• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رمضان میں وتر کی اجتماعی دعامیں اہتمام اور پابندی ایک نئی رسم ہے؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جیسے ہی رمضان کا آخری عشرہ داخل ہوتا ہے تو بعض اہل حدیث حلقہ جات اور سوشل میڈیا پر یہ بحث تقریبا ہر سال سامنے آتی ہے کہ رمضان میں وتر کی نماز میں لمبی لمبی اجتماعی دعاوں کا کیا جواز ہے؟ خاص طور اس طبقے کے لیے جو فرض نمازوں کےبعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیتے ہیں؟

سوال اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اب ہمارے علماء کو اس بارے کسی واضح موقف کا اظہار کر دینا چاہیے۔ ایک عالم دین، جو اہل حدیث نہیں ہیں، آج ان سے اس بات پر گفتگو ہوئی ہے کہ اہل حدیث مساجد میں یہ جو وتر میں اجتماعی دعا کی رسم چل پڑی ہے، اور اس کا اکثر مساجد میں اہتمام ہوتا ہے، قراء حضرات ائمہ حرمین کی رٹی ہوئی دعائیں بڑے خشوع وخضوع سے مانگتے ہیں اور لوگ اس مقصد کے لیے اہل حدیث مساجد کا شد رحال کرتے ہیں کہ ان کی اجتماعی دعا میں شریک ہوا جائے تو اس سب کچھ کی شرعی دلیل کیا ہے؟

میں نے یہ عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا تو ثابت ہے کہ آپ نے وتر جماعت کے ساتھ پڑھائے لہذا اس کے پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وتر میں جو لمبی دعائیں کی جاتی ہیں، ان کے جواز کی کیا دلیل ہے؟ میں نے کہا کہ قنوت نازلہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قنوت نازلہ کے علاوہ جو وتر میں دعائیں کی جاتی ہے اور وہ دعائیں بھی غیر مسنون اس معنی میں ہیں کہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہیں بلکہ ائمہ حرمین یا ائمہ بلاد عرب کے ہیں تو اس کا کیا جواز ہے؟

میں نے کہا یہ بات درست ہے کہ قنوت نازلہ کے الفاظ متعین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر میں ویسی یا اتنی لمبی دعائیں نہیں کی جیسا کہ ہمارے ہاں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کیا آپ اسے ایک نیا ٹرینڈ کہہ سکتے ہیں اور اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی۔ میں نے کہا اسے بالکل ایک نیا رجحان کہا جا سکتا ہے اور اس کی ابتداء حرمین سے ہوئی۔ ہمارے ہاں اہل حدیث اس بارے ائمہ حرمین کو فالو کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل اخلاص کے منافی نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ اس خدشے کا اظہار اب اہل حدیث میں بہت سے لوگ کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس طرح کی اجتماعی دعاوں میں رونے اور رلانے کے مناظر میں بعض اوقات واضح تکلف نظر آتا ہے۔

اس گفتگو کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم کسی کی نیت یا اخلاص پر شک تو نہیں کر سکتے ہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ہمیں دعا میں تضرع کے ساتھ اللہ تعالی نے اسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٥٥ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٣

اس اعتبار سے تو دعا میں خلوت میں تو خوب اہتمام ہونا چاہیے اور اگر جلوت میں بھی کبھی کبھار لمبی دعا ہو جائے اور اس میں رونا آ جائے تو شاید کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات شاید مناسب نہیں ہے کہ ایک قاری یا عالم دین رمضان کے آخری عشرے میں ہر دن میں نپے تلے ردیف اور قافیوں میں دعا کا اہتمام کرتے ہوئے اپنا خشوع وخضوع لوگوں کو دکھائیں اور آواز کے زیر وبم سے لوگوں کو رلانے کی حتی الامکان کوشش کریں اور پھر ایسے مواقع کی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی اہتمام ہو۔ علاوہ ازیں بعض اوقات اور وہی قاری یا عالم دین ایک ہی رات میں ایک سے زائد مساجد میں وتر پڑھا کر اپنی خشیت کا اظہار کریں تو اس پر شاید قرآن مجید کی اس آیت کا اطلاق کیا جا سکتا ہے کہ تم اپنے آپ کو پاک صاف مت ظاہر کرتے پھرو کیونکہ اللہ کو علم ہے کہ تمہارے اندر کتنا تقوی ہے؟ فلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿٣٢

اس تھریڈ کے لگانے کا مقصد یہی ہے کہ بہت مختلف لوگوں اس مسئلے کے متنوع اچھے یا برے پہلووں پر روشنی ڈالیں تو شاید ایک معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور جو اس کا تجربہ ہے کہ میں نے خود بھی وتر کی ایسی اجتماعی دعاوں میں لوگوں کو بہت رلایا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ یہ ایسا عمل ہے کہ جسے قرآن مجید کے بیان کے مطابق شیطان انسان کے لیے مزین کر کے خوبصورت بنا دیتا ہے: وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ﴿٢٤ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ ﴿٤یعنی ہے تو ریاکاری لیکن انسان اسے نیکی اور تقوی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے اتنے لوگوں کو اللہ کے حضور میں رلا دیا اور ان سے توبہ کروا دی تو شاید یہ بہت بڑا نیکی کا کام ہے کہ اس کے بندوں کو ان کے خالق سے ملا دیا لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سب کچھ اپنے اخلاص کے خون کا نذرانہ دے کر رہا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے ۔ لیکن مجھے ایک ماہ پہلے کہی گئی اپنے ایک استاذ کی بات رمضان میں کئی دفعہ یاد آئی کہ :
’’ رمضان کے اندر لوگ گناہوں سے پاک اور جہنم سے آزاد ہوتے ہیں جبکہ علماء و خطباء کی روز مرہ مشغولیات کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کہ الٹا ان کے گناہوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ‘‘
چند دن پہلے قیام اللیل کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقعہ ملا ، اس کے بعد میں نے فیس بک پر لکھا تھا :
’’ قیام اللیل کے پروگرامات ۔
آخری عشرے میں عموما بڑی بڑی مساجد میں قیام اللیل کے نام سے پروگرامات ترتیب دیے جاتے ہیں ، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ان میں قیام کے سنت طریقہ کا اہتمام کرنے کی بجائے ، عوامی واہ واہ اور عش عش کے حصول پر توجہ زیادہ ہوتی ہے ۔
نوافل ادا کرتے ہوئے ساری توجہ صرف ’’ رکوع سے پہلے پہلے ’’ یعنی قرآن پڑھنے ، سننے پر ہوتی ہے ، رکوع ، سجود ، قومہ ، جلسہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو طوالت اور خشوع خضوع مروی ہے اس کو فراموش کردیا جاتا ہے ۔
یہ میری رائے ہے ۔ ممکن ہے آپ کا تجربہ اور مشاہدہ اس سے مختلف ہو ؟ ‘‘

وتر کے اندر عرب قراء و مشائخ جو لمبی لمبی دعائیں مانگتے ہیں ، چونکہ وہ اہل زبان ہیں اس لیے ان میں بارے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ یہ سب دعائیں علی وجہ البصیرت مانگتے ہوں گے ۔ اس کے باوجود سعودیہ کے کبار مشائخ نے اس طرح لمبی لمبی غیر مسنون دعاؤں کو پسند نہیں فرمایا ، ان کے مطابق مسنون دعاؤں پر اکتفا کرنا چاہیے ۔
لیکن ہمارے ہاں عموما قراء جو دعائیں مانگتے ہیں غالب گمان یہی ہے رٹے رٹائے الفاظ ہیں جو ادا کردیے جاتے ہیں ، نہ عوام ان کو سمجھ رہی ہوتی ہے اور نہ ہی قاری صاحب کے دل سے نکل رہی ہوتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
میری رائے میں یہ چیزیں اب ’’ عبادت ‘‘ سے زیادہ ’’ رواج ‘‘ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں ۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
بعض دفعہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تکلف سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے پر شروع ہی میں صحیح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سابقہ صحف سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا بنی اسرائیل کو بھی اپنے مذہبی راہنماؤں کی طرف سے کرنا پڑا تھا جس کی مذمت میں عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ایک بڑا پر اثر خطبہ منسوب کیا جاتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی نسبت درست ہے یا نہیں لیکن اس میں جو بات کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے:
’’جب تو عبادت کر تو ریاکاروں کی طرح نہ کر، جو عبادتگاہوں اور گلیوں کے کونوں پر ٹھہر کر زور سے دعا کرنے کو پسند کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی عبادت کو دیکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ گویا وہ اپنا اجر پا چکے۔اگر توعبادت کرنا چاہے تو اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لے اور اپنے رب کی عبادت کر ۔جس کو تم نہیں دیکھ سکتے تمہارا رب دیکھتا ہے۔ ۔ ۔ جب تم عبادت کرو تو ریاکاروں کی طرح عبادت نہ کرو کیونکہ وہ بے معنی باتوں کو دہراتے رہتے ہیں،، وہ سمجھتے ہیں اگر زیادہ باتیں (لمبی دعائیں) کریں گے تو اللہ ان کی سنتا ہے، تو ان کی طرح نہ بننا۔ ۔ ۔۔‘‘

والسلام علیکم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میں عالم تو نہیں ہوں لیکن پھر بھی اپنے دل کی بات آپ لوگوں سے شئیر کرتا ہوں:

ابوالحسن علوی بھائی نے ایک اہم بات پر تھریڈ شروع کیا ہے، یار مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم اہل حدیثوں کو ہو کیا گیا ہے، صحیح پوچھو تو ہم صرف نام کے اہل حدیث ہیں۔

رمضان میں
  • نا صرف یہ دعا ، بلکہ ہر 29 کی رات کو تکمیل کے بعد لمبے لمبے درس اور دعائیں
  • مٹھائیوں کی تقسیم ( اب اس کی جگہ جوس نے لے لی ہے)
  • تراویح پڑھانے والے حافظ قرآن کو مبارکبادیں
  • اس کے گلے میں نئے نئے رومالے ڈالنا

یہ سب کیا ہے، کیا یہ 29 کی رات میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں آئی، کیا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال 29 کی رات اتنے لمبے لمبے دروس، دعائیں، مٹھائیوں کی تقسیم، مبارکبادیں، نت نئے رومال ڈالے۔

اب ذرا افطاری پر آ جائیں
ہمارے علاقے میں ایک پوسٹر چھپتا ہے جو پہلے جمعے سے لے کر 29 رمضان تک کی افطاریوں کا شیڈول ہوتا ہے، جس میں مختلف جگہ افطاریوں کے پروگرام ہوتے ہیں۔

ٹھیک ہے افطار کروانا ثواب کا کام ہے، حدیث سے ثابت ہے، لیکن اس کا کوئی طریقہ کار بھی ہوتا ہے۔ یہ کیا کہ ایک پوسٹر چھاپ دیا ، روزہ افطار کے وقت اکثر مشرک، بدعتی اور بے روزہ شخص بھی مسجد میں گھس آتے ہیں، اور کھا پی کر چلے جاتے ہیں۔

بلکہ @محمد شاہد بھائی بتا رہے تھے کہ مسجد نمرہ اہل حدیث میں جب افطاری ہوئی تو اس میں کچھ شیعہ بھی گھس آئے اور کھانا کھانے کے بعد شرکیہ نعرے مارتے ہوئے چلے گئے۔

اب بتاؤ، کیا فائدہ ایسے پروگرامز کا، اگر کرنا ہی ہے تو صرف ان لوگوں کو بلاؤ جو روزے دار ہیں اور ہوں بھی موحد، صرف ان کو دعوت دو۔ لیکن یہاں کسی کو سمجھا دو تو الٹا گلے پڑ جاتے ہیں۔

یہ سب غلط ہے، وہی کام کریں جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو،ائمہ حرمین وغیرہ کو فالو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کام جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بس اتنا ہی کرنا چاہئے۔

  • تراویح آٹھ رکعت ہیں، آٹھ ہی پڑھیں۔
  • اجتماعی دعا ثابت نہیں ہے، نہ مانگیں
  • آخری رکعت تکمیل کے بعد لمبے لمبے دروس دینے،غیر مسنون انداز میں دعائیں مانگنے، اور جوس و مٹھائیاں بانٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
  • ایک دوسرے کے گلے لگ کر مبارکبادیں دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
  • نت نئے رومال ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یقین کریں جب یہ حرکتیں دیکھتے ہیں تو نِرا دکھاوا ہی دکھاوا لگ رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری باتوں میں اثر نہیں رہا۔

سالانہ کانفرنس
سالانہ کانفرنس کے موقع پر بھی یہی ہوتا ہے، کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، اگر مہمان آئے ہیں تو صرف ان کو کھانا پیش کر دیا جائے وہ بھی طریقے سے، لیکن نہیں، بپلک میں چلا دیا جاتا ہے، پھر جانوروں کی طرح بھگدڑ بھگڈر مچی ہوتی ہے، کوئی ہوش نہیں ہے کسی کو کہ نمازی کے آگے سے گزر رہا ہے، یا کسی کو دھکا دے رہا ہے۔ نہ نماز کا ہوش ہے نہ کسی کی عزت و احترام۔
شرم ہم کو مگر نہیں آتی​

اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
۔
بلکہ @محمد شاہد بھائی بتا رہے تھے کہ مسجد نمرہ اہل حدیث میں جب افطاری ہوئی تو اس میں کچھ شیعہ بھی گھس آئے اور کھانا کھانے کے بعد شرکیہ نعرے مارتے ہوئے چلے گئے۔
سالانہ کانفرنس
سالانہ کانفرنس کے موقع پر بھی یہی ہوتا ہے، کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، اگر مہمان آئے ہیں تو صرف ان کو کھانا پیش کر دیا جائے وہ بھی طریقے سے، لیکن نہیں، بپلک میں چلا دیا جاتا ہے، پھر جانوروں کی طرح بھگدڑ بھگڈر مچی ہوتی ہے، کوئی ہوش نہیں ہے کسی کو کہ نمازی کے آگے سے گزر رہا ہے، یا کسی کو دھکا دے رہا ہے۔ نہ نماز کا ہوش ہے نہ کسی کی عزت و احترام۔
۔اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
جی بالکل اس بات کا میں بھی گواہ ہوں ۔بلکہ جب ان سے کہا گیا کہ نماز تو پڑھ کر جائو تو الٹا کہنے لگے۔وہابیوں کے پیچھے نماز پڑھ کر اپنا ایمان تو ضائع نہیں کرنا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اور اکثر ان پروگراموں میں نشئی۔بے نمازی۔بے روزہ دار۔دیکھے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کانفرنس میں اہم نشست رات کو ہوتی ہے۔اور لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ عشاء کا کھانا کھا کر سوجاتے ہیں۔صبح اٹھ کر گھروں کو و اپس۔
اللہ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
جزاک اللہ شیخ محترم، کسی کام کے شرعی یا بدعی ہونے کے بارے میں تو آپ لوگ ہی بتائیں گے ہمیں، لیکن چونکہ ہمیں بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی تھوڑی آزادی حاصل ہے اس لیے کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ ویسے تو @محمد ارسلان اور @محمد زاہد بن فیض بھائی کی شراکتوں کے بعد بات موضوع سے دوسری طرف چلی گئی ہے، ان بھائیوں کے ذکر کردہ (قبیح) کام ہمارے علاقے میں اتنی شدومد سے نہیں ہوتے لہٰذا ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا اس لیے میں صرف آپ کی پوسٹ پر فوکس کرنے کی کوشش کروں گا۔

1۔ کسی بھی شخص کے دل کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لہٰذا کسی کی نیت ہر حکم لگانا تو ایک بے معنی سی بات ہوگی۔۔۔
2۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر جماعت کے ساتھ پڑھائے اور وتر میں دعا بھی مانگی (جو یقینا بلند آواز میں ہوتی تھی) اب رہ گیا دعاؤں کی لمبائی، چوڑائی پر اعتراض تو یہ شیطان کے وسوسے سے زیادہ کچھ نہیں ہے (وہ بھی ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بھی فرض کا درجہ دیا ہوا ہے)
کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ دعاؤں کی "لمبائی چوڑائی کی کوئی حدود" شریعت میں بیان نہیں کی گئیں اور دوسری بات یہ کہ مختلف مواقع پر "قدرے لمبی" دعائیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہیں، آپ کے قیام اللیل کی لمبائی کو "نماز کے حُسن" کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے "لمبی نماز" پڑھنے کی خواہش کا اظہار بھی ہمیں ذخیرہ حدیث میں ملتا ہے
دوسری طرف اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "لمبی نماز" سے روکا ہے تو وہ مقتدیوں کی شکایت پر، جبکہ ہمارے یہاں مقتدیوں کو ایسی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔
3۔ ائمہ حرمین کی رٹی ہوئی دعاؤں کے بارے میں @خضر حیات بھائی نے بہت اچھا لکھا ہے کہ
وتر کے اندر عرب قراء و مشائخ جو لمبی لمبی دعائیں مانگتے ہیں ، چونکہ وہ اہل زبان ہیں اس لیے ان میں بارے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ یہ سب دعائیں علی وجہ البصیرت مانگتے ہوں گے ۔
4۔ ہمارے یہاں عام طور پر جب دعائیں مانگی جاتی ہیں تو ہمارے حالات و واقعات کے تعلق سے اس میں مناسب تبدیلیاں تو ہم نے نوٹ کی ہے مثال کے طور پر ائمہ حرمین اپنی دعاؤن میں صرف فلسطین یا شیشیان کا ذکر کیا کرتے تھے ہمارے یہاں کشمیر، افغانستان اور اراکان وغیرہ کو بھی دعاؤں میں شامل کیا جاتا ہے، یا ملک میں آنے والے اور جاری مصائب یا پریشانیوں کا تذکرہ وغیرہ۔

لیکن ہمارے ہاں عموما قراء جو دعائیں مانگتے ہیں غالب گمان یہی ہے رٹے رٹائے الفاظ ہیں جو ادا کردیے جاتے ہیں ، نہ عوام ان کو سمجھ رہی ہوتی ہے اور نہ ہی قاری صاحب کے دل سے نکل رہی ہوتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
میرا خیال ہے یہ زیادتی ہوگی اگر اہل حدیث قراء اور عوام کی اکثریت کو "مقلدوں" پر قیاس کیا جائے۔
ویسے خضر بھائی نے خود بھی تو اپنی بات کا جواب دیا ہے نا۔۔۔۔۔
دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے ۔

اگر میں اپنی بات کروں تو میں نے خود ائمہ حرمین کی دعائیں سن کر اور ان کا ترجمہ سمجھ کر ہی اللہ کو اتنے خوبصورت انداز میں پکارنے کے لیے مختلف دعائیں (اور ان کا ترجمہ بھی) سیکھنے کی کوشش کی ورنہ اس سے پہلے تو بچپن (دور جاہلیت- ابتسامہ) میں رٹی ہوئی چند دعائیں ہی یاد تھیں اور نماز میں اور بیرون نماز انہی سے گذارہ کرنے کی کوشش کرتا تھا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ائمہ حرمین کی دعائیں سن سن کر ہی مجھے اللہ سے دعا مانگنے کا شوق پیدا ہوا تو شاید غلط نہ ہو۔

یہ میری رائے ہے جس سے اختلاف کا حق ہر شخص کو حاصل ہے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
بہت مفید تھریڈ بنایا گیا ہے۔مجھے لگتا ہے سعودی عرب کے شیوخ سے اہل حدیث علماء کے مکالمے ہونے چاہیئے،تاکہ ایسے بیشتر مسائل جن پر لوگ یاعام افراد ائمہ حرمین کی مثال دیتے ہیں ،
اس پر واضح بیان اور دلیل ہونی چاہیئے۔
 
شمولیت
مئی 23، 2015
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
43
السلام علیکم
میں ابوالحسن علوی صاحب کی بات سے اتفاق رکھتا ہوں ،ایک مسلمان زندگی کے ہرموڑ میں لقد کان لکم فی رسول اللہ۔۔۔۔۔۔ کا پاس ولحاظ رکھنا چاہیے
 
Top