- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ان باکس (ذاتی پیغام ) میں ایک بھائی نے درج ذیل سوال کا جواب طلب کیا ہے ،
اس سوال کا جواب چونکہ سب کیلئے مفید ہے ،اس لئے اوپن فورم پر جواب دیا جارہا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا تعارف :
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ
امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ :
المسور بن مخرمة بن نوفل بن أهيب الزهري (ع)
ابن عبد مناف بن زهرة بن قصي بن كلاب، الإمام الجليل، أبو عبد الرحمن، وأبو عثمان القرشي، الزهري.
وأمه: عاتكة؛ أخت عبد الرحمن بن عوف، زهرية أيضا.
له: صحبة، ورواية.
وعداده في صغار الصحابة، كالنعمان بن بشير، وابن الزبير.
وحدث أيضا عن: خاله، وأبي بكر، وعمر، وعثمان.
حدث عنه: علي بن الحسين، وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، وولداه؛ عبد الرحمن وأم بكر، وطائفة.
قدم دمشق بريدا من عثمان يستصرخ بمعاوية.
ترجمہ :
امام جلیل ابو عبدالرحمن مسور بن مخرمہ بن نوفل بن زہرہ بن قصی بن کلاب
قرشی زہری ہیں ،ان کی والدہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نامور صحابی سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی بہن ہیں ،
خود جناب مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کو صحابی ہونے کاشرف بھی حاصل ہے ،کم عمر صحابہ کرام جیسے نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما میں آپ کا شمار ہے ،
آپ نے سماع حدیث اپنے ماموں عبدالرحمن بن عوف اور دیگرکئی نامی گرامی حضرات سے کیا ،
آپ سے روایت کرنے والوں میں نامور تابعی سیدنا علی بن حسین زین العابدین ؒ اور وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، جیسے عظیم لوگوں کے نام ہیں ،
توفي لهلال ربيع الآخر، سنة أربع وستين (یعنی ربیع الثانی ۶۴ ہجری کو فوت ہوئے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا مسور ؓ اہل بیت اور حضرت علیؓ کے بڑے محب اور قدر دان تھے ،درج ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے ،
اور یاد رہے یہ روایت جنابِ مسورؓ سے سن کر آگے نقل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خودحضرت علی ؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین ؒ ہیں ؛
امام ابوداودؒ اور امام ابن ابی عاصمؒ نے صحیح اسناد سے سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے کہ :
أن ابن شهاب، حدثه، أن علي بن الحسين حدثه أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنهما، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها، قال: فقلت له: لا، قال: هل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه وايم الله لئن أعطيتنيه لا يخلص إليه أبدا حتى يبلغ إلى نفسي، إن علي بن أبي طالب رضي الله عنه خطب بنت أبي جهل على فاطمة رضي الله عنها فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا، وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها» قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن، قال: حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا "
امام ابن شہاب زہری (محمد بن مسلم بن عبیداللہ )المتوفی ۱۲۳ ھ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ جناب علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب ) رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ہم لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد دمشق یزید بن معاویہؓ کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے ، تو مجھے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا ، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم فرمائیں ؟ میں نے کہا : نہیں ۔ انہوں نے کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرما سکتے ہیں ؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق قوم کہیں آپ پر غالب نہ آ جائے ۔ اور قسم اللہ کی ! اگر آپ مجھے یہ عنایت فرما دیں تو میرے جیتے جی کبھی کوئی اس تک نہ پہنچ سکے گا ۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی عترت کی حفاظت اور دفاع ہم پر لازم ہے ۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام بھیج دیا ۔ میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا جب کہ میں ان دنوں بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فاطمہ مجھ سے ہے اور مجھے فکر ہے کہ کہیں اس کے دین میں کوئی امتحان نہ آ جائے ۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدشمس ( بنی امیہ ) میں سے اپنے داماد ( سیدنا ابوالعاص بن الربیع ) کا ذکر کیا اور اس کی مدح فرمائی اور خوب فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس نے مجھ سے بات کی تو سچی کی ، وعدہ کیا تو پورا کیا ۔ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا ۔ لیکن قسم اللہ کی ! اللہ کے رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا علی ؓ کے پوتے اور سیدنا حسین بن علی ؓ کے صاحبزادے جناب زین العابدین ؓ کی ایسی قدر دانی اور تکریم کرنے والے صحابی کورافضی لوگ حضرت علیؓ کا دشمن بتاتے ہیں تعجب اور حیرت ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے المصنف میں اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں بسند صحیح روایت ذکر فرمائی ہے جس میں حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کا سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید اور طعن کرنا ثابت ہوتا ہے ،جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ساتھی اور محب ہی کرسکتا ہے:
أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، قال: حدثني المسور بن مخرمة، أنه وفد على معاوية، قال: فلما دخلت عليه - حسبت أنه قال: سلمت عليه - ثم قال: «ما فعل طعنك على الأئمة يا مسور؟» قال: قلت: ارفضنا من هذا، أو أحسن فيما قدمنا له، قال: «لتكلمن بذات نفسك» قال: فلم أدع شيئا أعيبه به إلا أخبرته به، قال: «لا أبرأ من الذنوب فهل لك ذنوب تخاف أن تهلك إن لم يغفرها الله لك؟» ، قال: قلت: نعم، قال: «فما يجعلك أحق بأن ترجو المغفرة مني، فوالله لما ألي من الإصلاح بين الناس، وإقامة الحدود، والجهاد في سبيل الله، والأمور العظام التي تحصيها أكثر مما تلي، وإني لعلى دين يقبل الله فيه الحسنات، ويعفو فيه عن السيئات، والله مع ذلك ما كنت لأخير بين الله وغيره، إلا اخترت الله على ما سواه» قال: ففكرت حين قال لي ما قال، فوجدته قد خصمني، فكان إذا ذكره بعد ذلك دعا له بخير
(جامع معمر بن راشد ۲۰۷۱۷)
اور تاریخ بغداد (جلد ۱ ص۲۲۳) میں یہ روایت یوں ہے :
عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير: أن المسور بن مخرمة أخبره أنه قدم وافدا على معاوية بن أبي سفيان فقضى حاجته، ثم دعاه فأخلاه فقال: يا مسور ما فعل طعنك على الأئمة؟ فقال المسور: دعنا من هذا وأحسن فيما قدمنا له. قال معاوية: والله لتكلمن بذات نفسك، والذي تعيب علي. قال المسور: فلم أترك شيئا أعيبه عليه إلا بينته له. قال معاوية: لا برئ من الذنب، فهل تعد يا مسور مالي من الإصلاح في أمر العامة، فإن الحسنة بعشر أمثالها، أم تعد الذنوب وتترك الحسنات.
قال المسور: لا والله ما نذكر إلا ما ترى من هذه الذنوب. قال معاوية: فإنا نعترف لله بكل ذنب أذنبناه، فهل لك يا مسور ذنوب في خاصتك تخشى أن تهلكك إن لم يغفرها الله؟ قال مسور: نعم، قال معاوية: فما يجعلك أحق أن ترجو المغفرة مني؟
فو الله لما ألي من الإصلاح أكثر مما تلي، ولكن والله لا أخير بين أمرين، بين الله وبين غيره إلا اخترت الله تعالى على ما سواه، وإنا على دين يقبل الله فيه العمل، ويجزي فيه بالحسنات، ويجزي فيه بالذنوب، إلا أن يعفو عمن يشاء، فأنا أحتسب كل حسنة عملتها بأضعافها، وأوازي أمورا عظاما لا أحصيها ولا تحصيها، من عمل الله في إقامة صلوات المسلمين، والجهاد في سبيل الله عز وجل، والحكم بما أنزل الله تعالى، والأمور التي لست تحصيها وإن عددتها لك، فتفكر في ذلك. قال المسور: فعرفت أن معاوية قد خصمني حين ذكر لي ما ذكر. قال عروة: فلم يسمع المسور بعد ذلك يذكر معاوية إلا استغفر له.
امام ابن شہاب الزہریؒ فرماتے ہیں مجھے امام عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدنا المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَرضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ امیرالمومنین سیدنامعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس اک وفد لے کر گئے تو سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی غلطیوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پرہوں جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امورکی ذمہ داری نبھا رہا ہوں جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی ج 1 ص 577)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
یہ محض کوئی افسانہ نہیں ،بلکہ خیرالقرون کا ایک سچا واقعہ اور تاریخی حقیقت ہے جسےمحدثین نے بالاسناد نقل فرمایا ہے ،جس سےایک طرف سیدنا امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں رائے اور تنقید کی آزادی ثابت ہوتی ہے ، اور خود سیدنا الامام معاویہ کے حلم اور صبر پتا چلتا ہے ، تو دوسری طرف شخصی طور جناب مسور بن مخرمہؓ کی حق گوئی اور اظہار حق کی جرات کا ثبوت ملتا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوانا مسورؓ بن مخرمہ سے خود جناب علیؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ہی نقل فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
أن ابن شهاب، حدثه أن علي بن حسين، حدثه: أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي رحمة الله عليه، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها؟ فقلت له: لا، فقال له: فهل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه، وايم الله لئن أعطيتنيه، لا يخلص إليهم أبدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن أبي طالب خطب ابنة أبي جهل على فاطمة عليها السلام، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها»، ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فأثنى عليه في مصاهرته إياه، قال: «حدثني، فصدقني ووعدني فوفى لي، وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبنت عدو الله أبدا»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سوال کا جواب چونکہ سب کیلئے مفید ہے ،اس لئے اوپن فورم پر جواب دیا جارہا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہالسلام عليكم یا شیخ محترم!
امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ھوں گئے. آپ سے ایک رافضی کی تحریر بارے کچھ استفسار کرنا ھے. اس لیے اسکی پوسٹ کاپی پیسٹ کر رھا ھوں. اس پوسٹ میں بخاری ومسلم کی روایت پر مسور بن مخرمہ کے حوالے سے دو اعتراضات ہیں. انکے بارے کچھ عرض کر دیں. یہ رھی اس کی پوسٹ:
عن المسور بن مخرمة أنه قال :" إن عليا خطب بنت أبي جهل ، فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت أبي جهل ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسمعته حين تشهد يقول : أما بعد ، أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني ، وإن فاطمة بضعة مني وإني أكره أن يسوءها ، والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ، فترك علي الخطبة " وفي رواية للبخاري " فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني " .... !!!البخاري رقم 3523 ، 3556 ، ومسلم برقم 2449
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امابعد:
"میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ "(صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر: ٣٨٢٩)۔۔
محمد بن عمرو نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔"
جواب) یہ حدیث اہلسنّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی، اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہلا راوی مسور بن مخرمہ ہے جو حضرت علیؓ کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبداللہ ابن زبیرؓ کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ مارا گیا تھا۔
مشہور سنّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛
1.قال الزبير بن بكار كانت [الخوارج] تغشاه وينتحلونه (سیر اعلام النبلاء، ج3 ص391)
ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں:
2.قال عروة فلم أسمع المسور ذكر معاوية إلا صلى عليه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔
جناب مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا تعارف :
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ
امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ :
المسور بن مخرمة بن نوفل بن أهيب الزهري (ع)
ابن عبد مناف بن زهرة بن قصي بن كلاب، الإمام الجليل، أبو عبد الرحمن، وأبو عثمان القرشي، الزهري.
وأمه: عاتكة؛ أخت عبد الرحمن بن عوف، زهرية أيضا.
له: صحبة، ورواية.
وعداده في صغار الصحابة، كالنعمان بن بشير، وابن الزبير.
وحدث أيضا عن: خاله، وأبي بكر، وعمر، وعثمان.
حدث عنه: علي بن الحسين، وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، وولداه؛ عبد الرحمن وأم بكر، وطائفة.
قدم دمشق بريدا من عثمان يستصرخ بمعاوية.
ترجمہ :
امام جلیل ابو عبدالرحمن مسور بن مخرمہ بن نوفل بن زہرہ بن قصی بن کلاب
قرشی زہری ہیں ،ان کی والدہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نامور صحابی سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی بہن ہیں ،
خود جناب مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کو صحابی ہونے کاشرف بھی حاصل ہے ،کم عمر صحابہ کرام جیسے نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما میں آپ کا شمار ہے ،
آپ نے سماع حدیث اپنے ماموں عبدالرحمن بن عوف اور دیگرکئی نامی گرامی حضرات سے کیا ،
آپ سے روایت کرنے والوں میں نامور تابعی سیدنا علی بن حسین زین العابدین ؒ اور وعروة، وسليمان بن يسار، وابن أبي مليكة، وعمرو بن دينار، جیسے عظیم لوگوں کے نام ہیں ،
توفي لهلال ربيع الآخر، سنة أربع وستين (یعنی ربیع الثانی ۶۴ ہجری کو فوت ہوئے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا مسور ؓ اہل بیت اور حضرت علیؓ کے بڑے محب اور قدر دان تھے ،درج ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے ،
اور یاد رہے یہ روایت جنابِ مسورؓ سے سن کر آگے نقل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خودحضرت علی ؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین ؒ ہیں ؛
امام ابوداودؒ اور امام ابن ابی عاصمؒ نے صحیح اسناد سے سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی ہے کہ :
أن ابن شهاب، حدثه، أن علي بن الحسين حدثه أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنهما، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها، قال: فقلت له: لا، قال: هل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه وايم الله لئن أعطيتنيه لا يخلص إليه أبدا حتى يبلغ إلى نفسي، إن علي بن أبي طالب رضي الله عنه خطب بنت أبي جهل على فاطمة رضي الله عنها فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا، وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها» قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس فأثنى عليه في مصاهرته إياه فأحسن، قال: حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا "
امام ابن شہاب زہری (محمد بن مسلم بن عبیداللہ )المتوفی ۱۲۳ ھ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ جناب علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب ) رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ہم لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد دمشق یزید بن معاویہؓ کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے ، تو مجھے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا ، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم فرمائیں ؟ میں نے کہا : نہیں ۔ انہوں نے کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرما سکتے ہیں ؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق قوم کہیں آپ پر غالب نہ آ جائے ۔ اور قسم اللہ کی ! اگر آپ مجھے یہ عنایت فرما دیں تو میرے جیتے جی کبھی کوئی اس تک نہ پہنچ سکے گا ۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی عترت کی حفاظت اور دفاع ہم پر لازم ہے ۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام بھیج دیا ۔ میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا جب کہ میں ان دنوں بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فاطمہ مجھ سے ہے اور مجھے فکر ہے کہ کہیں اس کے دین میں کوئی امتحان نہ آ جائے ۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدشمس ( بنی امیہ ) میں سے اپنے داماد ( سیدنا ابوالعاص بن الربیع ) کا ذکر کیا اور اس کی مدح فرمائی اور خوب فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس نے مجھ سے بات کی تو سچی کی ، وعدہ کیا تو پورا کیا ۔ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا ۔ لیکن قسم اللہ کی ! اللہ کے رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا علی ؓ کے پوتے اور سیدنا حسین بن علی ؓ کے صاحبزادے جناب زین العابدین ؓ کی ایسی قدر دانی اور تکریم کرنے والے صحابی کورافضی لوگ حضرت علیؓ کا دشمن بتاتے ہیں تعجب اور حیرت ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے المصنف میں اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں بسند صحیح روایت ذکر فرمائی ہے جس میں حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کا سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید اور طعن کرنا ثابت ہوتا ہے ،جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا ساتھی اور محب ہی کرسکتا ہے:
أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، قال: حدثني المسور بن مخرمة، أنه وفد على معاوية، قال: فلما دخلت عليه - حسبت أنه قال: سلمت عليه - ثم قال: «ما فعل طعنك على الأئمة يا مسور؟» قال: قلت: ارفضنا من هذا، أو أحسن فيما قدمنا له، قال: «لتكلمن بذات نفسك» قال: فلم أدع شيئا أعيبه به إلا أخبرته به، قال: «لا أبرأ من الذنوب فهل لك ذنوب تخاف أن تهلك إن لم يغفرها الله لك؟» ، قال: قلت: نعم، قال: «فما يجعلك أحق بأن ترجو المغفرة مني، فوالله لما ألي من الإصلاح بين الناس، وإقامة الحدود، والجهاد في سبيل الله، والأمور العظام التي تحصيها أكثر مما تلي، وإني لعلى دين يقبل الله فيه الحسنات، ويعفو فيه عن السيئات، والله مع ذلك ما كنت لأخير بين الله وغيره، إلا اخترت الله على ما سواه» قال: ففكرت حين قال لي ما قال، فوجدته قد خصمني، فكان إذا ذكره بعد ذلك دعا له بخير
(جامع معمر بن راشد ۲۰۷۱۷)
اور تاریخ بغداد (جلد ۱ ص۲۲۳) میں یہ روایت یوں ہے :
عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير: أن المسور بن مخرمة أخبره أنه قدم وافدا على معاوية بن أبي سفيان فقضى حاجته، ثم دعاه فأخلاه فقال: يا مسور ما فعل طعنك على الأئمة؟ فقال المسور: دعنا من هذا وأحسن فيما قدمنا له. قال معاوية: والله لتكلمن بذات نفسك، والذي تعيب علي. قال المسور: فلم أترك شيئا أعيبه عليه إلا بينته له. قال معاوية: لا برئ من الذنب، فهل تعد يا مسور مالي من الإصلاح في أمر العامة، فإن الحسنة بعشر أمثالها، أم تعد الذنوب وتترك الحسنات.
قال المسور: لا والله ما نذكر إلا ما ترى من هذه الذنوب. قال معاوية: فإنا نعترف لله بكل ذنب أذنبناه، فهل لك يا مسور ذنوب في خاصتك تخشى أن تهلكك إن لم يغفرها الله؟ قال مسور: نعم، قال معاوية: فما يجعلك أحق أن ترجو المغفرة مني؟
فو الله لما ألي من الإصلاح أكثر مما تلي، ولكن والله لا أخير بين أمرين، بين الله وبين غيره إلا اخترت الله تعالى على ما سواه، وإنا على دين يقبل الله فيه العمل، ويجزي فيه بالحسنات، ويجزي فيه بالذنوب، إلا أن يعفو عمن يشاء، فأنا أحتسب كل حسنة عملتها بأضعافها، وأوازي أمورا عظاما لا أحصيها ولا تحصيها، من عمل الله في إقامة صلوات المسلمين، والجهاد في سبيل الله عز وجل، والحكم بما أنزل الله تعالى، والأمور التي لست تحصيها وإن عددتها لك، فتفكر في ذلك. قال المسور: فعرفت أن معاوية قد خصمني حين ذكر لي ما ذكر. قال عروة: فلم يسمع المسور بعد ذلك يذكر معاوية إلا استغفر له.
امام ابن شہاب الزہریؒ فرماتے ہیں مجھے امام عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدنا المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَرضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ امیرالمومنین سیدنامعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس اک وفد لے کر گئے تو سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے مسور رضی اللہ عنہ کی ضرورت پوری کی اور انھیں تخلیے پر بلایا اور کہا تمہارا حکمرانوں پر لعن طعن کرنا کیسا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات چھوڑیں اور اچھا سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں الله کی قسم تمہیں مجھے اپنے بارے میں بتانا پڑے گا جو تم مجھ پر تنقید کرتے ہو. مسوررضی اللہ عنہ نے کہا میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام عیب والی باتیں انھیں بتا دیں. امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ، کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی . ایک نیکی کا آجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا . یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو . مسور رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں. الله کی قسم ہم تو انہی غلطیوں کا ذکر کرتے ہیں جوتم میں دیکھتے ہیں. معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم اپنے ہر گناہ الله کے سامنے تسلیم کرتے ہیں . اے مسور! کیا تمھارے ایسے گناہ ہیں جو تم سمجتھے ہو کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں . معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کس بات نے تمہیں اپنے بارے بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے تم یہ امید نہیں رکھتے؟ الله کی قسم میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوسشش کر رہا ہوں اور دو باتوں میں سے اک بات کو اختیار کرتا ہوں۔ الله اور غیر الله کے درمیان صرف الله کو چنتا ہوں. میں اس دین پرہوں جس میں الله عمل کو قبول فرماتا ہے اور نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سواۓ اس کے جسے وہ معاف کر دے. میں ہر نیکی کے بدلے یہی امید رکھتا ہوں کہ الله مجھے کئی گنا اجر عطا کرے گا. میں ان عظیم امورکی ذمہ داری نبھا رہا ہوں جنھیں تم اور میں گن نہیں سکتے. میں نے اقامت صلاتہ، جہاد فی سبیل الله اور الله کی نازل کردہ احکامات کو قائم کیا. اور کئی ایسے کام جنہیں تم شمار نہیں کر سکتے. اس بارے میں غور و فکر کرو.
مسور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ پر گفتگو میں غالب ہو گئے ہیں . عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا کہ مسور رضی اللہ عنہ نے کبھی امیرالمومنین سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی ہو اور وہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے"
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی ج 1 ص 577)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
یہ محض کوئی افسانہ نہیں ،بلکہ خیرالقرون کا ایک سچا واقعہ اور تاریخی حقیقت ہے جسےمحدثین نے بالاسناد نقل فرمایا ہے ،جس سےایک طرف سیدنا امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں رائے اور تنقید کی آزادی ثابت ہوتی ہے ، اور خود سیدنا الامام معاویہ کے حلم اور صبر پتا چلتا ہے ، تو دوسری طرف شخصی طور جناب مسور بن مخرمہؓ کی حق گوئی اور اظہار حق کی جرات کا ثبوت ملتا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوانا مسورؓ بن مخرمہ سے خود جناب علیؓ کے پوتے سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ہی نقل فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
أن ابن شهاب، حدثه أن علي بن حسين، حدثه: أنهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي رحمة الله عليه، لقيه المسور بن مخرمة، فقال له: هل لك إلي من حاجة تأمرني بها؟ فقلت له: لا، فقال له: فهل أنت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني أخاف أن يغلبك القوم عليه، وايم الله لئن أعطيتنيه، لا يخلص إليهم أبدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن أبي طالب خطب ابنة أبي جهل على فاطمة عليها السلام، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وأنا يومئذ محتلم، فقال: «إن فاطمة مني، وأنا أتخوف أن تفتن في دينها»، ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فأثنى عليه في مصاهرته إياه، قال: «حدثني، فصدقني ووعدني فوفى لي، وإني لست أحرم حلالا، ولا أحل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبنت عدو الله أبدا»
امام محمد بن مسلم ابن شہابؒ (المتوفی ۱۲۳ ھ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے علی بن حسین ( زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی ‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔ ( حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ ) میں نے کہا ‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں لوگ یہ قیمتی تلوارآپ سے نہ لےلیں ، اور خدا کی قسم ! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیا ن کیا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہ ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ‘ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی ۔
(صحیح بخاری ،کتاب فرض الخمس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مسورؓ بن مخرمہ، سیدنا علی ؓ یا اہل بیت کے دشمن تھے تو اس وقت اہل بیت کی اتنی اہم شخصیت یعنی سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ نے ایسے دشمن سے اپنے دادا کی شادی کی جھوٹی بات ان سے سن کر آگےنقل کیوں فرمائی ؟؟؟(صحیح بخاری ،کتاب فرض الخمس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Last edited: