• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت عمر راضی اللہ میدان جنگ سے بھاگے تھے یا ؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کیا حضرت عمر میدان جنگ سے بھاگے تھے یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امام بخاری فرماتے ہیں کہ ہاں حضرت عمر میدان جنگ سے بھاگے تھے نہ صرف بھاگے بلکہ اپنے اس فرار کو اللہ کا حکم بھی کہا تو کیا حضرت عمر پر بھی وحی نازل ہوتی تھی ؟ نعوذباللہ

امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں جیسے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے فرماتے ہیں
ابوقتادہ نے بیان کیا ، غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھاکہ ایک مشرک سے لڑرہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف پڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایاتو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچاکہ میں ڈرگیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیااور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ان بھاگنے والے لوگوں میں عمر بن خطاب نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے،
صحیح بخاری ،کتاب المغازی ،باب: جنگ حنین کابیان ،حدیث نمبر : 4322
حضرت عمر میدان جنگ سے اپنے اس فرار کو اللہ کا حکم کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کیا اس فرار کے لئے اللہ نے حضرت عمر پر کوئی آیت نازل کی تھی نعوذباللہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کیا حضرت عمر میدان جنگ سے بھاگے تھے یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امام بخاری فرماتے ہیں کہ ہاں حضرت عمر میدان جنگ سے بھاگے تھے نہ صرف بھاگے بلکہ اپنے اس فرار کو اللہ کا حکم بھی کہا تو کیا حضرت عمر پر بھی وحی نازل ہوتی تھی ؟ نعوذباللہ

امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں جیسے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے فرماتے ہیں
ابوقتادہ نے بیان کیا ، غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھاکہ ایک مشرک سے لڑرہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف پڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایاتو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچاکہ میں ڈرگیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیااور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ان بھاگنے والے لوگوں میں عمر بن خطاب نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے،
صحیح بخاری ،کتاب المغازی ،باب: جنگ حنین کابیان ،حدیث نمبر : 4322
حضرت عمر میدان جنگ سے اپنے اس فرار کو اللہ کا حکم کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کیا اس فرار کے لئے اللہ نے حضرت عمر پر کوئی آیت نازل کی تھی نعوذباللہ



بہرام صاحب نے پوری حدیث پیش نہیں کی
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 384
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ أَفْلَحَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا کَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِکِينَ عَلَا رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَاسْتَدَرْتُ حَتَّی أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّی ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَی حَبْلِ عَاتِقِهِ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ الثَّالِثَةَ مِثْلَهُ فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا قَتَادَةَ فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ عَنِّي فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيکَ سَلَبَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ فَأَعْطَاهُ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ

عبد اللہ مالک یحیی ابن افلح ابومحمد ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یوم حنین میں ہم لوگ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب تھے کہ ہمارے اس مقابلہ میں ہم مسلمانوں کو کچھ شکست سی دکھائی دی اور میں نے ایک مشرک کو دیکھا کہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے تو میں گھوم کر اس کے پیچھے سے آیا اور اس کے شانہ پر تلوار کا وار کیا تو وہ میرے مقابلہ پر ڈٹ گیا اور خوب گھمسان کی لڑائی ہوئی حتیٰ کہ اس نے مجھے موت کی خوشبو سونگھائی پھر وہ مر گیا تو اس نے میرا پیچھا چھوڑا تو پھر میں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل کر پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے جواب دیا اللہ کا حکم ہے اس کے بعد وہ سب لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹھ کر فرمایا جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس ثبوت ہو تو اس مقتول کافر کا اس مسلمان مجاہد کو مال واسباب ملے گا تو میں )ابو قتادہ( نے کھڑے ہو کر کہا کہ میری گواہی کون دے گا اور پھر بیٹھ گیا اس کے بعد دوسری مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس کسی کافر کو قتل کرنے کا ثبوت ہو تو اس کو اس کا مال واسباب ملے گا تو میں نے کھڑے ہو کر کہا کون ہے جو میری شہادت دے اور )یہ کہہ کر( میں بیٹھ گیا اس کے بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے کی طرح تیسری مرتبہ پھر فرمایا تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ابوقتادہ سچے ہیں اور اس مقتول کافر کا سازو سامان میرے پاس ہے اور ان کو مجھ سے رضی کردیجئے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم! آپ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کے ساتھ جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے یہ نہیں کریں گے کہ اس کا سازو سامان تم کو دے دیں اس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ سچ کہہ رہے ہیں چنانچہ وہ سازو سامان اس نے مجھ کو دے دیا اور میں نے اس کی زرہ کو بیچ کر بنو سلمہ کا ایک باغ مول لے لیا اور زمانہ اسلام کا یہ سب سے پہلا دور تھا جس میں مجھے یہ مال حاصل ہوا تھا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1458
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا کَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِکِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَی حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّيْفِ فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ قَالَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ قَالَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ فَقُمْتُ فَقَالَ مَا لَکَ يَا أَبَا قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ رَجُلٌ صَدَقَ وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنِّي فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُعْطِيَکَ سَلَبَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ فَأَعْطِهِ فَأَعْطَانِيهِ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ نَظَرْتُ إِلَی رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِکِينَ وَآخَرُ مِنْ الْمُشْرِکِينَ يَخْتِلُهُ مِنْ وَرَائِهِ لِيَقْتُلَهُ فَأَسْرَعْتُ إِلَی الَّذِي يَخْتِلُهُ فَرَفَعَ يَدَهُ لِيَضْرِبَنِي وَأَضْرِبُ يَدَهُ فَقَطَعْتُهَا ثُمَّ أَخَذَنِي فَضَمَّنِي ضَمًّا شَدِيدًا حَتَّی تَخَوَّفْتُ ثُمَّ تَرَکَ فَتَحَلَّلَ وَدَفَعْتُهُ ثُمَّ قَتَلْتُهُ وَانْهَزَمَ الْمُسْلِمُونَ وَانْهَزَمْتُ مَعَهُمْ فَإِذَا بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ لَهُ مَا شَأْنُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ ثُمَّ تَرَاجَعَ النَّاسُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَقَامَ بَيِّنَةً عَلَی قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَی قَتِيلِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِي فَذَکَرْتُ أَمْرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْکُرُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ کَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا فَکَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ

عبدالله بن یوسف، مالک، یحیی بن سعید، عمر بن کثیر بن افلح، ابومحمد، ابوقتاده سے روایت کرتے ہیں وه فرماتے ہیں که ہم نبی صلی الله علیه وسلم کیساتھ حنین کے سال نکلے، جب ہم مقابل ہوئے تو مسلمانوں میں انتشار سا ہوا، میں نے ایک مشرک کو ایک مسلمان پر غالب دیکھا، میں نے اس کے عقب سے اسکی گردن پر تلوار ماری، تو اسکی زره کاٹ دی، وه پلٹ کر مجھ پر آیا اور مجھے اتنے زور سے دبوچا که مجھے موت نظر آنے لگی، پھر وه مر گیا اور مجھے چھوڑ دیا، پھر میں حضرت عمر سے ملا، تو میں نے ان سے کہا، لوگوں کو کیا ہوگیا )که منتشر ہو رہے ہیں( انهوں نے جواب دیا که حکم خدا ہی ایسا ہے، پھر مسلمان پلٹے اور حمله آور ہوئے، اب نبی صلی الله علیه وسلم )جو میدان میں جوهر شجاعت دکھا رهے تھے( بیٹھ گئے اور فرمایا جس نے کسی )کافر( کو قتل کیا اور اس کے پاس گواه بھی ہو تو اسے مقتول کا تمام سامان ملے گا، تو میں نے کہا که میری گواهی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا، پھر نبی نے اسی طرح فرمایا، میں پھر کھڑا ہوا اور میں نے کہا، میری گواهی کون دے گا؟ اور میں بیٹھ گیا، پھر نبی نے اسی طرح فرمایا، پھر میں کھڑا ہوا تو آپ نے فرمایا، ابوقتاده کیا ہوا؟ تو میں نے آپ کو واقعه بتا دیا، ایک آدمی نے کہا که یه سچ کہتا ہے اور اس کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے، لیکن آپ میری طرف سے )اس مال کے میرے پاس رهنے پر( اسے راضی کرلیجئے، تو ابوبکر نے کہا بخدا! رسول الله یه اراده نہیں کرینگے که الله کے ایک شیر سے جو الله و رسول کی جانب سے لڑتا ہے اسباب لے کر تجھے دیدیں، تو نبی نے فرمایا، یه بات بالکل صحیح ہے، لهذا یه اسباب ابوقتاده کودے دو، اس نے وه اسباب مجھے دیدیا، میں نے اس سے بنو سلمه میں ایک باغ خریدا، اسلام میں یه پہلا مال ہے جسے میں نے جمع کیا، لیث، یحیی بن سعید، عمربن کثیر بن افلح، ابوقتاده کے آزاد کرده غلام، ابومحمد، ابوقتاده سے روایت کرتے ہیں که حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو ایک مشرک سے مارتے ہوئے دیکھا ایک دوسرا مشرک مسلمان کو قتل کرنے کیلئے اس کے پیچھے سے تاک لگا رها تھا جو تاک لگا رها تھا میں اس کے پیچھے دوڑا، اس نے مجھے مارنے کیلئے اپناهاتھ اٹھایا میں نے اس کے ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ دیا پھر اس نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے اتنے زور سے دبوچا که مجھے )موت کا( خوف ہوگیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا، اور ڈھیلا پڑگیا، میں نے اسے ہٹا کر اسے قتل کر دیا مسلمان بھاگے، میں بھی انکے ساتھ بھاگا، تو مجھے لوگوں میں عمربن خطاب ملے، میں نے ان سے کہا، لوگوں کو کیا ہوگیا؟ انهوں نے جواب دیا الله کا حکم، پھر لوگ نبی صلی الله علیه وسلم کے پاس پلٹے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے قتل کئے ہوئے )کافر( پر گواه پیش کرے، تو اسے مقتول کا تمام اسباب ملے گا، میں اپنے مقتول پر گواه کی تلاش میں اٹھ کھڑا ہوا، لیکن مجھے کوئی گواه نہیں ملا پھر میری سمجھ میں آیا، تو میں نے اپنا واقعه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا که جس مقتول کا ذکر یه کر رهے ہیں اس کا اسباب میرے پاس ہے، لیکن انهیں میری طرف سے راضی کر دیجئے )که وه اسباب میرے پاس رهنے دیں( تو ابوبکر نے کہا، ہرگز نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یه اسباب الله کے اس شیر کو چھوڑ کر جو الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے لڑتا ہے، ایک قریشی بزدل کو نہیں دیں گے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وه مال مجھے دلوادیا، میں نے اس سے ایک باغ خریدا، اسلام میں یه سب سے پھلا مال ہے جسے میں نے جمع کیا.

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 944
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَامِ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا کَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ قَالَ فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِکِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ قَالَ فَاسْتَدَرْتُ لَهُ حَتَّی أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَی حَبْلِ عَاتِقِهِ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ لَهُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ قَالَ فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ الثَّانِيَةَ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ قَالَ فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ الثَّالِثَةَ فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا قَتَادَةَ قَالَ فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُ ذَلِکَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ لَاهَا اللَّهِ إِذًا يَعْمِدُ إِلَی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنْ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيکَ سَلَبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ فَأَعْطَانِيهِ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلَمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ
عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، مالک، یحیی بن سعید، عمرو بن کثیر بن افلح، ابومحمد، حضرت ابوقتادہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین میں نکلے۔ جب ہمارا مقابلہ کافروں سے ہوا تو مسلمانوں میں افرا تفری پھیل گئی۔ میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کر لیا ہے تو میں نے اسکے پیچھے سے آکر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری وہ میری طرف جھپٹا اور مجھے آکر ایسا دبوچا گویا اس نے مجھے موت کا مزہ چکھا دیا پھر اسکو موت آگئی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب میری ملاقات حضرت عمر سے ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آج لوگوں کو کیا ہوا تھا- انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم یونہی تھا پھر مسلمان واپس ہو گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا جو کسی کافر کو قتل کرے گا اس کا مال واسباب اسی کو ملے گا بشر طیکہ اس کا ثبوت ہو۔ ابوقتادہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میں اٹھ کھڑا ہو ا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ گواہ اور ثبوت کہاں سے لاؤں گا اس لیے پھر بیٹھ رہا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کر یگا تو مقتول کا تمام اسباب اسی کو ملے گابشرطیکہ کوئی گواہ بھی موجود ہو۔ میں پھر اٹھا مگر یہ خیال کر کے پھر بیٹھ گیا کہ گواہ کہاں میسر ہوں گے۔ پھر جب تیسری مرتبہ آپ نے یہی فرمایا تو میں اٹھ کھڑا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوقتادہ تجھ کو کیا ہو ا؟ پس میں نے اصل صورت حال اور اپنا اشکال بیان کر دیا۔ اتنے میں ایک شخص بولا یا رسول اللہ! اس نے سچ کہا۔ فلاں کافر کا سامان میرے پاس ہے تو وہ سامان مجھے ان سے دلایئے۔ حضرت ابوبکرنے کہا خدا کی قسم ایسا کبھی نہ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کبھی قصد نہ کریں گے کہ ایک شیر خدا کے شیروں میں سے اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تجھے مل جائے۔ آنحضرت نے فرمایا ابوبکر سچ کہتے ہیں وہ سامان تو اسی کو دیدے ابوقتادہ کہتے ہیں کہ پھر اس نے وہ سامان مجھے دیدیا اور میں نے اس کو فروخت کر کے بنی سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔
 
Top