• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر بیٹھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کعبہ کے بت توڑے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @اسحاق سلفی
شیخ @خضر حیات
کہا یہ روایت صحیح ہے ؟ کیا اسکی سند و متن میں نکارت ہے؟ اس روایت پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس روایت کا متن منکر ہے ۔

حضور نبی کریم ﷺ کے مبارک کندھوں پر سوار ہوکر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بت توڑنے کا اعزاز حاصل کیا ہے ۔مجمع الزوائد میں علامہ ھیثمی رحمہ اللہ نے روایت پیش کی:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: «انْطَلَقْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى أَتَيْنَا الْكَعْبَةَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " اجْلِسْ ". وَصَعِدَ عَلَى مَنْكِبَيَّ، فَذَهَبْتُ لِأَنْهَضَ بِهِ، فَرَأَى مِنِّي ضَعْفًا، فَنَزَلَ وَجَلَسَ لِي رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: " اصْعَدْ عَلَى مَنْكِبَيَّ "، قَالَ: فَصَعَدْتُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ قَالَ: فَنَهَضَ بِي قَالَ: فَإِنَّهُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنِّي لَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ أُفُقَ السَّمَاءِ، حَتَّى صَعِدْتُ عَلَى الْبَيْتِ، وَعَلَيْهِ تِمْثَالُ صُفْرٍ أَوْ نُحَاسٍ، فَجَعَلْتُ أُزَاوِلُهُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، حَتَّى اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " اقْذِفْ بِهِ ". فَقَذَفَ بِهِ فَتَكَسَّرَ كَمَا تَتَكَسَّرُ الْقَوَارِيرُ، ثُمَّ نَزَلْتُ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَسْتَبِقُ، حَتَّى تَوَارَيْنَا بِالْبُيُوتِ ; خَشْيَةَ أَنْ يَلْقَانَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ»
ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ کعبہ تک پہنچا، پس رسول اللہ ﷺ میرے کندھے پر سوار ہوئے اور میں نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے میرے اندر ضعف محسوس کیا، تو فرمایا: بیٹھ جاؤ، میں بیٹھ گیا تو رسول اللہ ﷺ اتر گئے، پھر فرمایا: تم میرے کندھوں پر سوار ہوجاؤ تو میں آپ ﷺ کے کندھوں پر سوار ہوگیا اور آپ کھڑے ہوگئے۔ سو مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر میں چاہوں تو آسمان کے کناروں کو پکڑ لوں، پھر میں کعبہ پر چڑھا اور اس پر پیتل اور تانبے کا ایک مجسمہ بنا ہوا تھا تو میں اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے اکھاڑنے لگا، حتّی کہ میں اسے مکمل طور پر اکھاڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے پھینک دو تو میں نے اسے پھینک دیا۔ پھر میں نے اسے یوں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جیسے شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ پھر میں اتر آیا اور پھر میں اور رسول اللہ ﷺ جلدی جلدی چلنے لگے اور گھروں کی اوٹ لینے لگے تاکہ ہمارا کسی سے آمنا سامنا نہ ہو۔ [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، جلد ۶، صفحہ نمبر ۲۳، بَابُ تَكْسِيرِهِ الْأَصْنَامَ، رقم: ۹۸۳۶]
اس روایت کو پیش کرنے کے بعد علامہ ھیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُهُ، وَأَبُو يَعْلَى، وَالْبَزَّارُ وَرِجَالُ الْجَمِيعِ ثِقَاتٌ.
ترجمہ: اسے امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے (عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ) نے روایت کیا، اور ابو یعلیٰ اور بزّار نے، اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ [ایضاََ]

اس روایت کو امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے تھذیب الآثار میں ان تین اسناد کے ساتھ روایت کیا:
1۔ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ , عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ , عَنْ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ عَلِيٍّ۔۔۔۔

2۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ , عَنْ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ۔۔۔۔۔

3۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ الْأَسَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا نُعَيْمٌ , عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:۔۔۔۔۔ [تهذيب الآثار مسند علي، جلد ۳، صفحہ نمبر ۲۳۶]


اس روایت کو پیش کرنے کے بعد امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَهَذَا خَبَرٌ عِنْدَنَا صَحِيحٌ سَنَدُهُ
ترجمہ: اور ہمارے نذدریک اس خبر کی سند صحیح ہے۔ [ایضاََ]

اور اس روایت کو امام الحاکم رحمہ اللہ نے مستدرک علی الصحیحین میں اس سند کے ساتھ روایت کیا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْقُرَشِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ، ثنا أَبُو مَرْيَمَ الْأَسَدِيُّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:۔۔۔ [المستدرك على الصحيحين للحاكم، جلد ۳، صفحہ نمبر ۶، رقم: ۴۲۶۵]

اور روایت کو پیش کرنے کے بعد آپ نے فرمایا:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاہ
ترجمہ: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر اسے امام بخاریؒ و مسلمؒ نے روایت نہیں کیا۔ [ایضاََ]

مزید براں اس کی سند کو امام بوصیری رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ہے۔ [إتحاف الخيرۃ، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۹۹] اور یہ بات اپنے شیخ ابو الفضل عسقلانی کے حوالے سے کہی۔

جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی یہ روایت منکر ہے ،
امام ذہبی تلخیص المستدرک میں فرماتے ہیں :

إسناده نظيف والمتن منكر
یعنی " اس کی اسناد نظیف ہے لیکن اس کا متن منکر ہے "

اور امام محمد بن جریر الطبریؒ "تھذیب الآثار " بھی اس کے متن
اس روایت کو پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
القول في علل هذا الخبر وهذا خبر عندنا صحيح سنده، وقد يجب أن يكون على مذهب الآخرين سقيما غير صحيح، لعلل: إحداها: أنه خبر لا يعرف له مخرج يصح عن علي، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه، والخبر إذا انفرد به، عندهم منفرد، وجب التثبت فيه. والثانية: أن راويه عن علي أبو مريم، وأبو مريم غير معروف في نقلة الآثار، وغير جائز الاحتجاج بمثله في الدين عندهم. والثالثة: أنه خبر لا يعلم أحد حدث به عن أبي مريم غير نعيم بن حكيم، وذلك أيضا مما يوجب التوقف فيه
https://archive.org/stream/tahzibathar/tath1#page/n279/mode/2up
ــــــــــــــــــــ​
اس کی سند کو امام بوصیری رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ہے۔ [إتحاف الخيرۃ، جلد ۵، صفحہ نمبر ۱۹۹] اور یہ بات اپنے شیخ ابو الفضل عسقلانی کے حوالے سے کہی۔
یہ بات بالکل غلط ہے ،علامہ بوصیریؒ نے اسے صحیح نہیں کہا ،دیکھئے اتحاف الخیرۃ
https://archive.org/stream/IthafKhayira/06_37760#page/n424/mode/2up
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قال الشيخ شعيب الارنؤط :
إسناده ضعيف، نعيم بن حكيم وثقه العجلي وابن حبان، واختلف قول معين فيه فوثقه في رواية عبد الخالق بن منصور، ونقل الساجي عنه تضعيفه، وقال النسائي: ليس بالقوي، وقال ابن سعد: لم يكن بذاك. وأبو مريم- وهو الثقفي- مجهول
وأخرجه الطبري في "تهذيب الآثار" في مسند علي ص 237 من طريق أسباط بن محمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه ابن أبي شيبة 14/488-489، والبزار (769) ، وأبو يعلى (292) ، والطبري ص 236، والحاكم 2/366-367 من طريقين عن نعيم بن حكيم، به.
وصحح الحاكم إسناده، واستدرك عليه الذهبي فقال: إسناده نظيف ومتنه منكر. وسيأتي برقم (1302)

، علامہ شعیب ارناؤط مسند کی تحقیق میں اس حدیث کے بارے لکھتے ہیں کہ اس کی اسناد ضعیف ہے ،اس کا راوی نعیم بن حکیم جسے عجلی اور ابن حبانؒ ثقہ کہتے ہیں ،اور امام یحیی بن معینؒ سے اس کے متعلق متضاد روایات ہیں ایک روایت میں وہ ثقہ کہتے ہیں ،اور دوسری میں ضعیف کہتے ہیں ،امام النسائیؒ کہتے ہیں یہ راوی قوی نہیں ،امام ابن سعدؒ بھی یہی کہتے ہیں ،
اس روایت کا دوسرا راوی ابومریم الثقفی بھی مجہول ہے ،
امام حاکمؒ نے اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے اور امام الذہبیؒ فرماتے ہیں اس کی اسناد نظیف ہے لیکن اس کا متن منکر ہے؛
------------------------
مصر کے نامور محقق علامہ ابواسحاق الحوینی اپنی کتاب "النافلة في الأحاديث الضعيفة والباطلة " میں اسےمنکر ہی لکھتے ہیں :
منكر.
أخرجه النسائي في ((الخصائص)) (119) ، وأحمد (1/ 84/ 644) ، وابن جرير في ((تهذيب الآثار)) (ص 237- مسند علي) من طريق أسباط بن محمد، ثنا نعيم بن حكيم المدائني، قال: حدثنا أبو مريم، قال: قال علي بن أبي طالب ... فذكره.
وقد رواه عن نعيم بن حكيم جماعة منهم:
شبابة بن سوار، عن نعيم.
أخرجه الحاكم (2/ 366- 367) وقال: ((صحيح الإسناد)) !!
فتبعه الذهبي: ((قلت: إسناده نظيف، ومتنه منكر)) !!
وهو متعقب في بعض قوله كما يأتي إن شاء الله.
2- عبد الله بن داود، عن نعيم.

أخرجه عبد الله بن أحمد في ((زوائد المسند)) (1/ 151) ، وابن جرير في ((التهذيب)) (ص 236- مسند علي) ، والحاكم (3/ 5) ، والخطيب في ((التاريخ)) (13/ 302) ، وفي ((الموضح)) (2/ 432) .
3- عبيد الله بن موسى، عن نعيم.
أخرجه ابن جرير (237) ، وأبو يعلى (251- 1) ، والبزار (ج 3/ رقم 2401) .
قلت: وهذا سند ضعيف، والمتن غريب جداً. ... =

= فأما نعيم بن حكيم، فهو وإن كان صدوقاً لكن ضعفه ابن معين في رواية، وقال النسائي: ((ليس بالقوي)) .
وقال الأزدي: ((أحاديثه مناكير)) .
ولم يتابعه أحد فيما أعلم. فيتوقف فيما يتفرد به.
وأما أبو مريم: فهو الثقفي المدائني مجهولاً كما قال الدارقطني، ووافقه الحافظ في ((التقريب)) . ولم يوثقه النسائي، وإنما وثق أبا مريم الحنفي، وهذا غير الثقفي، ولم يفرق بينهما الذهبي فقال: ((ثقة)) !!
ولعله لذلك - أيضاً - قال الهيثمي (6/ 23) : ((رجال الجميع ثقات)) .
والصواب التفريق بينهما.
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
خلاصہ یہ کہ یہ روایت صحیح نہیں ،اس کا متن واقعی منکر ہے ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
روایت نمبر 6191 میں اسناد صحیح لکھا ہے
آپ صرف اسناد صحیح دیکھ رہے ہیں ،
اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ جس روایت کے ساتھ اسنادہ صحیح لکھا ہے اس روایت کا مضمون کیا لکھا ہے ،
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
جزاک اللہ خیرا شیخ محترم
اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین
 
Top