• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دعوت دین کا کام صرف علماء کے ذمے ہے؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
صالح بن فوزان بن عبد الله، من آل فوزان سے پوچھا گیا
سوال : بعض لوگوں کو یہ وہم لاحق ہے کہ دعوت دین کا کام صرف مطلقا علماء کرام ہی کر سکتے ہیں ، اور ان کے علاوہ کسی کو جس قدر علم ہے اس کی دعوت دینا لازم نہیں شیخ آپ اس کی کیا توجیہ فرمائیں گے؟
جواب :
یہ کوئی وہم نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، دعوت دین تو علماء کرام کا ہی کام ہے، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ کچھ ایسے واضح امور ہیں جو ہر انسان جانتا ہے، پس ہر انسان اپنی حسب معرفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے ، (جیسے) اپنے گھر والوں کو نماز اور دیگر واضح امور کا حکم دے، یہ فرض ہے یہاں تک کہ ایک عام انسان پر بھی کہ وہ اپنی اولاد کو مساجد میں نماز پڑھنے کا حکم دے،
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مُرُوا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ
جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو.
(صحیح: أبو داود: 495، نصب الراية: 298/1 بألفاظ متقاربة)

اور فرمایا:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے ، اور ہر کسی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا
(صحیح بخاری: 893)
یہ رعایا کہلاتی ہے، اور یہی امر بالمعروف اور نہی المنکر کہلاتا ہے

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
جو شخص برا کام ہوتا دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے ختم کر دے اور اگر طاقت نہ ہو تو زبان کے ساتھ روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے برا جانے۔ اور یہ (آخری درجہ) کمزور ترین ایمان ہے ۔
(صحیح مسلم: 49)
چنانچہ ایک عام انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے گھر والوں وغیرہ کو نماز ، زکوۃ، اللہ تعالٰی کی اطاعت اور گناہوں سے دور رہنے کا حکم دے، اپنے گھر کو برائیوں سے پاک رکھے اور اپنی اولاد کی تربیت اللہ تعالٰی کی اطاعت پر کرے ، یہ ہر شخص سے مطلوب ہے اگرچہ وہ عام عوام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے ، (کیونکہ) یہ بالکل واضح احکام ہیں.
البتہ جہاں تک معاملہ ہے فتاوی دینے حلال و حرام بیان کرنے اور شرک و توحید بیان کرنے کا تو یہ علماء کرام کے علاوہ اور کوئی نہ کرے ـ
مصدر :کتاب " الآجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ''
سوال :15 جمع ، تعلیق و تخریج جمال بن فریحان الحارثی
ترجمہ :طارق علی بروہی
کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ : عُکاشہ
 
Top