اس مسئلے میں شروع سے شدید اختلاف چلا آتا ہے کہ آیا آپ ﷺ نے اپنی جسمانی آنکھوں کے ساتھ شب معراج اللہ کا دیدار کیا یا نہیں؟عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ،ابوہریرہ وغیرہ سے رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات جب کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نفی منقول ہے۔ راحج مسئلہ یہی ہے کہ آپﷺ نے اپنی جسمانی آنکھوں کے ساتھ اللہ کا دیدار نہیں کیا جیسا کی آپﷺ نے خود ایک صحابی کے سوال( کیا آپﷺ نے اپنے رب کو دیکھا؟) کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میرے اور اللہ کے درمیان نور (کا پردہ) حائل تھا تو میں کیسے اللہ کو دیکھ پاتا۔ مسلم(178) اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کی جو شخص آپ ﷺ کیلئے رؤیت باری تعالیٰ کا دعوی کرے وہ اللہ پر بہتان عظیم باندھنے والا جھوٹا ہے۔بخاری(4855)،مسلم(177)،ترمذی(3278) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے رؤیت باری تعالیٰ میں دو طرح کی احادیث منقول ہیں بعض مطلق رؤیت کے متعلق ہیں بعض میں تقیید و تخصیص ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سےدیکھا۔(مسلم 176) لہٰذا مقید کو مطلق پر مقدم کریں گے کہ بالفرض آپﷺ نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے تو دل سے نہ کی ظاہری آنکھوں سے۔فتح الباری474/8۔ شیخ صاحب کے پیش کردہ دلائل سے رؤیت جبریل ؑ ثابت ہوتی ہے رؤیت باری تعالیٰ اس سے مراد نہیں۔فکان قاب قوسین او ادنی۔۔۔ولقد راہ نزلۃ اخری۔۔۔لقد رای من ایٰت ربہ الکبری۔۔۔ان آیات کی تفسیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،ابوذر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بسند صحیح یہ منقول ہے کہ آپﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کو اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے(ناکہ اللہ تعالیٰ کو) ایک مرتبہ (زمین پر) مکہ میں اور دوسری مرتبہ (آسمان پر) شب معراج میں اور جبرائیل علیہ السلام کے چھ سو پر تھے جن سے سارا افق پر ہو چکا تھا۔(بخاری/58۔57۔56۔4855)(مسلم/174۔75۔77)ترمذی/3277۔78۔83) احمد(1/398۔413۔460)