوچھا کیا تم سچ کہتے ہو؟ اور اس نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا کہ میں سچ کہتا ہو۔ حجرت فاطمہ کو ایسی غیرت آئی کہ وہ اسے برداشت نہ کرسکیں اس لئے کہ اللہ تعایٰ نے عورت کے لئے غیرت اور مرد کے لئے جہاد فرض کردیا ہے اور اس پر صبر اور برداشت کرنے والی کے لئے وہی اجر مقرر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں، کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت فاطمہ کو اس کا بہت دکھ ہوا۔ تھوڑی دیر متفکر رہیں بالآخر شام ہوگئی اور رات آپہنچی تو آپ نے امام حسن کو داہنے کاندھے پر بٹھایا اور امام حسین کو بائیں کاندھے پر بٹھایا اور ام کلثوم کا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا اور وہاں سے اپنے پدر بزرگوار کے حجرہ میں آگئیں۔ اور جب حضرت علی آئے تو دیکھا اپنا حجرہ خالی ہے اور فاطمہ نہیں ہیں۔ اس سے حضرت علی کو بڑا دکھ ہوا انہیں معلوم نہ تھا کہ قصہ کیا ہے۔ اور انہیں حضرت فاطمہ کو ان کے پدر بزرگوار کے حجرے سے بلاتے ہوئے شرم آئی۔ آپ اپنے حجرے سے نکل کر مسجد میں آئے کچھ نمازیں پڑھیں پھر مسجد کی کچھ ریت جمع کی اور اس کو تکیہ بنا کر لیٹ رہے اور جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ فاطمہ بہت رنجیدہ ہیں تو آپ نے ان کے ہات منہ دھلائے اور اس کے بعد لباس زیب تن کیا مسجد میں آئے اور مسلسل نماز پڑھتے رہے اور رکوع وسجود کرتے رہے اور جب دو رکعت نماز پڑھ لیتے تو دعا کرتے بار الہا تو فاطم کے حزن وغم کو دور کر کیونکہ جب آپ فاطمہ کے پاس آئیں تھیں تو دیکھا تھا کہ وہ کروٹیں بدل رہی ہیں اور تحنڈی سانسیں لے رہی ہیں۔
مگر جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ فاطمہ کی نیند اچاٹ ہے اور انہیں قرار نہیں۔ فرمایا بیٹی اٹھو وہ اٹھیں تو امام حسن کو گود میں لے لیا اور حضرت فاطمہ نے حسین کو گود میں لے لیا اور ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور حضرت علی کے پاس پہنچے اور دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں آنحضرت نے اپنا پاؤں حضرت علی کے پاؤں پر رکھا اور کہا اے أبو تراب اٹھو تم نے کتنے لوگوں کے سکون کو خراب کیا جاؤ ابوبکر کو ان کے گھر سے عمر کو ان کی نشست گاہ سے اور طلحہ کو بلاؤ۔ حضرت علی گئے اور ان سب کو بلا لائے جب یہ سب جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے علی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ فاطمہ میری پارہ جگر ہے وہ مجھ سے ہے میں اس سے ہوں جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے میرے مرنے کے بعد اسے اذیت دی ایسا ہی ہے جیسا اس نے میری زندگی میں اسے اذیت دی اور جس نے میری حیات میں اس کو اذیت دی ایسا ہی ہے جیسے اس نے میری موت کے بعد اسے اذیت دی۔ حضرت علی نے کہا جی ہاں مجھے معلوم ہے یا رسول اللہ آپ نے فرمایا پھر تم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت علی نے کہا میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے جو خبر فاطمہ تک پہنچی ہے وہ غلط ہے اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے بلکہ میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آنحضرت نے فرمایا تم سچ کہتے ہو۔ یہ سن کر فاطمہ زہرا خوش ہو گئیں اور اس طرح مسکرائیں کہ ان کے دندان مبارک نظر آنے لگے اور وہ دونوں (حضرت أبو بکر صدیق اور حضرت عمر) آپس میں کہنے لگے تعجب ہے اس وقت رات گئے صرف اتنی سی بات کے لئے ہم لوگوں کو بلایا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ححضرت علی کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور آپ نے امام حسن کو گود میں اٹھایا حضرت علی نے امام حسین کو گود میں اٹھایا فاطمہ زہرا نے ام کلثوم کو گود میں اٹھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب کو لئے حضرت علی کے حجرے میں پہنچے اور ان لوگوں پر ایک مخملی چادر ڈال دی اور رخصت ہوئے اور باقی رات نمازیں پڑھتے رہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 140 – 141 جلد 01 علل الشرائع (مترم اردو) – الشيخ الصدوق أبو جعفر محمد بن علي ابن بابويه القمي (المتوفى: 329هـ) (مترجم: سید امداد حسین) – الکساء پبلیشرز، کراچی

علل الشرائع: حدثنا علي بن أحمد قال: حدثنا أبو العباس أحمد بن محمد بن يحيى عن عمرو بن أبي المقدام وزياد بن عبد الله قالا: أتى رجل أبا عبد الله (عليه السلام) فقال له:
يرحمك الله هل تشيع الجنازة بنار ويمشى معها بمجمرة وقنديل أو غير ذلك مما يضاء به؟ قال: فتغير لون أبي عبد الله (عليه السلام) من ذلك واستوى جالسا ثم قال: إنه جاء شقي من الأشقياء إلى فاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله) فقال لها: أما علمت أن عليا قد خطب بنت أبي جهل فقالت: حقا ما تقول: فقال: حقا ما أقول - ثلاث مرات - فدخلها من الغيرة ما لا تملك نفسها وذلك أن الله تبارك وتعالى كتب على النساء غيرة وكتب على الرجال جهادا. وجعل للمحتسبة الصابرة منهن من الاجر ما جعل للمرابط المهاجر في سبيل الله.
قال: فاشتد غم فاطمة (عليها السلام) من ذلك، وبقيت متفكرة هي حتى أمست وجاء الليل حملت الحسن على عاتقها الأيمن والحسين على عاتقها الأيسر وأخذت بيد أم كلثوم اليسرى بيدها اليمنى ثم تحولت إلى حجرة أبيها فجاء علي (عليه السلام) فدخل في حجرته فلم ير فاطمة (عليها السلام) فاشتد لذلك غمه وعظم عليه، ولم يعلم القصة ما هي فاستحيى أن يدعوها من منزل أبيها فخرج إلى المسجد فصلى فيه ما شاء الله ثم جمع شيئا من كثيب المسجد واتكأ عليه.
فلما رأى النبي (صلى الله عليه وآله) ما بفاطمة من الحزن أفاض عليه الماء ثم لبس ثوبه ودخل المسجد، فلم يزل يصلي بين راكع وساجد وكلما صلى ركعتين دعا الله أن يذهب ما بفاطمة من الحزن والغم وذلك أنه خرج من عندها وهي تتقلب وتتنفس الصعداء فلما رآها النبي (صلى الله عليه وآله) أنها لا يهنئها النوم، وليس لها قرار قال لها: قومي يا بنية فقامت فحمل النبي (صلى الله عليه وآله) الحسن وحملت فاطمة الحسين وأخذت بيد أم كلثوم فانتهى إلى علي (عليه السلام) وهو نائم فوضع النبي رجله على رجل علي فغمزه وقال: قم يا أبا تراب، فكم ساكن أزعجته، ادع لي أبا بكر من داره وعمر من مجلسه وطلحة.
فخرج علي (عليه السلام) فاستخرجهما من منزلهما، واجتمعوا عند رسول الله فقال رسول الله (صلى الله عليه وآله): يا علي أما علمت أن فاطمة بضعة مني وأنا منها، فمن آذاها فقد آذاني [ومن آذاني فقد آذى الله] (1) ومن آذاها بعد موتي كان كمن آذاها في حياتي، ومن آذاها في حياتي كان كمن آذاها بعد موتي؟ قال: فقال علي: بلى يا رسول الله قال: فقال: فما دعاك إلى ما صنعت؟ فقال علي: والذي بعثك بالحق نبيا ما كان مني مما بلغها شئ ولا حدثت بها نفسي فقال النبي (صلى الله عليه وآله): صدقت وصدقت.
ففرحت فاطمة (عليها السلام) بذلك وتبسمت حتى رئي ثغرها فقال أحدهما لصاحبه: إنه لعجب لحينه ما دعاه إلى ما دعانا هذه الساعة قال: ثم أخذ النبي (صلى الله عليه وآله) بيد علي (عليه السلام) فشبك أصابعه بأصابعه فحمل النبي (صلى الله عليه وآله) الحسن وحمل الحسين علي (عليه السلام) وحملت فاطمة (عليها السلام) أم كلثوم وأدخلهم النبي (صلى الله عليه وآله) بيتهم ووضع عليهم قطيفة، واستودعهم الله ثم خرج وصلى بقية الليل.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 201 – 202 جلد 43 بحار الأنوار، الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار – محمد باقر بن محمد تقي بن مقصود علي المجلسي المعروف بالعلامة المجلسي (المتوفى: 1110هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 151 – 152 جلد 43 بحار الأنوار، الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار – محمد باقر بن محمد تقي بن مقصود علي المجلسي المعروف بالعلامة المجلسي (المتوفى: 1110هـ) – مؤسسة الاعلمي للمطبوعات، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 201 – 202 جلد 43 بحار الأنوار، الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار – محمد باقر بن محمد تقي بن مقصود علي المجلسي المعروف بالعلامة المجلسي (المتوفى: 1110هـ) – المكتبة الشیعة (یونیکود) Shia Online Library

ابن بابویہ بہ سند معتبر رویت کردہ است کہ: شخصی از حضرت صادق علیہ السلام پرسید کہ: آیا اتش از پی جنازہ می توان برد و معجمرہ و قندیل و أمثال آن با جنازہ می توان برد؟ پس رنگ مبارک حضرت متغیّر شد و فرمود کہ: یکی از اشقیا بہ نزد حضرت فاطمۂ زھرا علیھا السلام آمد و گفت کہ: علی بن ابیطالب دختر أبو جھل را خواستگاری می نمود، حضرت آن ملعون را سوگند داد، آن ملعون سہ مرتبہ سوگند یاد کرد کہ آنچہ می گویم حقّ است. حضرت فاطمہ علیھا السلام بسیار بہ غیرت آمد زیراکہ حق تعالیٰ در جبلّت زنان غیرتی قرار داداہ چنانچہ بر بردان جھاد واجب گردایدہ، و از برای زنی کہ باوجود غیرت صبر کند ثابی مقرّر فرمودہ مثل ثواب کسی کہ مرابطہ کند در سرحدّ مسلمانان از برای خدا.
پس غم فاطمہ علیھا السلام شدید شد و در تفکّر ماند تا شب شد. چون شب در آمد امام حسن را بر دوش راست و جناب امام حسین را بر دوش چپ گرفت و دست امّ کلثوم را بہ دست راست خود گرفت بہ حجرۂ پدر خود رفت، چون حضرت امیر علیہ السلام عظیم نمود بر او، سبب آن حالت را ندانست، شرم کرد کہ آن حضرت را از خانۂ پدر خود طلب نماید.
پس بیرون آمد بسوی مسجد و نماز کرد بسیار، پس بعضی از ریگ مسجد را جمع کرد و بر آن تکیہ فرمود. چون حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حزن فاطمہ را مشاھدہ نمود، غسل کرد وجامہ پوشید بہ مسجد درآمد، پیوستہ در مسجد نماز می کرد و مشغول رکوع و سجود بود، ھت دو رکعت نماز کہ مہ کرد از حق تعالیٰ سؤال می نمود کہ حزن فاطمہ را زایل گرادند، زیراکہ وقتی از خانہ بیرون آمد فاطمہ را دید کہ از پھلو بہ پھلو می گریس و نالہ ھای بلند می کرد.
چون حضرت دید کہ او را خاب نمی برد و قرار نمی گیرد فرمود کہ: برخیز ای دختر گرامی، چون برخاست حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسن را برداشت و حضرت فاطمہ علیھا السلام جناب امام حسین را برداشت، دست امّ کلثوم را گرفت از خانہ بسوی مسجد آمدند، تا آنکہ نزدیک امیر المؤمنین علیہ السلام گذاشت و و فشرد فرمود: برخیز ای أبو تراب بسا ساکتی را از جا بہ در آوردءای، برو و أبو بکر و عمر و طلحہ را بطلب.
پس حضرت امیر علیہ السلام رفت أبو بکر و عمر را از خانہ بیرون آورد، چون نزد حضرت حاضر گردیدند، حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمود: یا علی مگر نمی دانی کہ فاطمی پارۂ تن من است و من از اویم، پس ھر کہ او را آزار کند مرا آزار کردہ است، و ھر کہ او را آزار کند بعد از وفات من چنان اس کہ او آزار کردہ است در حیات من، و ھر کہ او را آزار کند در حیات من چنان است کہ او را آزار کردہ باشد بعد از مرگ من؟ حضرت امیر علیہ السلام عرض کرد: بلی چنین است یا رسول اللہ. پس حضرت رسول اللہ فرمود: پس تو راچہ باعث شد کہ چنین کاری کردی؟ علی علیہ السلام فرمود: بہ حقّ خداوندی کہ تو را بہ راستی بہ خلق فرستادہ است سوگند یاد می کنم کہ ھیچیک از آنھا کہ بہ فاطمہ رسیدہ است واوع نیست و بھ خاطرم خطور نکردہ است، حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمود: تو راست گفتی او نیز راست گفت، پس فاطمہ علیھا السلام شاد شد و تبسّم کرد تا آنکہ دندان مبارش طاھر شد. پس یکی از آن دو ملعون بہ دیگری گفت: عجب نیست ما را در این وقت طلبید و را این طلب نمودن مطلبی ھست.
پس حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم امیر المؤمنین را گرفت و انگشتان خود را در انشگشتان آن حضرت داخل گردانید، حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسن را برداشت، و حضرت علی علیہ السلام جناب امام حسین را برداشت، و حضرت فاطمہ علیھا السلام امّ کلثوم را برداشت، و حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایشان را داخل خانۂ خود کرد، قطیفہ ای بر روی ایشان افکند، ایشان را بہ خدا سپرد و بیرون آمد، بقیۂ شب را بہ نماز گذرانید.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 261 – 263 جلاء العیون، تاریخ چھاردہ معصوم علیھم السلام – محمد باقر بن محمد تقي بن مقصود علي المجلسي المعروف بالعلامة المجلسي (المتوفى: 1110هـ) – انتشارات سُرور، قم
ابن بابویہ نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ ایک شخص نے جناب صادق سے پوچھا، کیا آگ جنازہ کے ہمراہ لے جا سکتے ہیں۔ اور شمع و قندیل وغیرہ بھی ہمراہ جنازہ رکھ سکتے ہیں۔ یہ سُن کر رنگ مبارک حضرت متغیر ہوا۔ اور فرمایا ایک شیطان جناب سیدہ پاس آیا۔ اور کہا۔ علی ابن ابی طالب نے دختر أبو جہل کی خواستگاری کی۔ جناب سیدہ نے اس شقی سے کہا۔ تو قسم کھا۔ اس نے تین دفعہ قسم کھائی۔ اور کہا۔ جو کچھ میں کہتا ہوں۔ سچ کہتا ہوں۔ جناب فاطمہ کو بہت غیرت آئی۔ اس لئے کہ حق تعالیٰ نے عورتوں کے ضمیر میں بہت غیرت قرار دی ہے۔ جس طرح مردوں پر جہاد واجب کیا ہے اور اس عورت کے لئے جو باوجود غیرت کے صبر کرے ایک ثواب مقرر کیا ہے مثل ثواب اس شخص کے جو مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سرحد پر نگہبان کرے۔ یہ سُن کر جناب فاطمہ کو نہایت صدمہ ہوا۔ اور متفکر و متردد ہوئیں۔ یہاں تک کہ رات ہو گئی۔ جب رات ہوئی۔ (امام حسن کو دائیں کندھے پر بٹھایا) امام حسین کو بائیں کندھے پر بٹھایا۔ اور بایاں ہاتھ کلثوم کا اپنے داہنے ہاتھ میں لیا۔ اور اپنے پدر بزرگوار کے گھر تشریف لے گئیں۔ جب جناب امیر علیہ السلام گھر میں آئے اور جناب فاطمہ کو وہاں نہ دیکھا بہت غمگین و مخزون ہوئے مگر تشریف لے جانے کا سبب نہ نکلا۔ اور شرم و حجاب دامتگیر ہوا۔ کہ جناب سیدہ کو ان کے پدر بزرگوار کے گھر سے بلائیں۔ پس گھر سے باہر نکل آئے۔ اور مسجد میں جا کر بہت نماز ادا کیں۔ اور ایک تودہ خاک جمع کرکے اس پر تکیہ فرمایا۔ جب جناب رسول خدا نے جناب فاطہ کو مخزون و مغموم پایا۔ غسل کیا۔ اور لباس بدل کر مسجد میں تشریف لائے۔ اور نمازیں پڑھنی شروع کیں۔ مشغول رکوع و سجود تھے۔ بعد دو رکعت کے دعا مانگتے تھے۔ خداوند فاطمہ کے حزن و ملال کوزائل کر۔ کیونکہ جس وقت گھر سے باہر تشریف لائے فاطمہ کو دیکھ کر آئے تھے۔ کہ آپ کروٹیں بدلتیں اور ٹھنڈی سانسیں بھرتی ہیں۔ پھر گھر میں تشریف لے گئے دیکھا فاطمہ کو نیند نہیں آتی۔ اور بیقرار ہے۔ فرمایا اے دختر گرامی۔ اے فاطمہ اٹھو۔ جب جناب فاطمہ اٹھیں۔ جناب رسول خدا نے امام حسن کو اور فاطمہ نے امام حسین کو اٹھایا۔ اور ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے مسجد میں تشریف لائے۔ یہاں تک کہ قریب جناب امیر علیہ السلام پہونچے۔ اس وقت جناب امیر علیہ السلام آرام فرما رہے تھے۔ اس وقت جناب رسول خدا نے اپنا پاؤں جناب امیر علیہ السلام کے پاؤں کے اوپر رکھا۔ اور فرمایا۔ اے أبو تراب اتھو۔ گھر والوں کو تم نے اپنی جگہ سے جدا کیا ہے۔ جاؤ اور أبو بکر و عمر اور طلحہ کو بلا لاؤ۔ پس جناب امیر گئے۔ اور أبو بکر و عمر کو بلا لائے جب قریب جناب رسول خدا کے حاضر ہوئے۔ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد کیا۔ اے علی کیا تم نہیں جانتے کہ فاطمہ میری پارہ تن ہے اور میں فاطمہ سے ہوں۔ جس نے اسے آزار دیا۔ جس نے اس کو میری وفات کے بعد آزار دیا۔ گویا اس نے میری حیات میں آزار دیا۔ اور جس نے اس کو میری حیات میں آزار دیا ایسا ہے کہ گویا میری وفات کے بعد آزار دیا۔ جناب امیر نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ اسی طرح ہے۔ اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم کو کیا باعث ہوا۔ جو تم نے ایسا کام کیا۔ جناب امیر علیہ السلام نے فرمای۔ بحق اس خدا کے جس نے آپ کو براستی بھیجا۔ قسم کھاتا ہوں۔ جو کچھ فاطمہ سے کسی نے کہا۔ وہ فی الواقع صحیح نہیں ہے۔ اور میرے دل میں بھی وہ أمور نہیں گذرے۔ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم بھی سچ کہتے ہو۔ اور وہ بھی سچ کہتی ہے یہ کہہ کر اس وقت جناب فاطمہ ہنسنے لگیں۔ کہ دندان مبارک ظاہر ہوئے۔ ان دونوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا۔ ہمیں اس وقت بلانا بحسب ہے بیشک حضرت کے اس وقت کے بلانے سے ہم کو کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہے۔ پھر جناب رسول خدا نے امیر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ اور انگلیاں جناب کی انگلیوں میں داخل کیں۔ امام حسن کو گود میں لیا۔ اور جناب امیر نے امام حسین اور جناب فاطمہ نے ام کلثوم کو اٹھایا۔ پس حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں لے گئے۔ اور چادر ان پر ڈال دی۔ اور ان کو خدا کو سونپ کر باہر چلے آئے اور بقیہ شب نماز میں تمام کی۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 241 – 243 جلد 01 جلاء العیون، تاریخ چھاردہ معصوم علیھم السلام (مترجم اردو) – محمد باقر بن محمد تقي بن مقصود علي المجلسي المعروف بالعلامة المجلسي (المتوفى: 1110هـ) (مترجم سید عبد الحسین) – عباس بک ایجینسی، لکھنؤ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مندرجہ بالا عبارات میں چند أمور قابل غور ہیں:
عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو تک آتے آتے انسان سے شیطان ہو گیا!
اور ملا باقر مجلسی جیسے روافض شیخین رضی اللہ عنہما کے لئے کیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں!
اور وہ بھی اپنے امام معصوم سے منسوب کرتے ہوئے!
ملا باقر مجلسی نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے!
شیخ صدوق نے بھی اس سے صحیح تسلیم کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے!

شیعہ بارہ امامیہ کی اس روایت میں چند أمور قابل غور ہیں:
کہ روافض بارہ امامیہ کی اس روایت کے مطابق یہ واقعہ تو وقوع پذیر ہوا ہے، گو کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی غلط فہمی کی بناء پر ہی ہوا ہو!
دوم کہ یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کسی سے ناراض اور غمزدہ ہونا ہمیشہ حق نہیں ہوتا، بلکہ اس میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غلط خبر سے غلط فہمی بھی لاحق ہو سکتی ہے!
نوٹ: ہمارے نزدیک روافض نے اس روایت میں اپنے فن کا خوب استعمال کیا ہے، اور سیدنا صادق رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت میں تحریف کی ہے!
اور درست روایت وہی ہے، جو صحیحین میں وارد ہوئی ہے!
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
إنه جاء شقي من الأشقياء إلى فاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله) فقال لها: أما علمت أن عليا قد خطب بنت أبي جهل فقالت: حقا ما تقول: فقال: حقا ما أقول - ثلاث مرات
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا غیب نہیں جانتی تھیں :


إنه جاء شقي من الأشقياء إلى فاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله) فقال لها: أما علمت أن عليا قد خطب بنت أبي جهل فقالت: حقا ما تقول: فقال: حقا ما أقول - ثلاث مرات
یکی از اشقیا بہ نزد حضرت فاطمۂ زھرا علیھا السلام آمد و گفت کہ: علی بن ابیطالب دختر أبو جھل را خواستگاری می نمود، حضرت آن ملعون را سوگند داد، آن ملعون سہ مرتبہ سوگند یاد کرد کہ آنچہ می گویم حقّ است ‘‘
فرمایا ایک شیطان جناب سیدہ پاس آیا۔ اور کہا۔ علی ابن ابی طالب نے دختر أبو جہل سے رشتہ ازدواج کا پیغام بھجوایا ہے۔ جناب سیدہ نے اس سے کہا۔ تو قسم کھا۔ اس نے تین دفعہ قسم کھائی۔ اور کہا۔ جو کچھ میں کہتا ہوں۔ سچ کہتا ہوں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 241 – 243 جلد 01 جلاء العیون،
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فجاء علي (عليه السلام) فدخل في حجرته فلم ير فاطمة (عليها السلام) فاشتد لذلك غمه وعظم عليه، ولم يعلم القصة ما هي فاستحيى أن يدعوها من منزل أبيها فخرج إلى المسجد فصلى فيه ما شاء الله ثم جمع شيئا من كثيب المسجد واتكأ عليه.
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی عالم الغیب نہ تھے ؛


فجاء علي (عليه السلام) فدخل في حجرته فلم ير فاطمة (عليها السلام) فاشتد لذلك غمه وعظم عليه، ولم يعلم القصة ما هي فاستحيى أن يدعوها من منزل أبيها فخرج إلى المسجد فصلى فيه ما شاء الله ثم جمع شيئا من كثيب المسجد واتكأ عليه.
سیدہ فاطمہ ؓ کے گھر سے جانے کے بعدجب جناب علی رضی اللہ گھر میں آئے اور جناب فاطمہ کو وہاں نہ دیکھا بہت غمگین و مخزون ہوئے مگر تشریف لے جانے کا سبب معلوم نہ تھا۔ اور شرم و حجاب کے سبب انہیں نبی مکرم ﷺ کے گھر سے نہ بلایا۔ پس گھر سے باہر نکل آئے۔ اور مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگے۔پھر وہیں مسجد میں مٹی اکٹھی کرکے اس پر تکیہ فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور نہ ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ غیب جانتے تھے
فجاء علي فدخل حجرته فلم ير فاطمة فاشتد لذلك غمه وعظم عليه ولم يعلم القصة ما هي
علی علیہ السلام وارد خانہ شد و فاطمی را ندید و از این جھت سخت آزردہ خاطر شد، در حالی کہ نمی دانست ماجرا چیست،
پس علی علیہ السلام آمد و وارد خانہ شد و فاطمہ علیھا السلام را ندید و از این جھت بہ شدّت اندوھگین شد و بر او گران آمد، در حالہ کہ نمی دانست کہ قضیّہ از جہ قرار است.
اور جب حضرت علی آئے تو دیکھا اپنا حجرہ خالی ہے اور فاطمہ نہیں ہیں۔ اس سے حضرت علی کو بڑا دکھ ہوا انہیں معلوم نہ تھا کہ قصہ کیا ہے۔
فجاء علي (عليه السلام) فدخل في حجرته فلم ير فاطمة (عليها السلام) فاشتد لذلك غمه وعظم عليه، ولم يعلم القصة ما هي
چون حضرت امیر علیہ السلام عظیم نمود بر او، سبب آن حالت را ندانست،
جب جناب امیر علیہ السلام گھر میں آئے اور جناب فاطمہ کو وہاں نہ دیکھا بہت غمگین و مخزون ہوئے مگر تشریف لے جانے کا سبب نہ نکلا۔
 
Last edited:
Top