ابو بصیر
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 30، 2012
- پیغامات
- 1,420
- ری ایکشن اسکور
- 4,198
- پوائنٹ
- 239
یہ ایک سوال کا ایک جواب کسی نے بھیجا ہے مجھے مزید معلومات چائیے۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ معلومات درست ہیں ؟؟؟
درج ذیل آیت میں ایک لفظ "قرطاس"استعمال ہوا ہے جس کا مطلب کاغذ ہوتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے وقت میں بھی کاغذ کا وجود تھا وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿سورة الأنعام٧﴾ اور اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی الکتاب نازل کرتے پھر لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح سحر ہے زمانہ نزول قرآن میں عربوں میں کتابت (لکھنے پڑھنے) کا رواج اتنا عام تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ سورة البقرة کی آیت نمبر ٢٨٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ اے ایمان والو! جب تم کسی مدت کیلئے لین دین کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو
اس کے بعد اسی آیت میں لکھنے پڑھنے کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا حکم اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے ، جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہو۔ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ ---- اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔ دیکھ لیں الله کے فرمان کو کسی بھی معاہدہ کو فوری طور پر لکھنے کا سختی سے حکم ہے کیا آپ کے خیال سے نبی ؐان احکامات کی روشنی میں وحی الہی کو فوری طور پر نا لکھتے ہوں گے ؟ معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کی کہ یہ أَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ اس سے شہادت محکم ہو جاتی ہے عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ کاروائی ہے اور گواہی کے لئے تو زیادہ مضبوطی ہے۔ اور اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے جس قوم کو عام لین دین کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایسا تاکیدی حکم دیا گیا تھا، اس قوم نے اپنی آسمانی کتاب کو تحریر میں لانے کیلئے کیا اہتمام نہیں کئے ہوں گے جو ان کیلئے ضابطہ حیات تھی اور جس کی رہنمائی کی انھیں قدم بہ قدم پر ضرورت تھی اور قرآن کریم تو پوری انسانیت کیلئے تاقیامت ایک ہدایت اور نور (روشنی) ہے تو اس وحی کو لکھنے میں کوتاہی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا or han Quran k bary main ak boht zarori ayat dakain
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے جس کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے اس کیلئے ہم قرآن کریم سے رجوع کریں گے۔ قرآن کریم کی دوسری اور پہلی مفصل سورة البقرة کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتا ہے جس میں قرآن کریم کو الکتاب کہا گیا ہے۔ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ یہ الکتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں متقیوں کیلئے ہدایت ہے۔ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمؐ قرآن کریم کو مرتب شکل میں دے کر نہیں گئے تھے یہ صحیح نہیں ہے " کتاب" تو کہتے ہی اسے ہیں جو مرتب شکل میں موجود ہو۔ القرآن کریم کو "الکتاب " بیشتر بار لکھا گیا ہے عربوں کے اس وقت میں جب کچھ منتشر تحریروں کو جو اپنے ضمن میں مکمل ہو جاتی تھیں تو ان سب کو اکھٹا کر کے جب جلد کر دی جاتی تو اس کو کتاب کا نام دیا جاتا۔
القرآن کو تو " الکتاب" کہا گیا ہے "الکتاب" معرف بالام یعنی "ال" کی وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے۔ ye b chek karain J قرآن کریم کو لکھنے والے قابل اعتماد کاتب جیسے جیسے وحی الہی نازل ہوتی تھی اسے انتہائی احتیاط سے ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا آصحاب رسول رضی الله اسے اپنے طور پر بھی لکھتے تھے لیکن باب نبوت کی طرف سے اس کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ اور اس عظیم ذمہ داری کیلئے نہائیت قابل اعتماد کاتبوں کا انتحاب عمل میں لایا جاتا تھا۔ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، سورة عبس﴾ دیکھو یہ (قرآن) ذکر ہے پس جو چاہے اسے یاد رکھے مکرم ورقوں میں جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکو کار ہیں
حفاظت کی غرض سے وحی الہی کو عام طور پر اوراق میں لکھا جاتا تھا۔ كِتَابٍ مَّسْطُورٍ فِي رَقٍّ مَّنشُورٍ ﴿١، ٢، ٣، سورة الطور﴾ لکھی ہوئی الکتاب پھیلے ہوئے ورقوں میں اسی طرح یہ وحی ایک کتاب کے اندر محفوظ ہوتی چلی جاتی تھی۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧، ٧٨، ٧٩، ٨٠، سورة الواقعة﴾ بیشک یہ قرآن کریم ہے جو کتابی شکل میں محفوظ ہے اس کو وہی مس کرتے ہیں جو مطہرین ہیں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ye ap ka jawab
یہ جو کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ ان پڑھ تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے یہ صحیح نہیں ہے نبوت سے پہلے تو آپؐ کی یہ کیفیت ہو گی لیکن نبوت کے بعد یہ بات نہیں تھی۔ یہ عقیدہ جان بوجھ کر مسلمانوں میں خوب پھیلایا گیا کہ رسول کریمؐ ان پڑھ تھے اور یہ تمام کارنامہ اسلام دشمنوں کا تھا تاکہ قران کریم کی حقانیت کو مشکوک بنایا جا سکے ظاہر ہے جب نبیؐ کو ان پڑھ
ثابت کیا جائے گا تو اس پر نازل الکتاب کی حقانیت مشکوک بن سکے گی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کا لقب "امی" تھا جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ حالانکہ پوری عرب قوم کو اہل کتاب کے مقابلہ میں "امی" کہا گیا- لفظ امی جو کے علماء کے مطابق رسول کریم کا لقب تھا صرف رسالتمابؐ کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ پورے عرب کے لوگوں کو "امی" کہا گیا۔ اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان پڑھ تھے بلکہ ان کو امی اس لئے کہا گیا کہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان کے پاس اللہ کی نازل کردہ الکتاب نہیں تھی یعنی اللہ کی الکتاب کے حوالے سے ان پڑھ تھے۔ لفظ "امی" کی وضاحت کی جائے۔ سورة الجمعة کی آیت نمبر ٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اُن کو الکتاب قوانین و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے
یعنی رسول کریمؐ کی بعث امیوں میں ہوئی اور جو جزیرہ نما عرب کے رہنے والے تھے۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٠ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ پوچھو ان لوگوں سے جن کو الکتاب دی گئی اور امیوں سے کیا تم نے دین اسلام قبول کیا ؟ اس آیت میں واضح ہو گیا رسول کریمؐ کے مخاطب ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو اہل کتاب تھے اور دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کی الکتاب سے نا آشنا تھے جن کو امیوں کہا گیا مزید وضاحت کیلئے سورة البقرة کی آیت نمبر ٧٨ کا بغور مطالعہ کرتے ہے۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ اور بعض ان میں سے لا علم لوگ ہیں جو الکتاب کے قوانین سے واقف ہی نہیں سوائے اپنے خیالات کے، اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ مباحث:۔ بغور دیکھ لیجئے ان آیات میں لفظ" امی " کی بڑی واضح وضاحت آ گئی ہے۔ " امی " وہ شخص ہے جو قوانین الہی یعنی الکتاب سے واقف نہیں ہوتا ہے۔" امی " کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ان پڑھ ہوتا ہے۔
اب اس بات کی وضاحت بھی پیش خدمت ہے کہ رسول کریمؐ ان پڑھ نہیں تھے وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿سورة العنكبوت٤٨﴾ اور اس سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا اس وقت االبتہ باطل پرست شک کرتے۔ مِن قَبْلِهِ۔ (اس سے پہلے) کی تخصیص اس بات کی گواہ ہے کہ نبوت کے بعد نبیؐ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿٥سورة الفرقان﴾ اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ لی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے لکھوائی جاتی ہیں مباحث:- مندرجہ بالا آیات سے چند باتیں تو صاف ہوئیں مشرکوں کا اعتراض کہ یہ پہلے لوگو کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کریم فوری طور پر لکھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ نبی کریم ؐ خود بھی قرآن لکھتے تھے کیونکہ اس میں " مِن قَبْلِهِ " کا لفظ ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسالت ملنے سے پہلے وہ لکھنے سے نا آشنا تھے لیکن وحی الہی سے آشنا ہونے کے بعد وہ لکھ پڑھ سکتے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں چلو یہ تو ثابت ہوا کے جو وحی ہوتا تھا لکھا جاتا تھا لیکن یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کے نبی کریمؐ کی طرف صرف قرآن کریم وحی ہوتا تھا یا "حکمت" اور "ذکر" قرآن کریم ہے یا کچھ اور ہے؟ تو ان حضرات کو لفظی و منطقی دلیل دیئے بغیر صرف اور صرف قرآن کریم سے چند حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جو خود اس بات کیلئے ٹھوس دلائل ہیں کہ وحی الہی صرف القرآن کریم ہے اور "حکمت" اور "ذکر"بھی صرف قرآن کریم ہے۔
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴿سورة المائدة١٠١﴾ اے ایمان والوں! ایسے مطالبات نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر لاگو ہو جائیں تو تمہیں برے لگے ۔ لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو جب کہ القرآن نازل کیا جا رہا ہو تو وہ تم پر واضح کر دئے جائیں گے ۔ الله نےعافیت میں لیا۔ کیونکہ وہ برد بار حفاظت میں لینے والا ہے۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿ ١٩سورة الأنعام﴾ کہ کون سی چیز شہادت میں سب سے بڑی ہے کہہ دو الله میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ القرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے آگاہ کروں اور اس کو جس کو یہ (القرآن) پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ الله کے ساتھ اور بھی کوئی الہ ہیں ؟ کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں
وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴿٨٦، ٨٧، ٨٨، ٨٩، سورة الإسراء﴾ اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تیری طرف وحی کی ہے اسے اٹھا لیں پھر تجھے اس کے لیے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے مگر یہ صرف تیرے رب کی رحمت ہے بے شک تجھ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ کہہ دو کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں کہ اس القرآن کی مانند بنا لائیں تو اس کی مانند نا لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں اور یقیناً ہم نے لوگوں کیلئے اس القرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں مگر اکثر لوگوں کو سوائے انکار کے کچھ منظور نہیں۔
درج ذیل آیت میں ایک لفظ "قرطاس"استعمال ہوا ہے جس کا مطلب کاغذ ہوتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے وقت میں بھی کاغذ کا وجود تھا وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿سورة الأنعام٧﴾ اور اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی الکتاب نازل کرتے پھر لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح سحر ہے زمانہ نزول قرآن میں عربوں میں کتابت (لکھنے پڑھنے) کا رواج اتنا عام تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ سورة البقرة کی آیت نمبر ٢٨٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ اے ایمان والو! جب تم کسی مدت کیلئے لین دین کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو
اس کے بعد اسی آیت میں لکھنے پڑھنے کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا حکم اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے ، جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہو۔ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ ---- اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔ دیکھ لیں الله کے فرمان کو کسی بھی معاہدہ کو فوری طور پر لکھنے کا سختی سے حکم ہے کیا آپ کے خیال سے نبی ؐان احکامات کی روشنی میں وحی الہی کو فوری طور پر نا لکھتے ہوں گے ؟ معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کی کہ یہ أَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ اس سے شہادت محکم ہو جاتی ہے عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ کاروائی ہے اور گواہی کے لئے تو زیادہ مضبوطی ہے۔ اور اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے جس قوم کو عام لین دین کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایسا تاکیدی حکم دیا گیا تھا، اس قوم نے اپنی آسمانی کتاب کو تحریر میں لانے کیلئے کیا اہتمام نہیں کئے ہوں گے جو ان کیلئے ضابطہ حیات تھی اور جس کی رہنمائی کی انھیں قدم بہ قدم پر ضرورت تھی اور قرآن کریم تو پوری انسانیت کیلئے تاقیامت ایک ہدایت اور نور (روشنی) ہے تو اس وحی کو لکھنے میں کوتاہی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا or han Quran k bary main ak boht zarori ayat dakain
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے جس کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے اس کیلئے ہم قرآن کریم سے رجوع کریں گے۔ قرآن کریم کی دوسری اور پہلی مفصل سورة البقرة کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتا ہے جس میں قرآن کریم کو الکتاب کہا گیا ہے۔ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ یہ الکتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں متقیوں کیلئے ہدایت ہے۔ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمؐ قرآن کریم کو مرتب شکل میں دے کر نہیں گئے تھے یہ صحیح نہیں ہے " کتاب" تو کہتے ہی اسے ہیں جو مرتب شکل میں موجود ہو۔ القرآن کریم کو "الکتاب " بیشتر بار لکھا گیا ہے عربوں کے اس وقت میں جب کچھ منتشر تحریروں کو جو اپنے ضمن میں مکمل ہو جاتی تھیں تو ان سب کو اکھٹا کر کے جب جلد کر دی جاتی تو اس کو کتاب کا نام دیا جاتا۔
القرآن کو تو " الکتاب" کہا گیا ہے "الکتاب" معرف بالام یعنی "ال" کی وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے۔ ye b chek karain J قرآن کریم کو لکھنے والے قابل اعتماد کاتب جیسے جیسے وحی الہی نازل ہوتی تھی اسے انتہائی احتیاط سے ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا آصحاب رسول رضی الله اسے اپنے طور پر بھی لکھتے تھے لیکن باب نبوت کی طرف سے اس کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ اور اس عظیم ذمہ داری کیلئے نہائیت قابل اعتماد کاتبوں کا انتحاب عمل میں لایا جاتا تھا۔ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، سورة عبس﴾ دیکھو یہ (قرآن) ذکر ہے پس جو چاہے اسے یاد رکھے مکرم ورقوں میں جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکو کار ہیں
حفاظت کی غرض سے وحی الہی کو عام طور پر اوراق میں لکھا جاتا تھا۔ كِتَابٍ مَّسْطُورٍ فِي رَقٍّ مَّنشُورٍ ﴿١، ٢، ٣، سورة الطور﴾ لکھی ہوئی الکتاب پھیلے ہوئے ورقوں میں اسی طرح یہ وحی ایک کتاب کے اندر محفوظ ہوتی چلی جاتی تھی۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧، ٧٨، ٧٩، ٨٠، سورة الواقعة﴾ بیشک یہ قرآن کریم ہے جو کتابی شکل میں محفوظ ہے اس کو وہی مس کرتے ہیں جو مطہرین ہیں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ye ap ka jawab
یہ جو کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ ان پڑھ تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے یہ صحیح نہیں ہے نبوت سے پہلے تو آپؐ کی یہ کیفیت ہو گی لیکن نبوت کے بعد یہ بات نہیں تھی۔ یہ عقیدہ جان بوجھ کر مسلمانوں میں خوب پھیلایا گیا کہ رسول کریمؐ ان پڑھ تھے اور یہ تمام کارنامہ اسلام دشمنوں کا تھا تاکہ قران کریم کی حقانیت کو مشکوک بنایا جا سکے ظاہر ہے جب نبیؐ کو ان پڑھ
ثابت کیا جائے گا تو اس پر نازل الکتاب کی حقانیت مشکوک بن سکے گی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کا لقب "امی" تھا جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ حالانکہ پوری عرب قوم کو اہل کتاب کے مقابلہ میں "امی" کہا گیا- لفظ امی جو کے علماء کے مطابق رسول کریم کا لقب تھا صرف رسالتمابؐ کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ پورے عرب کے لوگوں کو "امی" کہا گیا۔ اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان پڑھ تھے بلکہ ان کو امی اس لئے کہا گیا کہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان کے پاس اللہ کی نازل کردہ الکتاب نہیں تھی یعنی اللہ کی الکتاب کے حوالے سے ان پڑھ تھے۔ لفظ "امی" کی وضاحت کی جائے۔ سورة الجمعة کی آیت نمبر ٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اُن کو الکتاب قوانین و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے
یعنی رسول کریمؐ کی بعث امیوں میں ہوئی اور جو جزیرہ نما عرب کے رہنے والے تھے۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٠ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ پوچھو ان لوگوں سے جن کو الکتاب دی گئی اور امیوں سے کیا تم نے دین اسلام قبول کیا ؟ اس آیت میں واضح ہو گیا رسول کریمؐ کے مخاطب ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو اہل کتاب تھے اور دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کی الکتاب سے نا آشنا تھے جن کو امیوں کہا گیا مزید وضاحت کیلئے سورة البقرة کی آیت نمبر ٧٨ کا بغور مطالعہ کرتے ہے۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ اور بعض ان میں سے لا علم لوگ ہیں جو الکتاب کے قوانین سے واقف ہی نہیں سوائے اپنے خیالات کے، اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ مباحث:۔ بغور دیکھ لیجئے ان آیات میں لفظ" امی " کی بڑی واضح وضاحت آ گئی ہے۔ " امی " وہ شخص ہے جو قوانین الہی یعنی الکتاب سے واقف نہیں ہوتا ہے۔" امی " کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ان پڑھ ہوتا ہے۔
اب اس بات کی وضاحت بھی پیش خدمت ہے کہ رسول کریمؐ ان پڑھ نہیں تھے وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿سورة العنكبوت٤٨﴾ اور اس سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا اس وقت االبتہ باطل پرست شک کرتے۔ مِن قَبْلِهِ۔ (اس سے پہلے) کی تخصیص اس بات کی گواہ ہے کہ نبوت کے بعد نبیؐ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿٥سورة الفرقان﴾ اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ لی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے لکھوائی جاتی ہیں مباحث:- مندرجہ بالا آیات سے چند باتیں تو صاف ہوئیں مشرکوں کا اعتراض کہ یہ پہلے لوگو کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کریم فوری طور پر لکھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ نبی کریم ؐ خود بھی قرآن لکھتے تھے کیونکہ اس میں " مِن قَبْلِهِ " کا لفظ ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسالت ملنے سے پہلے وہ لکھنے سے نا آشنا تھے لیکن وحی الہی سے آشنا ہونے کے بعد وہ لکھ پڑھ سکتے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں چلو یہ تو ثابت ہوا کے جو وحی ہوتا تھا لکھا جاتا تھا لیکن یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کے نبی کریمؐ کی طرف صرف قرآن کریم وحی ہوتا تھا یا "حکمت" اور "ذکر" قرآن کریم ہے یا کچھ اور ہے؟ تو ان حضرات کو لفظی و منطقی دلیل دیئے بغیر صرف اور صرف قرآن کریم سے چند حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جو خود اس بات کیلئے ٹھوس دلائل ہیں کہ وحی الہی صرف القرآن کریم ہے اور "حکمت" اور "ذکر"بھی صرف قرآن کریم ہے۔
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴿سورة المائدة١٠١﴾ اے ایمان والوں! ایسے مطالبات نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر لاگو ہو جائیں تو تمہیں برے لگے ۔ لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو جب کہ القرآن نازل کیا جا رہا ہو تو وہ تم پر واضح کر دئے جائیں گے ۔ الله نےعافیت میں لیا۔ کیونکہ وہ برد بار حفاظت میں لینے والا ہے۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿ ١٩سورة الأنعام﴾ کہ کون سی چیز شہادت میں سب سے بڑی ہے کہہ دو الله میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ القرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے آگاہ کروں اور اس کو جس کو یہ (القرآن) پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ الله کے ساتھ اور بھی کوئی الہ ہیں ؟ کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں
وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴿٨٦، ٨٧، ٨٨، ٨٩، سورة الإسراء﴾ اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تیری طرف وحی کی ہے اسے اٹھا لیں پھر تجھے اس کے لیے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے مگر یہ صرف تیرے رب کی رحمت ہے بے شک تجھ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ کہہ دو کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں کہ اس القرآن کی مانند بنا لائیں تو اس کی مانند نا لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں اور یقیناً ہم نے لوگوں کیلئے اس القرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں مگر اکثر لوگوں کو سوائے انکار کے کچھ منظور نہیں۔