• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا خضر علیہ السلام کی طرف علم غیب جاننے والا قول درست ہے؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
ایک بریلوی نے ایک فورم پر لکھا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام وہ شخص ہیں جو علم غیب جانتے تھے۔اس قول سے اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب کا جواز پیش کیا ہے۔اس کے بارے میں بتائیں کہ کیا یہ قول درست ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
امام طبری رحمہ اللہ نے اس روایت کو یوں بیان کیا ہے۔
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثنا ابن إسحاق، عن الحسن بن عمارة، عن الحكم بن عتيبة، عن سعيد بن جبير، قال: جلست فأسْنَدَ ابن عباس وعنده نفر من أهل الكتاب، فقال بعضهم: يا أبا العباس، إن نوفا ابن امرأة كعب يزعم عن كعب، أن موسى النبيّ الذي طلب العالم، إنما هو موسى بن ميشا، قال سعيد، قال ابن عباس: أنوف يقول هذا؟ قال سعيد: فقلت له نعم، أنا سمعت نوفا يقول ذلك، قال: أنت سمعته يا سعيد؟ قال: قلت: نعم، قال: كذب نوف، ثم قال ابن عباس: حدثني أبيّ بن كعب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إنَّ مُوسَى هُوَ نَبِي بَنِي إسْرَائِيلَ سألَ رَبَّهُ فَقالَ: أيْ رَبّ إنْ كانَ في عِبادِكَ أحَدٌ هُوَ أعْلَمُ مِنِّي فادْلُلْنِي عَلَيْهِ، فقَالَ لَهُ: نَعَمْ فِي عِبادِي مَنْ هُوَ أعْلَمُ مِنْكَ، ثُمَّ نَعَتَ لَهُ مَكانَهُ، وأذنَ لَهُ فَي لُقِيِّهِ، فَخَرَجَ مُوسَى مَعَهُ فَتاه وَمَعَه، حُوتٌ مَلِيحٌ، وَقَدْ قِيلَ لَهُ: إذَا حَيِيَ هَذَا الحُوتُ فِي مَكان فصاحبُك هُنالكَ وَقَدْ أدْرَكْتَ حاجَتَكَ، فخَرَجَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ، وَمَعَهُ ذلكَ الحُوتُ يَحْمِلانِهِ، فَسارَ حتى جَهدَهُ السَّيْرُ، وانْتَهَى إلى الصَّخْرَةِ وَإلى ذلكَ المَاءِ، ماء الحَياةِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ خَلَد. ولا يُقارِبُهُ شَيْءٌ مَيِّتٌ إلا حَييَ، فَلَمَّا نزلا وَمَسَّ الحُوتَ المَاءُ حَيِيَ، فاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي البَحْرِ سَرَبا، فانْطَلَقا، فَلَمَّا جاوَزَا مُنْقَلَبَهُ قالَ مُوسَى: آتنا غَدَاءَنا لقد لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هَذَا نَصَبا، قالَ الفَتى وَذَكَرَ: أرَأيْتَ إذْ أوَيْنَا إلى الصَّخْرَةِ فإنّي نَسِيتُ الحُوتَ وَما أنْسانِيهُ إلا الشَّيْطانُ أنْ أذْكُرَهُ واتَّخَذَ سَبِيلَه فِي البَحْرِ عَجَبا" قال ابن عباس: فظهر موسى على الصخرة حين انتهيا إليها، فإذا رجل متلفف في كساء له، فسلم موسى، فردّ عليه العالم، ثم قال له: وما جاء بك؟ إن كان لك في قومك لشغل؟ قال له موسى: جئتك لتعلمني مما علمت رشدا، (قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا) ، وكان رجلا يعلم علم الغيب قد علِّم ذلك، فقال موسى: بلى قال:
اس کی سند کی تحقیق کے لیے حدیث سیکشن میں کفایت اللہ صاحب کی طرف رجوع کریں۔ جہاں تک ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے معنی و مفہوم کا معاملہ ہے تو اس کا معنی واضح ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ایک ایسے شخص تھے جنہیں اللہ کی طرف سے کچھ غیب کی باتیں بتلائی گئی تھیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وكان رجلا يعلم علم الغيب قد علِّم ذلك،
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت خضر علیہ السلام ایسے شخص تھے جو غیب کی باتیں جانتے تھے اور انہیں اس کا علم دیا گیا تھا۔
مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی بعض اوقات اپنے بعض بندوں یا انبیاء کو بعض ایسی باتوں کی خبر دے دیتے ہیں کہ جس سے دوسرے انسان مطلع نہیں ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کو کچھ ایسا علم دیا گیا تھا جو وقت کے نبی حضرت موسی علیہ السلام کے پاس یا دوسروں کے پاس نہیں تھا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اس میں رسول اللہ ﷺ کے لیے علم غیب ماننے والوں کو کیا جواب دیا جائے؟
اگر تو علم غیب سے ان کی مراد یہ ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسی باتیں بتا دی گئیں یا دکھلا دی گئیں جو امت کو نہیں بتلائی گئیں یا دکھلائی گئیں تو یہ بات درست ہے جیسا کہ سفر معراج میں آپ کو آسمانوں پر کچھ مشاہدات کروائے گے وغیرہ ذلک۔
اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم دے دیا گیا، اس دنیا کی ابتداء سے انتہاء تک کا علم آپ کے پاس تھا، تو یہ بات نصوص صریحہ کے خلاف ہے اور غلط ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اگر تو علم غیب سے ان کی مراد یہ ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسی باتیں بتا دی گئیں یا دکھلا دی گئیں جو امت کو نہیں بتلائی گئیں یا دکھلائی گئیں تو یہ بات درست ہے جیسا کہ سفر معراج میں آپ کو آسمانوں پر کچھ مشاہدات کروائے گے وغیرہ ذلک۔
اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم دے دیا گیا، اس دنیا کی ابتداء سے انتہاء تک کا علم آپ کے پاس تھا، تو یہ بات نصوص صریحہ کے خلاف ہے اور غلط ہے۔
بھائی آپ تو جانتے ہوں گے بریلوی علم غیب کس نظریے سے کہتے ہیں؟
 
Top