السلام علیکم! اس پوسٹ کو مکمل پڑھیں توجہ کے ساتھ شکریہ۔
سورۃ الفرقان 25 آیت نمبر 5۔
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا Ĉ
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ
شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
ا
س کے یہ بھی ایک مطلب ہے نقل کروانا اب آپ بتائیں نقل کیسے کی جاتی ہے؟
پہلے سے لکھی ہوئی عبارت کو دیکھ کر دوسری عبارت کو کاپی کرنا نقل کہلاتا ہے ۔ شکریہ۔
انس آپ کا سوال ہے۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنا پڑھنا اس لئے نہیں سکھایا تھا کہ آپ کے مخالفین آپ پر شک نہ کریں، فرمانِ باری ہے:
قرآن سے پہلے نبی کریم ﷺ نہ پڑھنے تھے اور لکھتے تھے یہ حکمت تھی اللہ تعالیٰ کی یہ دیکھانا تھا کہ یہ جو نبی جو آج پڑھ لکھ رہا ہے اس پہلے آج تک اس نے نہ تو کوئی کتاب لکھی اور نہ ہی یہ پڑھ سکتا تھا یہ وحی نازل ہوئی اور یہ پیغمبر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو پڑھنا اور لکھنا سیکھایا ہے۔
سورۃ القلم۔
نٓ ۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، (1)
یہاں جبرائیل علیہ السلام ، نبی کریم ﷺ اور اصحاب کی طرف اشارہ ہے ۔ جو نزول کے ساتھ ساتھ قرآن مجید لکھتے تھے ۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ لاریب نہ ہوتا اور یہ شک سے پاک نہ ہوتا جیسا کہ احادیث کی کتابوں میں ہے یعنی وہ کتابیں بعدمیں جمع کی گئی جس کی وجہ سے لاریب نہیں شک سے پاک نہیں۔
تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو ۔(2)
تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟ (کیسا فیصلہ کرتے ہو) (36)
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو ؟ (37)
سورۃ العلق 96۔
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ (1) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ (2) تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے۔ (3) جس نے قلم کے ذریعے [علم] سکھایا۔ (4)جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔ (55)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
کی وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہو جاتا، پھر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم
نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہیں عبادت میں گزارا کرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں، شروع شروع میں وحی آئی، فرشتہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس آیا اور کہا
«اقْرَأْ»
یعنی پڑھئیے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے ہیں:
”
میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا
“
۔
فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا: پڑھو! میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں۔ اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی، پھر چھوڑ دیا اور
«اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ»
(96-العلق:1)
سے
«عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ»
(96-العلق:5)
تک پڑھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: ”مجھے کپڑا اڑھا دو“، چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا: ”مجھے اپنی جان جانے کا خوف ہے“۔
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی باتیں کرتے ہیں، دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں، جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہو گئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھی بہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے۔