• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رسول اللہ ﷺ اَن پڑھ تھے ؟؟؟؟

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
یہ ایک سوال کا ایک جواب کسی نے بھیجا ہے مجھے مزید معلومات چائیے۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ معلومات درست ہیں ؟؟؟

درج ذیل آیت میں ایک لفظ "قرطاس"استعمال ہوا ہے جس کا مطلب کاغذ ہوتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے وقت میں بھی کاغذ کا وجود تھا وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْ‌طَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿سورة الأنعام٧﴾ اور اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی الکتاب نازل کرتے پھر لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح سحر ہے زمانہ نزول قرآن میں عربوں میں کتابت (لکھنے پڑھنے) کا رواج اتنا عام تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ سورة البقرة کی آیت نمبر ٢٨٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ اے ایمان والو! جب تم کسی مدت کیلئے لین دین کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو
اس کے بعد اسی آیت میں لکھنے پڑھنے کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا حکم اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے ، جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہو۔ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرً‌ا أَوْ كَبِيرً‌ا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ ---- اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔ دیکھ لیں الله کے فرمان کو کسی بھی معاہدہ کو فوری طور پر لکھنے کا سختی سے حکم ہے کیا آپ کے خیال سے نبی ؐان احکامات کی روشنی میں وحی الہی کو فوری طور پر نا لکھتے ہوں گے ؟ معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کی کہ یہ أَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ اس سے شہادت محکم ہو جاتی ہے عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْ‌تَابُوا ۖ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ کاروائی ہے اور گواہی کے لئے تو زیادہ مضبوطی ہے۔ اور اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے جس قوم کو عام لین دین کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایسا تاکیدی حکم دیا گیا تھا، اس قوم نے اپنی آسمانی کتاب کو تحریر میں لانے کیلئے کیا اہتمام نہیں کئے ہوں گے جو ان کیلئے ضابطہ حیات تھی اور جس کی رہنمائی کی انھیں قدم بہ قدم پر ضرورت تھی اور قرآن کریم تو پوری انسانیت کیلئے تاقیامت ایک ہدایت اور نور (روشنی) ہے تو اس وحی کو لکھنے میں کوتاہی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا or han Quran k bary main ak boht zarori ayat dakain
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے جس کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے اس کیلئے ہم قرآن کریم سے رجوع کریں گے۔ قرآن کریم کی دوسری اور پہلی مفصل سورة البقرة کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتا ہے جس میں قرآن کریم کو الکتاب کہا گیا ہے۔ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ یہ الکتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں متقیوں کیلئے ہدایت ہے۔ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمؐ قرآن کریم کو مرتب شکل میں دے کر نہیں گئے تھے یہ صحیح نہیں ہے " کتاب" تو کہتے ہی اسے ہیں جو مرتب شکل میں موجود ہو۔ القرآن کریم کو "الکتاب " بیشتر بار لکھا گیا ہے عربوں کے اس وقت میں جب کچھ منتشر تحریروں کو جو اپنے ضمن میں مکمل ہو جاتی تھیں تو ان سب کو اکھٹا کر کے جب جلد کر دی جاتی تو اس کو کتاب کا نام دیا جاتا۔
القرآن کو تو " الکتاب" کہا گیا ہے "الکتاب" معرف بالام یعنی "ال" کی وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے۔ ye b chek karain J قرآن کریم کو لکھنے والے قابل اعتماد کاتب جیسے جیسے وحی الہی نازل ہوتی تھی اسے انتہائی احتیاط سے ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا آصحاب رسول رضی الله اسے اپنے طور پر بھی لکھتے تھے لیکن باب نبوت کی طرف سے اس کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ اور اس عظیم ذمہ داری کیلئے نہائیت قابل اعتماد کاتبوں کا انتحاب عمل میں لایا جاتا تھا۔ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَ‌ةٌ فَمَن شَاءَ ذَكَرَ‌هُ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّ‌مَةٍ مَّرْ‌فُوعَةٍ مُّطَهَّرَ‌ةٍ بِأَيْدِي سَفَرَ‌ةٍ كِرَ‌امٍ بَرَ‌رَ‌ةٍ ﴿١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، سورة عبس﴾ دیکھو یہ (قرآن) ذکر ہے پس جو چاہے اسے یاد رکھے مکرم ورقوں میں جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکو کار ہیں
حفاظت کی غرض سے وحی الہی کو عام طور پر اوراق میں لکھا جاتا تھا۔ كِتَابٍ مَّسْطُورٍ‌ فِي رَ‌قٍّ مَّنشُورٍ‌ ﴿١، ٢، ٣، سورة الطور﴾ لکھی ہوئی الکتاب پھیلے ہوئے ورقوں میں اسی طرح یہ وحی ایک کتاب کے اندر محفوظ ہوتی چلی جاتی تھی۔ إِنَّهُ لَقُرْ‌آنٌ كَرِ‌يمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُ‌ونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧، ٧٨، ٧٩، ٨٠، سورة الواقعة﴾ بیشک یہ قرآن کریم ہے جو کتابی شکل میں محفوظ ہے اس کو وہی مس کرتے ہیں جو مطہرین ہیں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ye ap ka jawab
یہ جو کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ ان پڑھ تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے یہ صحیح نہیں ہے نبوت سے پہلے تو آپؐ کی یہ کیفیت ہو گی لیکن نبوت کے بعد یہ بات نہیں تھی۔ یہ عقیدہ جان بوجھ کر مسلمانوں میں خوب پھیلایا گیا کہ رسول کریمؐ ان پڑھ تھے اور یہ تمام کارنامہ اسلام دشمنوں کا تھا تاکہ قران کریم کی حقانیت کو مشکوک بنایا جا سکے ظاہر ہے جب نبیؐ کو ان پڑھ
ثابت کیا جائے گا تو اس پر نازل الکتاب کی حقانیت مشکوک بن سکے گی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کا لقب "امی" تھا جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ حالانکہ پوری عرب قوم کو اہل کتاب کے مقابلہ میں "امی" کہا گیا- لفظ امی جو کے علماء کے مطابق رسول کریم کا لقب تھا صرف رسالتمابؐ کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ پورے عرب کے لوگوں کو "امی" کہا گیا۔ اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان پڑھ تھے بلکہ ان کو امی اس لئے کہا گیا کہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان کے پاس اللہ کی نازل کردہ الکتاب نہیں تھی یعنی اللہ کی الکتاب کے حوالے سے ان پڑھ تھے۔ لفظ "امی" کی وضاحت کی جائے۔ سورة الجمعة کی آیت نمبر ٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اُن کو الکتاب قوانین و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے
یعنی رسول کریمؐ کی بعث امیوں میں ہوئی اور جو جزیرہ نما عرب کے رہنے والے تھے۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٠ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ پوچھو ان لوگوں سے جن کو الکتاب دی گئی اور امیوں سے کیا تم نے دین اسلام قبول کیا ؟ اس آیت میں واضح ہو گیا رسول کریمؐ کے مخاطب ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو اہل کتاب تھے اور دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کی الکتاب سے نا آشنا تھے جن کو امیوں کہا گیا مزید وضاحت کیلئے سورة البقرة کی آیت نمبر ٧٨ کا بغور مطالعہ کرتے ہے۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ اور بعض ان میں سے لا علم لوگ ہیں جو الکتاب کے قوانین سے واقف ہی نہیں سوائے اپنے خیالات کے، اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ مباحث:۔ بغور دیکھ لیجئے ان آیات میں لفظ" امی " کی بڑی واضح وضاحت آ گئی ہے۔ " امی " وہ شخص ہے جو قوانین الہی یعنی الکتاب سے واقف نہیں ہوتا ہے۔" امی " کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ان پڑھ ہوتا ہے۔
اب اس بات کی وضاحت بھی پیش خدمت ہے کہ رسول کریمؐ ان پڑھ نہیں تھے وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْ‌تَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿سورة العنكبوت٤٨﴾ اور اس سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا اس وقت االبتہ باطل پرست شک کرتے۔ مِن قَبْلِهِ۔ (اس سے پہلے) کی تخصیص اس بات کی گواہ ہے کہ نبوت کے بعد نبیؐ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَ‌ةً وَأَصِيلًا ﴿٥سورة الفرقان﴾ اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ لی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے لکھوائی جاتی ہیں مباحث:- مندرجہ بالا آیات سے چند باتیں تو صاف ہوئیں مشرکوں کا اعتراض کہ یہ پہلے لوگو کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کریم فوری طور پر لکھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ نبی کریم ؐ خود بھی قرآن لکھتے تھے کیونکہ اس میں " مِن قَبْلِهِ " کا لفظ ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسالت ملنے سے پہلے وہ لکھنے سے نا آشنا تھے لیکن وحی الہی سے آشنا ہونے کے بعد وہ لکھ پڑھ سکتے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں چلو یہ تو ثابت ہوا کے جو وحی ہوتا تھا لکھا جاتا تھا لیکن یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کے نبی کریمؐ کی طرف صرف قرآن کریم وحی ہوتا تھا یا "حکمت" اور "ذکر" قرآن کریم ہے یا کچھ اور ہے؟ تو ان حضرات کو لفظی و منطقی دلیل دیئے بغیر صرف اور صرف قرآن کریم سے چند حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جو خود اس بات کیلئے ٹھوس دلائل ہیں کہ وحی الہی صرف القرآن کریم ہے اور "حکمت" اور "ذکر"بھی صرف قرآن کریم ہے۔
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْ‌آنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ حَلِيمٌ ﴿سورة المائدة١٠١﴾ اے ایمان والوں! ایسے مطالبات نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر لاگو ہو جائیں تو تمہیں برے لگے ۔ لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو جب کہ القرآن نازل کیا جا رہا ہو تو وہ تم پر واضح کر دئے جائیں گے ۔ الله نےعافیت میں لیا۔ کیونکہ وہ برد بار حفاظت میں لینے والا ہے۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ‌ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَ‌ىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تُشْرِ‌كُونَ ﴿ ١٩سورة الأنعام﴾ کہ کون سی چیز شہادت میں سب سے بڑی ہے کہہ دو الله میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ القرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے آگاہ کروں اور اس کو جس کو یہ (القرآن) پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ الله کے ساتھ اور بھی کوئی الہ ہیں ؟ کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں
وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَ‌حْمَةً مِّن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرً‌ا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرً‌ا وَلَقَدْ صَرَّ‌فْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ‌ النَّاسِ إِلَّا كُفُورً‌ا ﴿٨٦، ٨٧، ٨٨، ٨٩، سورة الإسراء﴾ اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تیری طرف وحی کی ہے اسے اٹھا لیں پھر تجھے اس کے لیے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے مگر یہ صرف تیرے رب کی رحمت ہے بے شک تجھ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ کہہ دو کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں کہ اس القرآن کی مانند بنا لائیں تو اس کی مانند نا لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں اور یقیناً ہم نے لوگوں کیلئے اس القرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں مگر اکثر لوگوں کو سوائے انکار کے کچھ منظور نہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ ایک سوال کا ایک جواب کسی نے بھیجا ہے مجھے مزید معلومات چائیے۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ معلومات درست ہیں ؟؟؟

درج ذیل آیت میں ایک لفظ "قرطاس"استعمال ہوا ہے جس کا مطلب کاغذ ہوتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے وقت میں بھی کاغذ کا وجود تھا وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْ‌طَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿سورة الأنعام٧﴾ اور اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی الکتاب نازل کرتے پھر لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح سحر ہے زمانہ نزول قرآن میں عربوں میں کتابت (لکھنے پڑھنے) کا رواج اتنا عام تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ سورة البقرة کی آیت نمبر ٢٨٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ اے ایمان والو! جب تم کسی مدت کیلئے لین دین کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو
اس کے بعد اسی آیت میں لکھنے پڑھنے کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا حکم اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے ، جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہو۔ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرً‌ا أَوْ كَبِيرً‌ا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ ---- اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔ دیکھ لیں الله کے فرمان کو کسی بھی معاہدہ کو فوری طور پر لکھنے کا سختی سے حکم ہے کیا آپ کے خیال سے نبی ؐان احکامات کی روشنی میں وحی الہی کو فوری طور پر نا لکھتے ہوں گے ؟ معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کی کہ یہ أَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ اس سے شہادت محکم ہو جاتی ہے عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْ‌تَابُوا ۖ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ کاروائی ہے اور گواہی کے لئے تو زیادہ مضبوطی ہے۔ اور اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے جس قوم کو عام لین دین کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایسا تاکیدی حکم دیا گیا تھا، اس قوم نے اپنی آسمانی کتاب کو تحریر میں لانے کیلئے کیا اہتمام نہیں کئے ہوں گے جو ان کیلئے ضابطہ حیات تھی اور جس کی رہنمائی کی انھیں قدم بہ قدم پر ضرورت تھی اور قرآن کریم تو پوری انسانیت کیلئے تاقیامت ایک ہدایت اور نور (روشنی) ہے تو اس وحی کو لکھنے میں کوتاہی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا or han Quran k bary main ak boht zarori ayat dakain
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے جس کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے اس کیلئے ہم قرآن کریم سے رجوع کریں گے۔ قرآن کریم کی دوسری اور پہلی مفصل سورة البقرة کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتا ہے جس میں قرآن کریم کو الکتاب کہا گیا ہے۔ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ یہ الکتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں متقیوں کیلئے ہدایت ہے۔ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمؐ قرآن کریم کو مرتب شکل میں دے کر نہیں گئے تھے یہ صحیح نہیں ہے " کتاب" تو کہتے ہی اسے ہیں جو مرتب شکل میں موجود ہو۔ القرآن کریم کو "الکتاب " بیشتر بار لکھا گیا ہے عربوں کے اس وقت میں جب کچھ منتشر تحریروں کو جو اپنے ضمن میں مکمل ہو جاتی تھیں تو ان سب کو اکھٹا کر کے جب جلد کر دی جاتی تو اس کو کتاب کا نام دیا جاتا۔
القرآن کو تو " الکتاب" کہا گیا ہے "الکتاب" معرف بالام یعنی "ال" کی وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے۔ ye b chek karain J قرآن کریم کو لکھنے والے قابل اعتماد کاتب جیسے جیسے وحی الہی نازل ہوتی تھی اسے انتہائی احتیاط سے ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا آصحاب رسول رضی الله اسے اپنے طور پر بھی لکھتے تھے لیکن باب نبوت کی طرف سے اس کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ اور اس عظیم ذمہ داری کیلئے نہائیت قابل اعتماد کاتبوں کا انتحاب عمل میں لایا جاتا تھا۔ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَ‌ةٌ فَمَن شَاءَ ذَكَرَ‌هُ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّ‌مَةٍ مَّرْ‌فُوعَةٍ مُّطَهَّرَ‌ةٍ بِأَيْدِي سَفَرَ‌ةٍ كِرَ‌امٍ بَرَ‌رَ‌ةٍ ﴿١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، سورة عبس﴾ دیکھو یہ (قرآن) ذکر ہے پس جو چاہے اسے یاد رکھے مکرم ورقوں میں جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکو کار ہیں
حفاظت کی غرض سے وحی الہی کو عام طور پر اوراق میں لکھا جاتا تھا۔ كِتَابٍ مَّسْطُورٍ‌ فِي رَ‌قٍّ مَّنشُورٍ‌ ﴿١، ٢، ٣، سورة الطور﴾ لکھی ہوئی الکتاب پھیلے ہوئے ورقوں میں اسی طرح یہ وحی ایک کتاب کے اندر محفوظ ہوتی چلی جاتی تھی۔ إِنَّهُ لَقُرْ‌آنٌ كَرِ‌يمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُ‌ونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧، ٧٨، ٧٩، ٨٠، سورة الواقعة﴾ بیشک یہ قرآن کریم ہے جو کتابی شکل میں محفوظ ہے اس کو وہی مس کرتے ہیں جو مطہرین ہیں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ye ap ka jawab
یہ جو کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ ان پڑھ تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے یہ صحیح نہیں ہے نبوت سے پہلے تو آپؐ کی یہ کیفیت ہو گی لیکن نبوت کے بعد یہ بات نہیں تھی۔ یہ عقیدہ جان بوجھ کر مسلمانوں میں خوب پھیلایا گیا کہ رسول کریمؐ ان پڑھ تھے اور یہ تمام کارنامہ اسلام دشمنوں کا تھا تاکہ قران کریم کی حقانیت کو مشکوک بنایا جا سکے ظاہر ہے جب نبیؐ کو ان پڑھ
ثابت کیا جائے گا تو اس پر نازل الکتاب کی حقانیت مشکوک بن سکے گی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کا لقب "امی" تھا جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ حالانکہ پوری عرب قوم کو اہل کتاب کے مقابلہ میں "امی" کہا گیا- لفظ امی جو کے علماء کے مطابق رسول کریم کا لقب تھا صرف رسالتمابؐ کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ پورے عرب کے لوگوں کو "امی" کہا گیا۔ اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان پڑھ تھے بلکہ ان کو امی اس لئے کہا گیا کہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان کے پاس اللہ کی نازل کردہ الکتاب نہیں تھی یعنی اللہ کی الکتاب کے حوالے سے ان پڑھ تھے۔ لفظ "امی" کی وضاحت کی جائے۔ سورة الجمعة کی آیت نمبر ٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اُن کو الکتاب قوانین و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے
یعنی رسول کریمؐ کی بعث امیوں میں ہوئی اور جو جزیرہ نما عرب کے رہنے والے تھے۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٠ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ پوچھو ان لوگوں سے جن کو الکتاب دی گئی اور امیوں سے کیا تم نے دین اسلام قبول کیا ؟ اس آیت میں واضح ہو گیا رسول کریمؐ کے مخاطب ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو اہل کتاب تھے اور دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کی الکتاب سے نا آشنا تھے جن کو امیوں کہا گیا مزید وضاحت کیلئے سورة البقرة کی آیت نمبر ٧٨ کا بغور مطالعہ کرتے ہے۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ اور بعض ان میں سے لا علم لوگ ہیں جو الکتاب کے قوانین سے واقف ہی نہیں سوائے اپنے خیالات کے، اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ مباحث:۔ بغور دیکھ لیجئے ان آیات میں لفظ" امی " کی بڑی واضح وضاحت آ گئی ہے۔ " امی " وہ شخص ہے جو قوانین الہی یعنی الکتاب سے واقف نہیں ہوتا ہے۔" امی " کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ان پڑھ ہوتا ہے۔
اب اس بات کی وضاحت بھی پیش خدمت ہے کہ رسول کریمؐ ان پڑھ نہیں تھے وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْ‌تَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿سورة العنكبوت٤٨﴾ اور اس سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا اس وقت االبتہ باطل پرست شک کرتے۔ مِن قَبْلِهِ۔ (اس سے پہلے) کی تخصیص اس بات کی گواہ ہے کہ نبوت کے بعد نبیؐ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَ‌ةً وَأَصِيلًا ﴿٥سورة الفرقان﴾ اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ لی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے لکھوائی جاتی ہیں مباحث:- مندرجہ بالا آیات سے چند باتیں تو صاف ہوئیں مشرکوں کا اعتراض کہ یہ پہلے لوگو کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کریم فوری طور پر لکھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ نبی کریم ؐ خود بھی قرآن لکھتے تھے کیونکہ اس میں " مِن قَبْلِهِ " کا لفظ ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسالت ملنے سے پہلے وہ لکھنے سے نا آشنا تھے لیکن وحی الہی سے آشنا ہونے کے بعد وہ لکھ پڑھ سکتے تھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں چلو یہ تو ثابت ہوا کے جو وحی ہوتا تھا لکھا جاتا تھا لیکن یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کے نبی کریمؐ کی طرف صرف قرآن کریم وحی ہوتا تھا یا "حکمت" اور "ذکر" قرآن کریم ہے یا کچھ اور ہے؟ تو ان حضرات کو لفظی و منطقی دلیل دیئے بغیر صرف اور صرف قرآن کریم سے چند حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جو خود اس بات کیلئے ٹھوس دلائل ہیں کہ وحی الہی صرف القرآن کریم ہے اور "حکمت" اور "ذکر"بھی صرف قرآن کریم ہے۔
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْ‌آنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ حَلِيمٌ ﴿سورة المائدة١٠١﴾ اے ایمان والوں! ایسے مطالبات نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر لاگو ہو جائیں تو تمہیں برے لگے ۔ لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو جب کہ القرآن نازل کیا جا رہا ہو تو وہ تم پر واضح کر دئے جائیں گے ۔ الله نےعافیت میں لیا۔ کیونکہ وہ برد بار حفاظت میں لینے والا ہے۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ‌ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَ‌ىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تُشْرِ‌كُونَ ﴿ ١٩سورة الأنعام﴾ کہ کون سی چیز شہادت میں سب سے بڑی ہے کہہ دو الله میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ القرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے آگاہ کروں اور اس کو جس کو یہ (القرآن) پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ الله کے ساتھ اور بھی کوئی الہ ہیں ؟ کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں
وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَ‌حْمَةً مِّن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرً‌ا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرً‌ا وَلَقَدْ صَرَّ‌فْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ‌ النَّاسِ إِلَّا كُفُورً‌ا ﴿٨٦، ٨٧، ٨٨، ٨٩، سورة الإسراء﴾ اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تیری طرف وحی کی ہے اسے اٹھا لیں پھر تجھے اس کے لیے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے مگر یہ صرف تیرے رب کی رحمت ہے بے شک تجھ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ کہہ دو کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں کہ اس القرآن کی مانند بنا لائیں تو اس کی مانند نا لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں اور یقیناً ہم نے لوگوں کیلئے اس القرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں مگر اکثر لوگوں کو سوائے انکار کے کچھ منظور نہیں۔
یہ کسی منکر حدیث کا لکھا ہوا مغالطات کا پلندہ ہے، اس عبارت میں دسیوں چیزیں قابل اعتراض ہیں۔ اگر آپ کہیں گے تو اشارہ کر دوں گا۔ تفصیل کا وقت نہیں۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
یہ کسی منکر حدیث کا لکھا ہوا مغالطات کا پلندہ ہے، اس عبارت میں دسیوں چیزیں قابل اعتراض ہیں۔ اگر آپ کہیں گے تو اشارہ کر دوں گا۔
کر دیں تفصیل کے ساتھ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ ایک سوال کا ایک جواب کسی نے بھیجا ہے مجھے مزید معلومات چائیے۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ معلومات درست ہیں ؟؟؟

درج ذیل آیت میں ایک لفظ "قرطاس"استعمال ہوا ہے جس کا مطلب کاغذ ہوتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے وقت میں بھی کاغذ کا وجود تھا وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْ‌طَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿سورة الأنعام٧﴾ اور اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی الکتاب نازل کرتے پھر لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح سحر ہے زمانہ نزول قرآن میں عربوں میں کتابت (لکھنے پڑھنے) کا رواج اتنا عام تھا کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ سورة البقرة کی آیت نمبر ٢٨٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ اے ایمان والو! جب تم کسی مدت کیلئے لین دین کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو
اس کے بعد اسی آیت میں لکھنے پڑھنے کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا حکم اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے ، جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہو۔ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرً‌ا أَوْ كَبِيرً‌ا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ ---- اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سستی نہ کرو۔ دیکھ لیں الله کے فرمان کو کسی بھی معاہدہ کو فوری طور پر لکھنے کا سختی سے حکم ہے کیا آپ کے خیال سے نبی ؐان احکامات کی روشنی میں وحی الہی کو فوری طور پر نا لکھتے ہوں گے؟ معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کی کہ یہ أَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ اس سے شہادت محکم ہو جاتی ہے عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْ‌تَابُوا ۖ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ کاروائی ہے اور گواہی کے لئے تو زیادہ مضبوطی ہے۔ اور اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے جس قوم کو عام لین دین کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایسا تاکیدی حکم دیا گیا تھا، اس قوم نے اپنی آسمانی کتاب کو تحریر میں لانے کیلئے کیا اہتمام نہیں کئے ہوں گے جو ان کیلئے ضابطہ حیات تھی اور جس کی رہنمائی کی انھیں قدم بہ قدم پر ضرورت تھی اور قرآن کریم تو پوری انسانیت کیلئے تاقیامت ایک ہدایت اور نور (روشنی) ہے تو اس وحی کو لکھنے میں کوتاہی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا or han Quran k bary main ak boht zarori ayat dakain
یہ ایک نہایت اہم موضوع ہے جس کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے اس کیلئے ہم قرآن کریم سے رجوع کریں گے۔ قرآن کریم کی دوسری اور پہلی مفصل سورة البقرة کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتا ہے جس میں قرآن کریم کو الکتاب کہا گیا ہے۔ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ یہ الکتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں متقیوں کیلئے ہدایت ہے۔ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمؐ قرآن کریم کو مرتب شکل میں دے کر نہیں گئے تھے یہ صحیح نہیں ہے " کتاب" تو کہتے ہی اسے ہیں جو مرتب شکل میں موجود ہو۔ القرآن کریم کو "الکتاب " بیشتر بار لکھا گیا ہے عربوں کے اس وقت میں جب کچھ منتشر تحریروں کو جو اپنے ضمن میں مکمل ہو جاتی تھیں تو ان سب کو اکھٹا کر کے جب جلد کر دی جاتی تو اس کو کتاب کا نام دیا جاتا۔
القرآن کو تو " الکتاب" کہا گیا ہے "الکتاب" معرف بالام یعنی "ال" کی وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے۔ ye b chek karain J قرآن کریم کو لکھنے والے قابل اعتماد کاتب جیسے جیسے وحی الہی نازل ہوتی تھی اسے انتہائی احتیاط سے ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا آصحاب رسول رضی الله اسے اپنے طور پر بھی لکھتے تھے لیکن باب نبوت کی طرف سے اس کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ اور اس عظیم ذمہ داری کیلئے نہائیت قابل اعتماد کاتبوں کا انتحاب عمل میں لایا جاتا تھا۔ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَ‌ةٌ فَمَن شَاءَ ذَكَرَ‌هُ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّ‌مَةٍ مَّرْ‌فُوعَةٍ مُّطَهَّرَ‌ةٍ بِأَيْدِي سَفَرَ‌ةٍ كِرَ‌امٍ بَرَ‌رَ‌ةٍ ﴿١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، سورة عبس﴾ دیکھو یہ (قرآن) ذکر ہے پس جو چاہے اسے یاد رکھے مکرم ورقوں میں جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکو کار ہیں
حفاظت کی غرض سے وحی الہی کو عام طور پر اوراق میں لکھا جاتا تھا۔ كِتَابٍ مَّسْطُورٍ‌ فِي رَ‌قٍّ مَّنشُورٍ‌ ﴿١، ٢، ٣، سورة الطور﴾ لکھی ہوئی الکتاب پھیلے ہوئے ورقوں میں اسی طرح یہ وحی ایک کتاب کے اندر محفوظ ہوتی چلی جاتی تھی۔ إِنَّهُ لَقُرْ‌آنٌ كَرِ‌يمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُ‌ونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧، ٧٨، ٧٩، ٨٠، سورة الواقعة﴾ بیشک یہ قرآن کریم ہے جو کتابی شکل میں محفوظ ہے اس کو وہی مس کرتے ہیں جو مطہرین ہیں جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ye ap ka jawab
اس ساری عبارت کا لبِ لباب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں کاغذ موجود تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ امت کو قرآن کریم ایک کتاب کی صورت (دو جلدوں کے درمیان) مرتب کرکے نہ دے کے گئے ہوں؟؟؟

اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ حفاظت قرآن کی اصل بنیاد اس کی کتابت نہیں بلکہ صدور الرجال ہیں، فرمان باری ہے:
﴿ وَما كُنتَ تَتلوا مِن قَبلِهِ مِن كِتـٰبٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ ۖ إِذًا لَار‌تابَ المُبطِلونَ ٤٨ بَل هُوَ ءايـٰتٌ بَيِّنـٰتٌ فى صُدورِ‌ الَّذينَ أوتُوا العِلمَ ۚ وَما يَجحَدُ بِـٔايـٰتِنا إِلَّا الظّـٰلِمونَ ٤٩ ﴾ ... سورة العنكبوت

اگرچہ مزید حفاظت کیلئے نبی کریمﷺ نے قرآن کریم کو لکھوایا بھی۔ اس دور میں کاغذ موجود تو تھا لیکن اتنا وافر نہیں تھا، لہٰذا نبی کریمﷺ نے قرآن کریم کو کاتبین وحی کو لکھوایا تو ہے لیکن صرف کاغذ پر نہیں، بلکہ زیادہ تر کھجور کی چھال، شانے کی چپٹی ہڈی، چمڑے کے ٹکڑوں وغیرہ قسم کی چیزوں پر۔ اس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے کہ جب شیخین ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا زید بن ثابتؓ کو قرآن کریم جمع کرنے کا حکم دیا تو وہ فرماتے ہیں:
قُمتُ فتَتَبَّعتُ القرآنَ أجمَعُه منَ الرقاعِ والأكتافِ والعسبِ ، وصدورِ الرجالِ ... صحيح البخاري: 4679

نبی کریمﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں سارا قرآن لکھوا بھی دیا جو متفرق چیزوں پر بکھرا ہوا تھا، ایک کتاب میں دو جلدوں کے درمیان موجود نہیں تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نبی کریمﷺ کو اس کیلئے وقت نہ ملا تھا۔ آپﷺ کے دور میں وحی کا نزول جاری تھا اور سب کو معلوم ہے کہ آپﷺ کے دور میں قرآن کریم میں نسخ بھی ہوتا رہا۔ اللہ کے حکم سے آیات میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ قراءات میں قرآن اترتا رہا۔ اور پھر قرآن کی نزولی ترتیب، مصحف کی ترتیب سے فرق تھی۔ اس کی موجود ترتیب نبی کریمﷺ کے حکم سے کاتبین وحی نے دی۔ نبی کریمﷺ کی وفات تک قرآن کریم کا نزول جاری رہا لہٰذا اس کا ایک کتاب میں دو جلدوں کے درمیان مرتب ہونا ممکن نہ ہوا۔ اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ تفصیلی روایت ہے، سیدنا زید بن ثابتؓ سے مروی ہے:
أَرسَل إليَّ أبو بكرٍ مقتَلَ أهلِ اليمامةِ ، وعِندَه عُمَرُ ، فقال أبو بكرٍ : إنَّ عُمَرَ أتاني فقال : إنَّ القتلَ قدِ استَحَرَّ يومَ اليمامةِ بالناسِ ، وإني أخشى أن يَستَحِرَّ القتلُ بالقُرَّاءِ في المواطنِ ، فيذهَبُ كثيرٌ منَ القرآنِ ، إلا أن تَجمَعوه ، وإني لأرى أن تَجمَعَ القرآنَ . قال أبو بكرٍ : قلتُ لعُمَرَ : كيف أفعَلُ شيئًا لم يَفعَلْه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ؟ فقال عُمَرُ : هو واللهِ خيرٌ ، فلم يَزَلْ عُمَرُ يُراجِعُني فيه حتى شرَح اللهُ لذلك صدري ، ورأيتُ الذي رأى عُمَرُ ، قال زيدُ بنُ ثابتٍ ، وعُمَرُ عِندَه جالسٌ لا يتكَلَّمُ ، فقال أبو بكرٍ : إنك رجلٌ شابٌّ عاقلٌ ولا نتهِمُك ، كنتَ تكتُبُ الوحيَ لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ، فتَتَبَّعِ القرآنَ فاجمَعْه . فواللهِ لو كلَّفَني نقلَ جبلٍ منَ الجبالِ ما كان أثقلَ عليَّ مما أمَرني به من جمعِ القرآنِ . قلتُ : كيف تفعلانِ شيئًا لم يَفعَلْه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ؟ فقال أبو بكرٍ : هو واللهِ خيرٌ ، فلم أزَلْ أُراجِعُه حتى شرَح اللهُ صدري للذي شرَح اللهُ له صدرَ أبي بكرٍ وعُمَرَ ، فقُمتُ فتَتَبَّعتُ القرآنَ أجمَعُه منَ الرقاعِ والأكتافِ والعسبِ ، وصدورِ الرجالِ ، حتى وجَدتُ من سورةِ التوبةِ آيتَينِ معَ خُزَيمةَ الأنصاريِّ لم أجِدْهما معَ أحدٍ غيرِه : ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ ﴾ . إلى آخِرِهما . وكانتِ الصحُفُ التي جُمِع فيها القرآنُ عِندَ أبي بكرٍ حتى توَفَّاه اللهُ ، ثم عِندَ عُمَرَ حتى توفَّاه اللهُ ، ثم عِندَ حفصةَ بنتِ عُمَرَ .
الراوي: زيد بن ثابت المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4679


اس حدیث مبارکہ میں سیدنا زیدؓ کے یہ الفاظ محلِ شاہد ہیں کہ جب انہیں سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے قرآن کریم کو جمع کرنے کا کہا تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ دونوں وہ کام کیسے کر سکتے ہیں جو نبی کریمﷺ نے نہیں کیا تھا؟؟؟

مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم کے متعلق جذباتی باتوں کرنے کی بجائے ثابت شدہ صحیح روایات سے دلیل لینی چاہئے اور پھر ہی کوئی موقف قائم کرنا چاہئے۔

---------------------------------

اوپر کے اقتباس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ چونکہ قرآن کو کتاب کہا گیا ہے، اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم نبی کریمﷺ کے دور میں دو جلدوں کے درمیان ترتیب دیا جا چکا تھا۔

حالانکہ کتاب کا معنیٰ کچھ چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے خواہ وه صفحات كا مجموعہ ہو یا احکام کا خواہ وہ دو جلدوں میں ایک مجلد کتاب کی صورت میں نہ بھی ہو، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَما كانَ هـٰذَا القُر‌ءانُ أَن يُفتَر‌ىٰ مِن دونِ اللَّـهِ وَلـٰكِن تَصديقَ الَّذى بَينَ يَدَيهِ وَتَفصيلَ الكِتـٰبِ لا رَ‌يبَ فيهِ مِن رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ٣٧ ﴾ ... سورة يونس
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے قبل (نازل) ہوچکی ہیں اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے (37)

اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کتاب یعنی احکامِ الٰہی کی تفاصیل واضح کرتا ہے۔

نیز فرمایا:
﴿ رَ‌سولٌ مِنَ اللَّـهِ يَتلوا صُحُفًا مُطَهَّرَ‌ةً ٢ فيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ٣ ﴾ ... سورة البينة
اللہ تعالیٰ کا ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھے (2) جن میں صحیح اور درست احکام ہوں (3)

اس آیت مبارکہ میں بھی کتب سے مراد کتابیں نہیں بلکہ احکامِ الٰہی مراد ہیں۔ وعلیٰ ہذا القیاس

قرآن کریم کو کتاب اللہ یا الکتاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے احکامات کا مجموعہ ہے، نہ کہ اس لئے کہ یہ شروع سے ہی ایک مجلد شکل میں موجود تھا۔

اوپر کے اقتباس میں ’کتاب مسطور‘ اور ’کتاب مکنون‘ کی بھی غلط تشریح کی گئی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ جو کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ ان پڑھ تھے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے یہ صحیح نہیں ہے نبوت سے پہلے تو آپؐ کی یہ کیفیت ہو گی لیکن نبوت کے بعد یہ بات نہیں تھی۔ یہ عقیدہ جان بوجھ کر مسلمانوں میں خوب پھیلایا گیا کہ رسول کریمؐ ان پڑھ تھے اور یہ تمام کارنامہ اسلام دشمنوں کا تھا تاکہ قران کریم کی حقانیت کو مشکوک بنایا جا سکے ظاہر ہے جب نبیؐ کو ان پڑھ
ثابت کیا جائے گا تو اس پر نازل الکتاب کی حقانیت مشکوک بن سکے گی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؐ کا لقب "امی" تھا جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ حالانکہ پوری عرب قوم کو اہل کتاب کے مقابلہ میں "امی" کہا گیا- لفظ امی جو کے علماء کے مطابق رسول کریم کا لقب تھا صرف رسالتمابؐ کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ پورے عرب کے لوگوں کو "امی" کہا گیا۔ اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان پڑھ تھے بلکہ ان کو امی اس لئے کہا گیا کہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان کے پاس اللہ کی نازل کردہ الکتاب نہیں تھی یعنی اللہ کی الکتاب کے حوالے سے ان پڑھ تھے۔ لفظ "امی" کی وضاحت کی جائے۔ سورة الجمعة کی آیت نمبر ٢ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اُن کو الکتاب قوانین و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے
یعنی رسول کریمؐ کی بعث امیوں میں ہوئی اور جو جزیرہ نما عرب کے رہنے والے تھے۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٠ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ پوچھو ان لوگوں سے جن کو الکتاب دی گئی اور امیوں سے کیا تم نے دین اسلام قبول کیا ؟ اس آیت میں واضح ہو گیا رسول کریمؐ کے مخاطب ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو اہل کتاب تھے اور دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کی الکتاب سے نا آشنا تھے جن کو امیوں کہا گیا مزید وضاحت کیلئے سورة البقرة کی آیت نمبر ٧٨ کا بغور مطالعہ کرتے ہے۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ اور بعض ان میں سے لا علم لوگ ہیں جو الکتاب کے قوانین سے واقف ہی نہیں سوائے اپنے خیالات کے، اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ مباحث:۔ بغور دیکھ لیجئے ان آیات میں لفظ" امی " کی بڑی واضح وضاحت آ گئی ہے۔ " امی " وہ شخص ہے جو قوانین الہی یعنی الکتاب سے واقف نہیں ہوتا ہے۔" امی " کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ان پڑھ ہوتا ہے۔
اب اس بات کی وضاحت بھی پیش خدمت ہے کہ رسول کریمؐ ان پڑھ نہیں تھے وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْ‌تَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿سورة العنكبوت٤٨﴾ اور اس سے قبل نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا اس وقت االبتہ باطل پرست شک کرتے۔ مِن قَبْلِهِ۔ (اس سے پہلے) کی تخصیص اس بات کی گواہ ہے کہ نبوت کے بعد نبیؐ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَ‌ةً وَأَصِيلًا ﴿٥سورة الفرقان﴾ اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ لی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے لکھوائی جاتی ہیں مباحث:- مندرجہ بالا آیات سے چند باتیں تو صاف ہوئیں مشرکوں کا اعتراض کہ یہ پہلے لوگو کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں صاف ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کریم فوری طور پر لکھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ نبی کریم ؐ خود بھی قرآن لکھتے تھے کیونکہ اس میں " مِن قَبْلِهِ " کا لفظ ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسالت ملنے سے پہلے وہ لکھنے سے نا آشنا تھے لیکن وحی الہی سے آشنا ہونے کے بعد وہ لکھ پڑھ سکتے تھے۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ’امی‘ ہونا نبی کریمﷺ کی نہیں بلکہ آپ کی قوم کی صفت تھی۔ قرآن کریم میں انہیں ہی امی کہا گیا ہے، نبی کریمﷺ کو نہیں۔

حالانکہ قرآن کریم میں صراحت سے یہ صفت نبی کریمﷺ کی بھی بیان کی گئی ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ فَـٔامِنوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمـٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ١٥٨ ﴾ ... سورة الأعراف
سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ (158)

اوپر کی عبارت میں آیت کریمہ ﴿ وقالوا أساطير الأولين اكتتبها کا ترجمہ ’’اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ لی ہیں۔‘‘ کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

حالانکہ اكتتب کا مطلب لکھنا نہیں بلکہ لکھوانا ہوتا ہے۔ ان صاحب سے ان کے دعویٰ (کہ نبی کریمﷺ نبی بننے کے بعد لکھنا پڑھنا جانتے تھے) کی صحیح وصریح دلیل کا تقاضا کرنا چاہئے۔ صحیح احادیث مبارکہ میں صلح حدیبیہ کے واقعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اس وقت تک بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنا پڑھنا اس لئے نہیں سکھایا تھا کہ آپ کے مخالفین آپ پر شک نہ کریں، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَما كُنتَ تَتلوا مِن قَبلِهِ مِن كِتـٰبٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ ۖ إِذًا لَار‌تابَ المُبطِلونَ ٤٨ ﴾ ... سورة العنكبوت

تو اگر قرآن کریم اترنے کے ساتھ ہی نبی کریمﷺ کو لکھنا پڑھنا آگیا تھا تو اس سے تو پھر - نعوذ باللہ - اللہ کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جو لوگ یہ کہتے ہیں چلو یہ تو ثابت ہوا کے جو وحی ہوتا تھا لکھا جاتا تھا لیکن یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کے نبی کریمؐ کی طرف صرف قرآن کریم وحی ہوتا تھا یا "حکمت" اور "ذکر" قرآن کریم ہے یا کچھ اور ہے؟ تو ان حضرات کو لفظی و منطقی دلیل دیئے بغیر صرف اور صرف قرآن کریم سے چند حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جو خود اس بات کیلئے ٹھوس دلائل ہیں کہ وحی الہی صرف القرآن کریم ہے اور "حکمت" اور "ذکر"بھی صرف قرآن کریم ہے۔
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْ‌آنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ حَلِيمٌ ﴿سورة المائدة١٠١﴾ اے ایمان والوں! ایسے مطالبات نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر لاگو ہو جائیں تو تمہیں برے لگے ۔ لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو جب کہ القرآن نازل کیا جا رہا ہو تو وہ تم پر واضح کر دئے جائیں گے ۔ الله نےعافیت میں لیا۔ کیونکہ وہ برد بار حفاظت میں لینے والا ہے۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ‌ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَ‌ىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تُشْرِ‌كُونَ ﴿ ١٩سورة الأنعام﴾ کہ کون سی چیز شہادت میں سب سے بڑی ہے کہہ دو الله میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ القرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تمہیں اس کے ذریعہ سے آگاہ کروں اور اس کو جس کو یہ (القرآن) پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ الله کے ساتھ اور بھی کوئی الہ ہیں ؟ کہہ دو میں تو گواہی نہیں دیتا کہہ دو وہی ایک معبود ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں
وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَ‌حْمَةً مِّن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرً‌ا قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرً‌ا وَلَقَدْ صَرَّ‌فْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ‌ النَّاسِ إِلَّا كُفُورً‌ا ﴿٨٦، ٨٧، ٨٨، ٨٩، سورة الإسراء﴾ اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تیری طرف وحی کی ہے اسے اٹھا لیں پھر تجھے اس کے لیے ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے مگر یہ صرف تیرے رب کی رحمت ہے بے شک تجھ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ کہہ دو کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں کہ اس القرآن کی مانند بنا لائیں تو اس کی مانند نا لاسکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں اور یقیناً ہم نے لوگوں کیلئے اس القرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں مگر اکثر لوگوں کو سوائے انکار کے کچھ منظور نہیں۔
یہ مطالبہ کرنا کہ فلاں چیز کی دلیل صرف قرآن سے دو انتہائی غلط مطالبہ اور انکار حدیث ہے، اگرچہ صرف قرآن کریمﷺ سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ پر قرآن کے علاوہ اور وحی بھی اترتی تھی۔ مثلاً فرمانِ باری ہے:
﴿ فَإِن خِفتُم فَرِ‌جالًا أَو رُ‌كبانًا ۖ فَإِذا أَمِنتُم فَاذكُرُ‌وا اللَّـهَ كَما عَلَّمَكُم ما لَم تَكونوا تَعلَمونَ ٢٣٩ ﴾ ... سورۃ البقرۃ
اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل یا سوار پر ہی (نماز پڑھ لو)، ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ کا ذکر کرو (نماز پڑھو) جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے (239)

منکرین حدیث سے سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امن کی حالت میں نماز کی جو مکمل تعلیم دی ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے، وہ کہاں ہے؟؟؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
میرا ایمان ہے ۔ ۔ ۔ قرآن مجید و صحیح احادیث لیکن جن احادیث کو محدثین نے صحیح کہا میں ان کی بھی تصدیق پہلے قرآن مجید سے لیتا ہوں یہ لازمی ہے گمراہی سے بچنے کے لئے ۔ ۔ ۔
اب یہاں کوئی علم والا ہے تو اس کے چند سوالات کرنا چہتا ہوں ۔۔

اپنی ہدایت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے ۔۔۔تاکہ ہم غور و فکر کر سکیں ۔ شکریہ۔

مکمل دین قرآن مجید اور اللہ کی سنت جو نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ۔۔۔جبکہ نبی کریم ﷺ بھی اس کو نہیں جانتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو طریقہ عبادت سیکھایا۔۔۔

شکریہ۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
قرآن مجید فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کےذریعہ سے نبی کریم ﷺ پر نازل کی گئی تنزیل سے یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے ۔پورا قرآن مجید تقریبا 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔
اب ایک روایت میں یہ کہا گیا کہ قرآن مجید نبی کریم ﷺ اکٹھا کر کے نہیں گے اور نہ ہی کسی صحابی کو کہہ کر گئے کہ یہ بہت اہم کتاب ہے اس پر توجہ دینا اور نہ کسی کو یہ بتا کر گئے کہ وہ احکمات گئے کہاں۔
یہ نبی کریم ﷺ پر تہمت جھوٹ ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر تہمت جھوٹ ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام پر تہمت اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
میرا ایمان ہے کہ
جبرائیل علیہ السلام کی نگرانی میں اللہ کے حکم سے یہ قرآن مجید ترتیب بھی دیا گیا اور کتاب کی شکل میں مرتب بھی کیا گیا کسی بھی صحابی کی یہ شان نہیں تھی کہ اس کتاب کو مرتب کرتا ۔ اگر یہ قرآن صحابیوں نے اکٹھا کیا اور مرتب کیا تو بہت سے سوالات اٹھتے ہیں لیکن جب قرآن مجید کو پڑھتے اور اس پر غور کرتے ہیں تو یہ شان سمجھ آتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر ہی نازل فرمایا اور انہوں نے ہی اس کو کتاب کی شکل دی۔ صحابیوں کے ہاتھ ہوتا تو بہت سے اختلاف پاتے ۔
سورۃ العنکبوت29آیت نمبر 48۔
(اے نبیﷺ) ، تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے (48)


اب یہاں واضح نہیں کہ قرآن نازل ہونے سے پہلے نہ پڑھ سکتے تھے کچھ اور نہ لکھ سکتے تھے یعنی اب آپ پڑھ بھی سکتے اور لکھ بھی سکتے ہیں۔
یعنی جو احکمات نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئے تقریبا 23 برس وہ اصحاب کو بھی معلوم نہیں کہاں گئے؟
اب وہ نبی کریمﷺ کو وفات کے بعد اُن احکمات کی تلاش میں ہیں جو اتنے اہم ہیں کہ لوگوں کی جنت اور جہنم کا دارو مدار ان احکمات پر ہے ۔
کیا ہو گیا ہے ہمارے علمائ اکرام کو جو اس روایت کو حق تسلیم کر بیٹھے ہیں۔

پھر واضح اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ کتاب کا ذکر کیا اور پھر یہ کہہ دینا کہ کتاب صرف صفحات کا ذخیرہ نہیں ہوتا بلکہ احکمات کو بھی کتاب کہتے ہیں۔
صرف اپنے علمائ کی غلطی کو چھپانے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
قرآن کا واضح انکار کر ڈالتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں
یہ کسی منکر حدیث کا لکھا ہوا مغالطات کا پلندہ ہے، اس عبارت میں دسیوں چیزیں قابل اعتراض ہیں

واہ مسلمان ذرا سوچ۔


 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
سورۃ عبس کے بارے میں۔
اس آیت میں فرشتوں اور نبی کریم ﷺ اور اصحاب کی طرف اشارہ ہے ۔ فرشتے بھی کتاب لکھتے تھے اور نبی بھی اصحاب بھی تمام کتاب لکھتے تھے اور یہ تمام صحیفے پاک صاف اور بلند مرتبے کے ہیں۔یاد بھی کیا جاتا اور لکھا بھی جاتا یہ ہے شان قرآن عظیم کتاب کی۔جبرائیل علیہ السلام بھی بزرگ اور پاکباز تھے اور نبی کریم ﷺ کی بھی شان یہی اور اصحاب کی شان بھی یہی۔۔۔۔
یہ تو] پر عظمت صحیفوں میں [ہے]۔ (13) جو بلند وباﻻ اور پاک صاف ہے۔ (14) ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔(15) جو بزرگ اور پاکباز ہے۔ (166)
 
Top