- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اﷲﷺ نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں تمام کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنے ہی عرصے تک بَستہ خون رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔( ۱) اس کا عمل۔ (۲) اس کا رزق۔ (۳) اس کی عمر۔( ۴) خوش بخت ہے یا بدبخت۔ پھر اس میں رُوح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پھر اس پر اﷲ کا نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے پھر اس پر اﷲ کا نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق)
یہاں رزق اور عمر ”لکھنے“ سے کیا مراد ہے۔ کیا اُس وقت ہمارا کُل رزق اور کُل عمر ”مقررکردی “ جاتی ہے۔ اگر ہاں تو ”عمر“ کے معاملہ میں تو یہ بات عام انسان کے ”مشاہدے“ میں بھی ہے کہ جب موت کا وقت (جو انسان کے لئے ”نامعلوم“ ہے) آجاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے مرنے سے بچا نہیں سکتی۔ لیکن ”مقررہ رزق“ (اگر ایسا ہے تو) کے معاملہ میں ”انسانی مشاہدات“ کچھ اور ہیں۔ جو جتنا زیادہ محنت کرتا ہوا نظر آتا ہے، بالعموم وہ اتنا ہی زیادہ ”رزق“ کمالیتا ہے۔ پھر رزق ”مقررہ“ کیسے ہوا؟ اور رزق کی اصل تعریف کیا ہے؟
کہیں انسان کا ”اصل رزق“ صرف انہی ”تین اقسام کے مال“ پر تو مبنی نہیں جس کا اس حدیث میں ذکر ہے؟۔۔۔۔ ”بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ،جبکہ اُس کا مال تو صرف تین طرح کا ہے۔ 1۔ جو کھا کر ہضم کر لیا 2۔ جو پہن کر بوسیدہ کر دیا۔ 3۔ جو صدقہ کر کے محفوظ کر لیا۔ اس کے علاوہ سب کچھ لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ صحیح مسلم : حدیث نمبر 5371 “ ۔۔۔ اور بقیہ مال جو کچھ وہ اپنی محنت اور کوشش سے کماتا ہے، وہ تو دیگر لوگوں کا رزق ہے۔ اور یہی ”تین اقسام کا مال“ (بمعنی رزق) ہر انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ”مقرر“ ہوچکا ہوتا ہے؟
یہاں رزق اور عمر ”لکھنے“ سے کیا مراد ہے۔ کیا اُس وقت ہمارا کُل رزق اور کُل عمر ”مقررکردی “ جاتی ہے۔ اگر ہاں تو ”عمر“ کے معاملہ میں تو یہ بات عام انسان کے ”مشاہدے“ میں بھی ہے کہ جب موت کا وقت (جو انسان کے لئے ”نامعلوم“ ہے) آجاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے مرنے سے بچا نہیں سکتی۔ لیکن ”مقررہ رزق“ (اگر ایسا ہے تو) کے معاملہ میں ”انسانی مشاہدات“ کچھ اور ہیں۔ جو جتنا زیادہ محنت کرتا ہوا نظر آتا ہے، بالعموم وہ اتنا ہی زیادہ ”رزق“ کمالیتا ہے۔ پھر رزق ”مقررہ“ کیسے ہوا؟ اور رزق کی اصل تعریف کیا ہے؟
کہیں انسان کا ”اصل رزق“ صرف انہی ”تین اقسام کے مال“ پر تو مبنی نہیں جس کا اس حدیث میں ذکر ہے؟۔۔۔۔ ”بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ،جبکہ اُس کا مال تو صرف تین طرح کا ہے۔ 1۔ جو کھا کر ہضم کر لیا 2۔ جو پہن کر بوسیدہ کر دیا۔ 3۔ جو صدقہ کر کے محفوظ کر لیا۔ اس کے علاوہ سب کچھ لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ صحیح مسلم : حدیث نمبر 5371 “ ۔۔۔ اور بقیہ مال جو کچھ وہ اپنی محنت اور کوشش سے کماتا ہے، وہ تو دیگر لوگوں کا رزق ہے۔ اور یہی ”تین اقسام کا مال“ (بمعنی رزق) ہر انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ”مقرر“ ہوچکا ہوتا ہے؟