• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رزق اور عمر پہلے سے ”طے شدہ“ ہے؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اﷲﷺ نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں تمام کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنے ہی عرصے تک بَستہ خون رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔( ۱) اس کا عمل۔ (۲) اس کا رزق۔ (۳) اس کی عمر۔( ۴) خوش بخت ہے یا بدبخت۔ پھر اس میں رُوح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پھر اس پر اﷲ کا نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے پھر اس پر اﷲ کا نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق)

یہاں رزق اور عمر ”لکھنے“ سے کیا مراد ہے۔ کیا اُس وقت ہمارا کُل رزق اور کُل عمر ”مقررکردی “ جاتی ہے۔ اگر ہاں تو ”عمر“ کے معاملہ میں تو یہ بات عام انسان کے ”مشاہدے“ میں بھی ہے کہ جب موت کا وقت (جو انسان کے لئے ”نامعلوم“ ہے) آجاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے مرنے سے بچا نہیں سکتی۔ لیکن ”مقررہ رزق“ (اگر ایسا ہے تو) کے معاملہ میں ”انسانی مشاہدات“ کچھ اور ہیں۔ جو جتنا زیادہ محنت کرتا ہوا نظر آتا ہے، بالعموم وہ اتنا ہی زیادہ ”رزق“ کمالیتا ہے۔ پھر رزق ”مقررہ“ کیسے ہوا؟ اور رزق کی اصل تعریف کیا ہے؟

کہیں انسان کا ”اصل رزق“ صرف انہی ”تین اقسام کے مال“ پر تو مبنی نہیں جس کا اس حدیث میں ذکر ہے؟۔۔۔۔ ”بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ،جبکہ اُس کا مال تو صرف تین طرح کا ہے۔ 1۔ جو کھا کر ہضم کر لیا 2۔ جو پہن کر بوسیدہ کر دیا۔ 3۔ جو صدقہ کر کے محفوظ کر لیا۔ اس کے علاوہ سب کچھ لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ صحیح مسلم : حدیث نمبر 5371 “ ۔۔۔ اور بقیہ مال جو کچھ وہ اپنی محنت اور کوشش سے کماتا ہے، وہ تو دیگر لوگوں کا رزق ہے۔ اور یہی ”تین اقسام کا مال“ (بمعنی رزق) ہر انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ”مقرر“ ہوچکا ہوتا ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تقدیر کے مسئلہ کو سمجھنا اگرچہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ لیکن ہم اسے اس صورت بہتر طور سمجھ پائیں گے جبکہ ہم اس تصور کو ٹیکنیکل یا اصطلاحی کی بجائے اپنی روز مرہ عامی زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ تقدیر اللہ کا علم ہے۔ انسان نے اس دنیا میں جو کچھ آ کر کرنا تھا، اللہ تعالی نے اسے لکھ لیا ہے۔ یعنی اللہ کی صفت علم کا کمال ہے جو تقدیر میں ہمیں نظر آتا ہے کہ اس نے ہمارے مستقبل کے بارے ایک ایک چیز کو جان کر لکھ لیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے کہا کہ لکھو۔ تو اس نے کہا کہ میں کیا لکھوں تو اللہ نے فرمایا: جو کچھ بھی ہونے والا ہے، اسے لکھ دو۔ اب جو کچھ میں سب کچھ شامل ہے۔ میرا اور آپ کا رزق بھی طے ہے اور یہ بھی طے یعنی لکھا ہوا ہے کہ میں نے یا آپ نے اتنی محنت کرنے کے بعد یہ رزق حاصل کرنا ہے اور بعض اوقات یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ میں اور یا آپ اتنی محنت کریں گے لیکن ہمیں رزق حاصل نہیں ہو گا۔ یہ تقدیر ہے جو اللہ کا اپنی مخلوق کے بارے علم ہے جس علم کو اس نے اپنی کتاب، لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔

ایک ایپروچ تو یہ ہے کہ اللہ نے چونکہ لکھ لیا ہے لہذا میں مجبور ہوں کہ اس لکھے ہوئے کے مطابق عمل کروں یعنی میری حیثیت سٹیج پر ناچنے والی پتلیوں کی سی ہے کہ جن کی ڈوریاں ہلانے والا کہیں پردے کے پیچھے بیٹھا ہے۔ یعنی میں کسی کے رحم و کرم پر ہوں یا مجبور محض ہوں۔ وغیرہ ذلک۔ اور ایک دوسری ایپروچ اس مسئلہ کو دیکھنے کی یہ ہے میں نے جو اپنی آزاد مرضی سے کرنا تھا وہ اللہ نے لکھ لیا ہے یعنی میرے مستقبل کو جان لیا ہے اور یہ اس کے کمال علم کا اظہار ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ باپ اپنے بیٹے یا استاذ اپنے شاگرد سے بعض اوقات ایسے میں کہہ دیتا ہے کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا کہ تم یہ رنگ چڑھاو گے یا یہ کرتوت دکھاو گے۔ یہ باپ یا استاذ کے ناقص علم یا تجربے کا اظہار ہے جو بعض اوقات درست ہو جاتا ہے۔ یہاں بیٹے یا شاگرد نے وہ غلط حرکت اپنی آزاد مرضی سے کی ہے لیکن باپ یا استاذ نے اس کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے بارے پہلے ہی سے بتلا دیا تھا۔ کچھ نامور سائیکالوجسٹ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کلائنٹس کے ذہن کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات کی کہ اتنے مہینے بعد اس کی وفات فلاں جگہ ہو گی اور اس کی وفات اتنے ہی عرصہ بعد اسی جگہ ہوئی۔ یہ کیا ہے؟ یہ ایک ماہر فن کے علم کا اظہار ہے۔ انسان کا علم ناقص ہے لہذا اس کے بیان میں غلطی کا امکان بھی ہے جبکہ اللہ کا علم کامل ہے لہذا اس کے بیان میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ اس نے اپنی مخلوق کے مستقبل کے بارے جو بیان دیا ہے کہ اس نے یہ کرنا ہے، اگر ویسا نہ ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کا علم ناقص تھا۔ لہذا چونکہ ہم اس کے قائل ہیں کہ اللہ کا علم کامل ہے لہذا اللہ نے میرے بارے میں جو کچھ پہلے سے معلوم predetermination کر لیا ہے، اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے میرے مستقبل کو ٹھیک ٹھیک جانا ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ میں نے جو کچھ محنت اس دنیا میں کرنی تھی ، اس نے اس کو ٹھیک طور معلوم کر لیا ہے۔ یہ تقدیر کا ایک درجہ ہے۔

تقدیر کا ایک درجہ علم کامل کے علاوہ قضا بھی ہے۔ بعض اوقات میں محنت کرتا ہوں لیکن مجھے نتیجہ نہیں ملتا یا ایک شخص محنت نہیں کرتا اور اسے پھل مل جاتا ہے مثلا کوئی لڑکا کسی بادشاہ کے ہاں پیدا ہو گیا تو اسے اقتدار اور دولت بغیر محنت کے حاصل ہو گئے۔ تو اب یہاں اللہ کے علم میں اس کا فیصلہ یا قضا بھی شامل ہو گئی ہے۔ دنیا میں کوئی شخص جسمانی یا ذہنی طور معذور پیدا ہوتا ہے، یہ اللہ کی قضا ہے۔ لوگوں کو اس دنیا میں ایک جیسی صلاحتیں یا ایک جیسا ماحول نہیں ملتا یا ایک جیسے مواقع نہیں ملتے۔ یہ سب اللہ کی قضا ہے۔ میں بعض اوقات اتنی ہی محنت کرتا ہوں جتنی کہ میرا ساتھی کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ مجھ سے زیادہ نتائج حاصل کر لیتا ہے کیونکہ اسے مجھ سے زیادہ بہترین مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ وغیرہ ذلک
 
Top