القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
آج کل آل تکفیر نے توحید حاکمیت کی ایک الگ قسم بنا کر عوام الناس اور مسلم حکام کے خلاف کفر،ارتداد اور قتال کا محاذ گرم کئے ہوئے ہیں،جس کی کوئی شرعی حثیت نہیں ہے،باربار سمجھانے،دلائل کا بھرپور انبار لگانے اور حجت تمام کرنے کے باوجود بھی آل تکفیر ٹس سے مس نہ ہوئے،اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں ہے،کیونکہ خاتم الانبیاء،رحمۃللعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ خوارج پلٹ کرآنے والے نہیں ہیں۔
لیکن ہم اپنے قارئین کو اس فتنہ سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی تگ و دو جاری و ساری رکھیں گے،ان شاءاللہ
میں بات یہ کر رہا تھا کہ آج کل تکفیری حضرات توحید حاکمیت کی بنیاد پر مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں،اور ان کے علاقوں کو دارلکفر قرار دیتے ہیں،میرا ان تمام فتویٰ فیکٹریوں سے مختصر سا سوال ہے کہ:
خلافت عثمانیہ میں کون سے اسلامی قوانین کا نفاذ تھا؟
کیا خلافت عثمانیہ میں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا لحاظ رکھا جاتا تھا؟
کیا خلافت عثمانیہ میں سو فیصد شریعت نافذ تھی؟
یعنی خلافت عثمانیہ میں سوائے مجلہ احکام عدلیہ کے،جو دیوانی قانون کے طور پر رائج تھا اور اس کی بھی پابندی عدالتوں کے لیے لازم نہ تھی،بقیہ تمام قوانین فرانسیسی ،اطالوی اور برطانوی تھے،بلکہ سلطنت عثمانیہ کے اساسی قانون میں یہ بات بھی موجود تھی کہ سود شرعا حرام ہے اور قانونا جائز ہے،علاوہ ازیں سلطنت کے قانون فوجداری میں یورپین قوانین کی تقلید میں حدود کو ساقط کر دیا گیا تھا،
(رفیع اللہ شہاب پروفیسر،اسلامی ریاست کا عدالتی نظام،ص:194،قانونی کتب خانہ لاہور)
لیکن اس کے باوجود اس وقت کے علماء میں سے کسی مکتب فکر کے کسی بھی عالم دین نے بھی ہم نہیں دیکھتے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں یا دوسرے الفاظ میں اس وقت کے خلفاء کی تکفیر کر رہےہوں۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ توحید حاکمیت کی یہ نئی ٹرم پیش کر کے اس کی بنیاد پر ایمان اور کفر کے فیصلے کرنا سوائے خوارج کے اور کسی کا وطیرہ نہیں رہا۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے بگڑے ہوئے ذہنوں کو راہ راست پر لائے اور ہمارے عقائد اور منہج میں سلف صالحین کا فہم پیدا کرے۔
دنیا و آخرت میں اپنے رب کی رحمتوں کو سمیٹے ہوئے نجات پانے والوں میں شامل ہو جائیں۔
لیکن ہم اپنے قارئین کو اس فتنہ سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی تگ و دو جاری و ساری رکھیں گے،ان شاءاللہ
میں بات یہ کر رہا تھا کہ آج کل تکفیری حضرات توحید حاکمیت کی بنیاد پر مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں،اور ان کے علاقوں کو دارلکفر قرار دیتے ہیں،میرا ان تمام فتویٰ فیکٹریوں سے مختصر سا سوال ہے کہ:
خلافت عثمانیہ میں کون سے اسلامی قوانین کا نفاذ تھا؟
کیا خلافت عثمانیہ میں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا لحاظ رکھا جاتا تھا؟
کیا خلافت عثمانیہ میں سو فیصد شریعت نافذ تھی؟
یا پھر!!!!!!
معاملہ کچھ اور تھا؟یعنی خلافت عثمانیہ میں سوائے مجلہ احکام عدلیہ کے،جو دیوانی قانون کے طور پر رائج تھا اور اس کی بھی پابندی عدالتوں کے لیے لازم نہ تھی،بقیہ تمام قوانین فرانسیسی ،اطالوی اور برطانوی تھے،بلکہ سلطنت عثمانیہ کے اساسی قانون میں یہ بات بھی موجود تھی کہ سود شرعا حرام ہے اور قانونا جائز ہے،علاوہ ازیں سلطنت کے قانون فوجداری میں یورپین قوانین کی تقلید میں حدود کو ساقط کر دیا گیا تھا،
(رفیع اللہ شہاب پروفیسر،اسلامی ریاست کا عدالتی نظام،ص:194،قانونی کتب خانہ لاہور)
لیکن اس کے باوجود اس وقت کے علماء میں سے کسی مکتب فکر کے کسی بھی عالم دین نے بھی ہم نہیں دیکھتے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں یا دوسرے الفاظ میں اس وقت کے خلفاء کی تکفیر کر رہےہوں۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ توحید حاکمیت کی یہ نئی ٹرم پیش کر کے اس کی بنیاد پر ایمان اور کفر کے فیصلے کرنا سوائے خوارج کے اور کسی کا وطیرہ نہیں رہا۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے بگڑے ہوئے ذہنوں کو راہ راست پر لائے اور ہمارے عقائد اور منہج میں سلف صالحین کا فہم پیدا کرے۔
دنیا و آخرت میں اپنے رب کی رحمتوں کو سمیٹے ہوئے نجات پانے والوں میں شامل ہو جائیں۔
آمین یا رب العالمین