• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت عمر راضی اللہ میدان جنگ سے بھاگے تھے یا ؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کیا حضرت عمر میدان جنگ سے بھاگے تھے یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امام بخاری فرماتے ہیں کہ ہاں حضرت عمر میدان جنگ سے بھاگے تھے نہ صرف بھاگے بلکہ اپنے اس فرار کو اللہ کا حکم بھی کہا تو کیا حضرت عمر پر بھی وحی نازل ہوتی تھی ؟ نعوذباللہ

امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں جیسے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے فرماتے ہیں
ابوقتادہ نے بیان کیا ، غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھاکہ ایک مشرک سے لڑرہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف پڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایاتو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچاکہ میں ڈرگیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیااور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ان بھاگنے والے لوگوں میں عمر بن خطاب نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے،
صحیح بخاری ،کتاب المغازی ،باب: جنگ حنین کابیان ،حدیث نمبر : 4322
حضرت عمر میدان جنگ سے اپنے اس فرار کو اللہ کا حکم کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کیا اس فرار کے لئے اللہ نے حضرت عمر پر کوئی آیت نازل کی تھی نعوذباللہ


bhajooooooooooooooooooooooooooooooo.jpg
bhajoooooooo-2.jpg



ان بھاگنے والے لوگوں میں عمر بن خطاب نظر آئے

اب بہرام صاحب یہ وضاحت فرما دیں کہ اوپر والا جملہ حدیث کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105


اب بہرام صاحب یہ وضاحت فرما دیں کہ اوپر والا جملہ حدیث کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے -
وانهزم المسلمون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وانهزمت معهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا بعمر بن الخطاب في الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقلت له ما شأن الناس قال أمر الله،‏‏‏‏
یہ وہ عربی الفاظ ہیں اس حدیث کے جس کے معنی یہی بنتے ہیں جو ذکر کیا گیا
اور پھر ان میدان جنگ سے بھاگنے والوں کے بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی ذکر کیا ہے
مفہوم آیت قرآنی
اور حنین کے دن جب تمہیں اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوا تو وہ تمہیں کچھ کام نہ آئی زمین تم پر تنگ ہوگئی اور تم میدان سے پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے

یہ وہ آیت قرآنی ہے جو جنگ حنین کے موقع پر نازل ہوئی شاید یہ آیت حضرت عمر پر نازل ہوئی تھی نعوذباللہ کہ انھوں نے اس آیت سے یہ مطلب لیا کہ آج کے دن میدان جنگ سے پیٹھ دے کر بھاگنا ہی امر ربی ہے ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وانهزم المسلمون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وانهزمت معهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا بعمر بن الخطاب في الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقلت له ما شأن الناس قال أمر الله،‏‏‏‏
یہ وہ عربی الفاظ ہیں اس حدیث کے جس کے معنی یہی بنتے ہیں جو ذکر کیا گیا
اور پھر ان میدان جنگ سے بھاگنے والوں کے بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی ذکر کیا ہے
مفہوم آیت قرآنی
اور حنین کے دن جب تمہیں اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوا تو وہ تمہیں کچھ کام نہ آئی زمین تم پر تنگ ہوگئی اور تم میدان سے پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے

یہ وہ آیت قرآنی ہے جو جنگ حنین کے موقع پر نازل ہوئی شاید یہ آیت حضرت عمر پر نازل ہوئی تھی نعوذباللہ کہ انھوں نے اس آیت سے یہ مطلب لیا کہ آج کے دن میدان جنگ سے پیٹھ دے کر بھاگنا ہی امر ربی ہے ۔

بہرام بھائی آپ زبردستی "بھاگنے" کا لفظ شامل کیئے ہوئے ہیں،اور کیا آپ کو الہام ہوا تھا کہ ایسا مطلب لیا انھوں نے۔۔۔۔۔۔کمال کرتے ہو بھائی آپ!
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ پر یہ کسی الزام سے کم نہیں۔
اللہ معاف فرما دے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
[/hl]
بہرام بھائی آپ زبردستی "بھاگنے" کا لفظ شامل کیئے ہوئے ہیں،اور کیا آپ کو الہام ہوا تھا کہ ایسا مطلب لیا انھوں نے۔۔۔۔۔۔کمال کرتے ہو بھائی آپ!
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ پر یہ کسی الزام سے کم نہیں۔
اللہ معاف فرما دے۔
یہ سب تو اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے اور بھاگنے کے اردو لفظ بھی داؤد راز کے ترجمہ صحیح بخاری سے لیا ہے اگر یہ الزام ہے تو یہ الزام امام بخاری یا داؤد راز نے حضرت عمر پر لگایا ہے میں اس سے بری ہوں اور عموما میں اس طرح کے معملات میں اپنی رائے دینے سے اجتناب برتا ہوں میں نے وہی بیان کیا جو امام بخاری نے اپنی صحیح میں لکھا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ نقل کفر کفر نباشد
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ سب تو اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے اور بھاگنے کے اردو لفظ بھی داؤد راز کے ترجمہ صحیح بخاری سے لیا ہے اگر یہ الزام ہے تو یہ الزام امام بخاری یا داؤد راز نے حضرت عمر پر لگایا ہے میں اس سے بری ہوں اور عموما میں اس طرح کے معملات میں اپنی رائے دینے سے اجتناب برتا ہوں میں نے وہی بیان کیا جو امام بخاری نے اپنی صحیح میں لکھا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ نقل کفر کفر نباشد



شیعہ امام بخاری کو مانتے ہیں کیا جو حوالے دے رھے ہیں اور وہ بھی غلط

یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے

یہ دیکھ لیں​
کہا گیا ہے کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کے خیال سے کہ آپ کو تکلیف ہوگی اس لئے قلم و دوات نہیں دیا آئیں دیکھتے ہیں کہ کیا حضرت عمر ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا خیال رکھتے تھے یا صرف یہ اس موقع پر ہی ہوا آئیں امام بخاری اور امام مسلم سے پوچھتے ہیں
امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب التیمم میں ایک طویل حدیث بیان کی جس کا موضوع کی مناسبت والا حصہ پیش خدمت ہے​
عمران بن الحصين سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔​

صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 344
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 682

صحیح بخاری اردو ترجمہ داؤد راز
اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرماتے تو صحابہ آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ لیکن حضرت عمر اس قاعدے کے برخلاف ایک چھوٹی سی تکلیف پر اونچی آواز سے تکبیر کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جگادیا کیونکہ حضرت عمر ایک نڈر دل والے آدمی تھے ! تو کیا اللہ اور اس کے رسول سے نڈر ہونا بھی کوئی فضیلت ہے ؟ امام بخاری کی اس گواہی سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا خیال نہیں رکھتے تھے اور اپنی ایک چھوٹی سی تکلیف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے آرام کیا ۔

پوری حدیث یہ ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ کہا ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خود بخود بیدار ہوں۔ کیوں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح با آواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔



اگر یہ آخری ہائی لائٹ کردہ جملہ بھی لکھ دیتے تو ہر شخص سمجھ جاتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج کی گرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جگایا تھا

بلکہ جگانے کا مقصد نماز فجر کی ادائیگی تھا۔ پیش آمدہ مصیبت یہی تھی کہ نماز کا وقت یا تو نکل گیا تھا اور یا نکلنے ہی والا تھا۔
اللہ ان کو ھدایت دے​
آمین​
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
شیعہ امام بخاری کو مانتے ہیں کیا جو حوالے دے رھے ہیں اور وہ بھی غلط
پوری حدیث یہ ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ کہا ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خود بخود بیدار ہوں۔ کیوں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح با آواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔



اگر یہ آخری ہائی لائٹ کردہ جملہ بھی لکھ دیتے تو ہر شخص سمجھ جاتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج کی گرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جگایا تھا

بلکہ جگانے کا مقصد نماز فجر کی ادائیگی تھا۔ پیش آمدہ مصیبت یہی تھی کہ نماز کا وقت یا تو نکل گیا تھا اور یا نکلنے ہی والا تھا۔
اللہ ان کو ھدایت دے​
آمین​
کہاں کی بات کہاں لے آئے جبکہ اس موضوع پر کی گئی بات کا تو جواب نہیں دیا جاتا جہاں تک بات ہے امام بخاری کی صحیح بخاری کی تو اس کے حوالے آپ کے لئے حجت ہیں اس لئے پیش کئے جاتے ہیں اگر آپ صحیح بخاری کو نہیں مانتے تو پھر اس سے حوالے نہیں پیش کروں گا
میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ ایک طویل حدیث کا وہ حصہ پیش کررہا ہوں جو اس موضوع کی مناسبت سے رکھتا ہے اور معاف کیجئے گا آپ نے بھی پوری حدیث کہہ کر بھی پوری حدیث پیش نہیں کی پوری حدیث اس طرح ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، خدا کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔
حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صبا کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو اصب کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی امل کے ہیں۔
صحیح بخاری حدیث نمبر344
معاف کیجئے گا آپ نے بھی پوری حدیث کہہ کر اس حدیث کا صرف 40 فیصد حصہ ہی پیش کیا
اس سفر میں سونے والوں کو سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی جب سورج کی گرمی ہوتی ہے اس وقت تک نماز فجر کا وقت نکل چکا ہوتا ہے اور پھر آپ نے جو استدلال کیا اگر یہ بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ کوئی حرج نہیں سفر شروع کرو بلکہ پہلے آپ نماز فجر ادا کرتے پھر سفر شروع کرتے اس طرح آپ کا استدلال باطل ہوجاتا ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اگر نماز فجر کی بات ہوتی تو آپ ایسے اہمیت دیتے
ایک نکتہ اس حدیث میں اور بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایک شخص سے پوچھا کہ " اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔" اس نے جواب دیا کہ" مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔"
یہ سب باتیں اس سفر کی ہیں جس میں حضرت عمر بھی شریک ہیں اور جب حضرت عمار نے حضرت عمر کے دور حکومت میں تیمم کرنے کی حدیث حضرت عمر کو سنائی تو حضرت عمر نے حضرت عمار کی اس حدیث کو نہیں مانا تھا جبکہ یہاں حضرت عمر نے تیمم کی اس حدیث کو خود سنا ہوگا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میں بہرام صاحب سے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ حدیث پوری لکھا کریں - اور شاکر بھائی سے بھی تا کہ حدیث کا پورا مفہوم پتا چلے -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں بہرام صاحب سے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ حدیث پوری لکھا کریں - اور شاکر بھائی سے بھی تا کہ حدیث کا پورا مفہوم پتا چلے -
اور آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے یہی سب آپ بھی کرتے رہے ہو مثلا
شیعہ امام بخاری کو مانتے ہیں کیا جو حوالے دے رھے ہیں اور وہ بھی غلط
یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے

یہ دیکھ لیں
پوری حدیث یہ ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ کہا ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خود بخود بیدار ہوں۔ کیوں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح با آواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔
اگر یہ آخری ہائی لائٹ کردہ جملہ بھی لکھ دیتے تو ہر شخص سمجھ جاتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج کی گرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جگایا تھا
بلکہ جگانے کا مقصد نماز فجر کی ادائیگی تھا۔ پیش آمدہ مصیبت یہی تھی کہ نماز کا وقت یا تو نکل گیا تھا اور یا نکلنے ہی والا تھا۔
اللہ ان کو ھدایت دے
آمین
 
Top